جرمنی کے شہر کولون میں لائوڈ سپیکر کے ذریعے اذان دینے کی اجازت

جرمنی کے شہر کولون میں لائوڈ سپیکر کے ذریعے اذان دینے کی اجازت
 

جرمنی کے شہر کولون میں پہلی مرتبہ نماز جمعہ کیلئے لاؤڈ سپیکر کے ذریعے اذان دینے کی اجازت فراہم کر دی گئی ہے لیکن اذان سے پہلے مساجد کو متعدد شرائط پوری کرنا ہوں گی۔

جرمن خبر رساں ادارے ڈوئچے ویلے کے مطابق کولون شہر اور اس کے مضافات میں تقریباً 35 مساجد ہیں جنھیں اب نماز جمعہ کیلئے اذان دینے کی اجازت دیدی گئی ہے۔

حکام کی جانب سے کہا گیا ہے کہ تاہم مساجد کی انتظامیہ کو اس حوالے سے ایک درخواست شہری انتظامیہ کو دینی ہو گی۔ یہ اذان صرف دن کے 12 بجے سے لے کر سہ پہر 3 بجے کے درمیان دی جا سکے گی اور اس کا دورانیہ زیادہ سے زیادہ پانچ منٹ ہو سکتا ہے۔

اذان دینے سے پہلے مسجد کی انتظامیہ کو ہمسائے میں موجود گھروں کو اطلاع فراہم کرنا ہو گی اور ایسا پمفلٹ کے ذریعے بھی کیا جا سکتا ہے۔ شکایات کی صورت میں رابطے کے لیے ایک شخص کی تعیناتی ضروری ہے۔

شہر میں ہر مسجد کے مقام کے لحاظ شہری انتظامیہ خود یہ طے کرے گی کہ سپیکر کی آواز کس قدر بلند ہونی چاہیے؟ کولون کی شہری انتظامیہ کی طرف سے جرمن عوام کے لیے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ جیسے گرجا گھروں میں لوگوں کو عبادت کے لیے گھنٹیاں بجائی جاتی ہیں، اسی طرح مسلمانوں کی مساجد میں موذن اذان دیتے ہیں۔

کولون کی میئر ہینریٹے ریکر نے اس پیشرفت کو مذہب کی باہمی قبولیت کی علامت اور آئینی طور پر محفوظ مذہبی آزادی کا اعتراف قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مسلمان کولون کی معاشرت کا لازمی حصہ ہیں، جو بھی اس پر شک کرتا ہے، وہ شہر کی شناخت اور پرامن بقائے باہمی پر سوال اٹھاتا ہے۔

خیال رہے کہ جرمنی میں ابھی تک مساجد کی تعمیر، میناروں کی بلندی اور اسپیکر پر اذان کو ایک حساس مسائل قرار دیے جاتے ہیں۔ ابھی تک جرمنی کی تقریبا سبھی مساجد کے اندر ہی اذان دی جاتی ہے اور اس کی آواز مدھم ہوتی ہے۔ دو سال بعد مساجد کے نمائندے اور کولون کی شہری انتظامیہ اس پائلٹ پروجیکٹ کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کریں گے اور اس کے بعد ہی یہ فیصلہ کیا جائے کہ آیا اس عمل کو جاری رکھا جائے۔

جرمن شہر کولون میں اذان کی اجازت کو ایک بڑی پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔ دوسری جانب ایسے خدشات بھی ہیں کہ اسلام مخالف سیاسی قوتوں کی طرف سے اس کے خلاف احتجاج کیا جائے گا۔ چند برس پہلے کولون شہر میں ہی جرمنی کی سب سے بڑی مسجد تعمیر کی گئی تھی لیکن اس کی تعمیر سے پہلے ایک طویل عرصے تک اسلام اور مہاجرین مخالف افراد اس کی مخالفت میں ریلیاں نکالتے رہے تھے۔