اتحادیوں کو تاحال کوئی ہدایت نہیں ملی لیکن پاکستانی سیاست میں آخری دم تک کچھ نہیں کہا جا سکتا

اتحادیوں کو تاحال کوئی ہدایت نہیں ملی لیکن پاکستانی سیاست میں آخری دم تک کچھ نہیں کہا جا سکتا
نادیہ نقی نے کہا ہے کہ اتحادیوں کو ابھی تک کوئی ڈائریکشن نہیں دی گئی۔ نہ تو ایسی کوئی اطلاعات ہیں اور نہ ہی کسی نے اس کی نشاندہی کی ہے۔ تمام اتحادی اپنے اپنے فیصلے کر چکے ہیں۔ لیکن انھیں عمران خان کے ترپ کے پتے کا انتظار ہے۔

نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اتحادیوں نے اپنی پوزیشن تبدیل نہیں کی لیکن سوشل میڈیا پر اس حوالے سے پراپگینڈہ شروع کر دیا گیا ہے۔ ہماری ایم کیو ایم کے ذرائع سے بات ہوئی اور ان سے پوچھا کہ آپ کی وزیراعظم عمران خان سے اہم ملاقات ہونے جا رہی ہے، اس میں آپ کو نیا کیا آفر کیا جا سکتا ہے؟ یہ واضح ہے کہ ایم کیو ایم کا جھکائو اپوزیشن خصوصی طور پر پیپلز پارٹی کی جانب ہے، ورنہ وہ کہہ چکے ہوتے کہ ہم حکومت کیساتھ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم سارے اتحادیوں کی طرح قومی اسمبلی جا کر ہی کا اعلان کریں گے۔ عین وقت پر ایم کیو ایم صرف اسی صورت میں حکومت کی سائیڈ پر آ سکتی ہے جب اسے کوئی ہدایت کرے۔ انہوں نے کہا کہ اتحادی جماعتوں پر کسی قسم کا دبائو نہیں ہے۔ وہ نہیں سمجھتے کہ آخری وقت میں انھیں کوئی کال آ جائے۔

انہوں نے کہا کہ تینوں اتحادی جماعتوں نے اپنے مستقبل کو دیکھنا ہے۔ وہ اس لئے اپنے قدم پھونک پھونک کر رکھ رہے ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ اس طرح کا معاہدہ ہو جس میں اخلاقی دبائو رہے۔ تینوں جماعتیں صرف اس لئے فیصلے کا اعلان نہیں کر رہیں کیونکہ انھیں عدم اعتماد ہے۔ ایم کیو ایم کے ذرائع کہتے کہ ان کے پیپلز پارٹی کیساتھ تو معاملات طے ہو گئے لیکن ن لیگ کیساتھ طے ہونا باقی ہیں۔ ہم نے صوبے کی حد تک تو معاملات طے کر لئے لیکن اب وفاق کی بات ہے۔ وفاق میں جس قسم کا شیئر ایم کیو ایم چاہتی ہے، اسے سوائے ن لیگ کے کوئی اور پورا نہیں کر سکتا۔ اسی طرح باپ پارٹی اور ق لیگ ایک دوسرے کا انتظار کر رہے ہیں۔ سب نے اپنے اپنے فیصلے کر لئے ہیں

لیکن سب دیکھنا چاہتے ہیں کہ 27 تاریخ کو عمران خان کے پاس ترپ کا کون سا پتہ ہے؟

نادیہ نقی نے بتایا کہ میں نے اتحادیوں سے پوچھا کہ کیا آپ کو لگتا ہے کہ کسی قسم کی ڈائریکشن آ سکتی ہے، معاملات بدل سکتے ہیں تو مجھے کہا گیا کہ اب تک کی نہ تو کوئی ایسی اطلاعات ہیں اور نہ ہی نشاندہی، تاہم یہ پاکستان سیاست، یہاں آخری وقت میں کچھ بھی ہو سکتا ہے

مزمل سہروردی کا کہنا تھا کہ میڈیا میں پنجاب اسمبلی کو تحلیل کرنے کی جو خبریں زیر گردش ہیں، وہ درست نہیں ہیں۔ گذشتہ روز حکومت کے ڈس انفارمیشن سیل کی جانب سے یہ خبر جاری کی گئی کہ لندن نے چودھری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ اس کے آج یہ خبر چلوا دی گئی کہ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے صوبائی اسمبلی کو تحلیل کرنے کی سمری تیار کر لی ہے۔ یہ دونوں خبریں چودھری برادران کو یہ پیغام دینے کیلئے چلوائی گئی تھیں کہ آپ کو اپوزیشن سے کچھ نہیں مل سکتا۔ ہم اسمبلی توڑ دیں تو آپ وزیراعلیٰ نہیں بن سکیں گے۔ نواز شریف نے آپ کے نام پر کراس کر دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سب کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ پی ٹی آئی حکومت ساڑھے تین سال سے میڈیا کے سہارے ہی چل رہی ہے۔ اسی ڈاکٹرائن کے تحت پچھلے 48 گھنٹوں میں دو خبریں چلوائی گئیں۔ مجھے لگتا ہے کہ اتحادیوں کو منانے کیلئے میڈیا کیمپئن بھی شروع کر دی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ چودھری پرویز الٰہی کا بطور سپیکر قومی اسمبلی جتنا اثر ورسوخ ہے، ایسی بات ہوتی تو فوری طور پر ان کے علم میں آجاتی۔ انھیں جیو نیوز سے پتا کرنے کی ضرورت نہیں کہ اس طرح کی کوئی سمری بن چکی ہے۔

وقار ستی کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ان دنوں افواہوں کی زد میں ہے۔ ایوان کی راہ داریوں میں چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ تک تمام سٹیک ہولڈرز اپنی اپنی پوزیشن پر ہیں۔ اس کے باوجود دونوں اطراف سے کوششیں بھی کی جا رہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کی عمران خان کیساتھ ملاقات طے پا چکی ہے۔ مسلم لیگ ق کی بات کی جائے تو اس نے ایک مرتبہ پھر انکار کر دیا ہے۔ حکومتی ٹیم ان کی بہت ساری باتیں مان کر ہی ملاقات کیلئے گئی تھی لیکن اس کے باوجود کوئی بات نہیں بنی۔ حکومتی ٹیم کی خواہش تھی کہ ق لیگ کی قیادت ان کیساتھ ملاقات کے بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس کرے لیکن ان کی بات نہیں مانی گئی۔ بعد ازاں مسلم لیگ ق کی جانب سے جو پریس ریلیز جاری کی گئی اس میں برملا اس بات کا اظہار کیا گیا کہ ہمارے مطالبات اپنی جگہ پر موجود ہیں۔ حکومت کیساتھ ہمارے کوئی معاملات طے نہیں ہوئے ہیں۔ دوسری جانب اپوزیشن ابھی تک اپنی پوزیشن سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے۔