فارن فنڈنگ کیس، لاکھوں ڈالرز کی ٹرانزیکشنز الیکشن کمیشن کو فراہم نہیں کی گئیں

فارن فنڈنگ کیس، لاکھوں ڈالرز کی ٹرانزیکشنز الیکشن کمیشن کو فراہم نہیں کی گئیں
پی ٹی آئی فارن فنڈگ کیس میں لاکھوں ڈالرز کی ٹرانزیکشنز ای سی پی کو شیئر نہیں کی گئیں، وزیر کا کہنا ہے کہ پارٹی کے 18 بینک اکاؤنٹس ہیں، اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ میں درج نمبر غلط ہیں۔

دی نیوز میں شائع ہونے والی فخر درانی کی رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی فارن فنڈنگ ​​کیس میں ای سی پی کے حوالے کی گئی اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ 14 مختلف بیرونی ممالک سے 20 لاکھ ڈالرز سے زیادہ کی ٹرانزیکشنز اور پارٹی کے بینک کھاتوں میں کروڑوں روپے کی مقامی ٹرانزیکشنز کے بارے میں معلومات ای سی پی حکام کو فراہم نہیں کی گئی۔

دی نیوز کو دستیاب دستاویزات کی نقل کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کو 2013 میں ایک بھارتی کاروباری خاتون اور اس کے پاکستانی امریکی شوہر سے 29800 ڈالرز کا چندہ بھی ملا جو ممبئی، بھات میں رجسٹرڈ کمپنی کا مالک بھی ہے۔ لیکن ان کا چندہ بھی الیکشن کمیشن آف پاکستان سے چھپایا گیا۔

پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 پارٹیوں کو غیر ملکی شہریوں سے چندہ وصول کرنے سے منع کرتا ہے۔ ای سی پی نے 4 جنوری 2022 کو اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ شکایت کنندہ اکبر ایس بابر کے حوالے کی تھی۔ تاہم، رپورٹ کے اہم حصوں کو خفیہ رکھا گیا، خاص طور پر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ذریعے حاصل کردہ تمام دستاویزات اور پی ٹی آئی بینک اسٹیٹمنٹس جو بعد میں ان کے ساتھ شیئر کی گئیں۔

اسٹیٹ بینک کی دستاویزات سے یہ بات سامنے آئی کہ ڈنمارک، جرمنی، متحدہ عرب امارات، سوئٹزرلینڈ، سویڈن، سنگاپور، نیوزی لینڈ، ہانگ کانگ، فن لینڈ، ڈنمارک، آسٹریا، سعودی عرب، ناروے اور متحدہ عرب امارات سمیت 14 مختلف ممالک سے ہونے والی لاکھوں ڈالر کی لین دین کو خفیہ رکھا گیا۔ اس کے علاوہ کروڑوں روپے کی لوکل ٹرانزیکشنز کی معلومات بھی ای سی پی حکام کو فراہم نہیں کی گئیں۔ حقائق میں پاکستان اور بیرون ملک موجود درجنوں بینک اکاؤنٹس کو چھپانا شامل ہے۔

مالی سال 2008-12 سے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے دستخطوں کے تحت پارٹی نے ہر سال صرف دو اکاؤنٹس کا انکشاف کیا اور سال 2013 کے لیے ای سی پی کے سامنے پی ٹی آئی کے چار بینک اکاؤنٹس کا انکشاف ہوا۔ جبکہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ پی ٹی آئی نے 2008 میں پانچ، 2009 میں سات، 2010 میں تیرہ، 2011 میں چودہ اور 2012-13 میں چودہ اکاؤنٹس چھپائے تھے۔

ای سی پی اور اسکروٹنی کمیٹی کے بار بار احکامات کے باوجود پی ٹی آئی کے تمام بین الاقوامی بینک اکاؤنٹس کی معلومات فراہم نہیں کی گئیں جن میں چھ بین الاقوامی اکاؤنٹس شامل ہیں جن کی نشاندہی درخواست دہندہ کے ذریعہ کی گئی اور پارٹی کی جانب سے تسلیم کیا گیا۔

دستاویزات میں مزید بتایا گیا ہے کہ مذکورہ فہرست کے علاوہ معدوم KASB بینک اکاؤنٹ (01135461001) میں ایک اور پی ٹی آئی اکاؤنٹ کی بینک اسٹیٹمنٹس جس کا انکشاف پی ٹی آئی کی آڈٹ رپورٹ 2013 میں کیا گیا، ای سی پی میں جمع کرایا گیا، کو بھی خفیہ رکھا گیا تھا۔

نہ تو پی ٹی آئی نے اپنے بینک اسٹیٹمنٹ جمع کرائے اور نہ ہی اسکروٹنی کمیٹی نے اسٹیٹ بینک کے ریکارڈ کے حصے کے طور پر شکایت کنندہ کے ساتھ شیئر کیا ہے۔ پی ٹی آئی کے دیگر اکاؤنٹس سے KASB بینک لمیٹڈ، گلبرگ برانچ، لاہور کے بینک اکاؤنٹ میں 598.89 ملین روپے کی رقم منتقل کی گئی۔

اسکروٹنی کمیٹی نے 2018کے اپنے حکم نامے میں پی ٹی آئی کو ہدایت کی تھی کہ وہ اپنے اکاؤنٹس کے تمام بینک اسٹیٹمنٹس ’ڈیزاسٹر فنڈ، پارٹیز فنڈ وغیرہ‘ سے متعلق جمع کرائے لیکن ان اکاؤنٹس کے بارے میں معلومات ابھی تک شیئر نہیں کی گئیں۔

شکایت کنندہ اکبر ایس بابر کے مطابق پی ٹی آئی نے بیرون ملک رکھے ہوئے اپنے متعدد بینک اکاؤنٹس سے ایک بھی بینک اسٹیٹمنٹ شیئر نہیں کی یہاں تک کہ جن کی شناخت پی ٹی آئی نے کی اور انہیں تسلیم کیا۔ ان میں امریکا میں پی ٹی آئی کے زیر انتظام بینک آف امریکا اکاؤنٹس، پی ٹی آئی کینیڈا-سی آئی بی سی بینک اکاؤنٹ وغیرہ شامل ہیں۔

ذرائع نے بتایا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ذریعے طلب کی گئی دستاویزات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ پی ٹی آئی نے ای سی پی کے ساتھ 14ممالک سے ملنے والے عطیات کی تفصیلات بھی شیئر نہیں کیں جس میں کیمن آئی لینڈ میں رجسٹرڈ ایک آف شور کمپنی کے 20لاکھ امریکی ڈالرز سے زائد اور یو اے ای سے برسٹل انجینئرنگ سروسز سے49965امریکی ڈالرز شامل ہیں۔ اسٹیٹ بینک کی جاری کردہ دستاویزات کے مطابق ناصر عزیز احمد -

ایک پاکستانی نژاد امریکی اور اس کی بھارتی نژاد امریکی بیوی نے پی ٹی آئی کو27500ڈالرز کا تعاون کیا۔ 24اپریل 2013 کو جوڑے نے پارٹی فنڈز میں25000ڈالرز کا چندہ دیا اور پھر30اپریل 2013کو انہوں نے پی ٹی آئی کو مزید 2500 ڈالرز دیئے۔