سیاسی جماعتیں وزیراعظم کو نکالنے کے لئے تیار، اس کے بعدملک کا منظر نامہ کیا ہوگا؟ سب کچھ غیر واضح

سیاسی جماعتیں وزیراعظم کو نکالنے کے لئے تیار، اس کے بعدملک کا منظر نامہ کیا ہوگا؟ سب کچھ غیر واضح
ضیغم خان نے کہا ہے کہ اہم سوال یہی ہے کہ عمران خان کو نکالنے کے بعد اس ملک کا سیاسی منظر نامہ کیا ہوگا؟ جس کی جانب یہ ساری جماعتیں جائیں گی۔ ابھی تک یہ باتیں بالکل واضح نہیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان اب عوام میں اتنے پاپولر نہیں رہے۔ پی ٹی آئی کے کئی اراکین اب اس جماعت میں اپنا مستقبل نہیں دیکھ رہے۔ اگر ان کو ٹکٹوں کی پیشکش کی جائے تو وہ اپنی ہی جماعت کیخلاف خود کش حملہ کرنے کیلئے بھی تیار بیٹھے ہیں جبکہ ہو سکتا ہے کہ اتحادی بھی ساتھ چھوڑنے کیلئے تیار ہو جائیں لیکن یہ کہانی آدھی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ سیاسی جماعتوں کا کسی ایک چیز پر متفق ہونا بہت مشکل کام ہے۔ یہی چیز چودھری صاحبان بھی محسوس کر چکے ہیں کہ اس وقت کشتی سے چھلانگ لگانا ان کی سیاست کیلئے خطرناک ہوگا۔

مزمل سہروردی کا کہنا تھا کہ میں جب ملکی سیاسی منظر نامے پر نظر دوڑاتا ہوں تو مجھے واضح تو پر نظر آ رہا ہے کہ جو جماعتیں آپس میں لڑی ہوئی تھیں، انھیں کسی جادوئی طاقت نے دوبارہ سے آپس میں ملوا دیا ہے۔ اب عمران خان مخالف قوتیں آپس میں اکھٹی ہو چکی ہیں۔ اگر صرف ٹرک کی بتی کے پیچھے لگوانا ہوتا تو اتنی اہم ملاقاتیں نہ کروائی جاتیں۔

ان کا کہنا تھا کہ لوگ مونس الہیٰ کے بیان کی بات کرتے ہیں لیکن چودھری سالک تو کہہ چکے ہیں کہ ہم تحریک عدم اعتماد کو سپورٹ کر سکتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ چودھری پرویز الہیٰ کا یہ بیان کہ ابھی کچن میں کچھ پک رہا ہے، جب تیار ہو جائے گا تو کھا لیں گے، بڑی اہمیت کا حامل ہے۔

نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ چودھری برادران نے آج تک کبھی اقتدار کے ایوانوں کو نہیں چھوڑا۔ اس کے ساتھ ایم کیو ایم بھی کوئی نظریاتی جماعت نہیں ہے۔ وزارت اعلیٰ اور سپیکرشپ پر معاملات طے ہونے والے ہیں۔ نگران حکومت میں یہ بہت چھوٹی قیمت ہے۔ اپوزیشن اتحاد کی جماعتوں کیلئے اگر وہ انھیں یہ دینا چاہتے ہیں۔

پروگرام کے دوران گفتگو کرتے ہوئے اعزاز سید کا کہنا تھا کہ میڈیا میں اپوزیشن کی ایکٹویٹی کو تو رپورٹ کیا جا رہا ہے لیکن جو چالیں حکومت چل رہی ہے اس بارے میں کوئی خبریں نہیں دے رہا۔ملک میں تاثر دیا جا رہا ہے کہ وزیراعظم اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کشیدگی پیدا ہو چکی ہے، اس لئے اب عمران خان کو اقتدار سے نکالنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں، لیکن میرے خیال میں ایسی سوچ غلط ہے، ایسا کچھ بھی نہیں ہو رہا۔

اعزاز سید کا کہنا تھا کہ تاہم یہ بات درست ہے کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات میں اب پہلے جیسی گرمجوشی نہیں ہے۔ اعتماد میں کچھ کمی آ چکی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسٹیبلشمنٹ عمران خان کو نکالنے جا رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میری اطلاعات ہیں کہ وزیراعظم عمران خان، صدر مملکت کے پاس اپنی دو سمریاں لے کر گئے تھے جو انہوں نے دستخط کروا کے اپنے پاس رکھ چھوڑی ہیں۔ ان میں سے ایک سمری پاکستان کی بڑی طاقتور شخصیت کے بارے میں ہے جبکہ دوسری پارلیمنٹ کے حوالے سے ہے۔ ان پر صرف دستخط ہی نہیں کروائے گئے بلکہ انھیں صدر مملکت سے منظور کروایا گیا ہے۔ اگر حالات وزیراعظم کی کلیکولیشن کے مطابق رہے تو وہ یہ دونوں سمریاں استعمال نہیں کرینگے۔