لاپتہ ہونے کا خوف، بلوچ طلبہ کیلئے پاکستان کے بڑے شہروں میں تعلیم کا حصول دشوار بنا دیا گیا

لاپتہ ہونے کا خوف، بلوچ طلبہ کیلئے پاکستان کے بڑے شہروں میں تعلیم کا حصول دشوار بنا دیا گیا
حصول علم کی خاطر پاکستان کے بڑے شہروں میں جانے والے بلوچ طلبہ کیلئے تعلیم حاصل کرنا مشکل بنا دیا گیا ہے۔ ان کو ہمیشہ لاپتہ ہونے کا خوف لاحق رہتا ہے۔

بلوچ والدین جن کی تنخواہ اور مزدوری سے ان کے بچوں کا بڑے شہروں کے تعلیمی اداروں میں داخلہ ممکن ہو گیا تھا اب وہ کسی پریشان ہیں۔ جن کے بچے لاپتہ ہیں وہ تو پریشان ہی ہیں لیکن جن کے بچے لاپتا نہیں کیے گئے ہیں وہ بھی پریشانی اور کرب میں مبتلا ہیں۔

لاپتہ کرنے والے بھی نہیں جانتے کہ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں جبکہ لاپتہ ہونے والے طالبعلموں کے بھی ذہن میں یہی چل رہا ہوتا ہے۔ یہ معاملہ عدالتوں تک شاذ ونادر ہی پہنچتا ہے۔ کیس وکیل، استغاثہ، پراسکیوٹر، متعلقہ اداروں کا آئیں بائیں شائیں کا منظر الگ، تاریخ پر تاریخ کا روایتی رواج کا قصہ اور داستان گوئی الگ۔

بعض حلقوں کا خیال ہے کہ یہ سلسلہ کراچی یونیورسٹی پر مبینہ حملے کے بعد شروع ہوا ہے لیکن یہ تجزیہ بھی آدھا تیتر اور آدھی بٹیر جیسا ہے۔ تیتر یہ کہ کراچی حملے کے بعد اس تسلسل میں کافی تیزی ضرور دیکھی گئی ہے۔

بٹیر یہ کہ اس سے پہلے قائداعظم یونیورسٹی میں شعبہ فزکس کے طالبعلم حفیظ بلوچ کو خضدار سے لاپتہ کیا گیا۔ چالیس دن بعد ڈیرہ مراد جمالی پولیس تھانہ لایا گیا اور وہ آج سنگین الزامات کی روشنی میں آج ڈیرہ مراد جمالی کی سینٹرل جیل میں قید ہے۔

اس کے علاوہ بلوچستان یونیورسٹی کے سہیل اور فصیح بلوچ بلوچستان یونیورسٹی کے ہاسٹل سے اغوا کیے گئے اور تربت یونیورسٹی کے شعبہ بلوچی کا طالب علم کلیم شریف بھی کراچی حملے سے پہلے لاپتہ کئے گئے ہیں۔ اسی لیے یہ کہنا درست ہوگا کہ یہ سلسلہ کافی پرانا اور طویل ہے جس کی شاخیں چودہ سے پندرہ سالوں میں ملتی ہیں۔

لیکن اس تسلسل کا دوسرا رخ پنجاب اور اسلام آباد میں بلوچ طلبہ کی جبری گمشدگیاں ہیں، جن سے پہلے یہ سلسلہ بلوچستان تک محدود رہتا تھا۔

کراچی میں بھی ان دنوں جس طرح سے بلوچ طلبہ جبری لاپتہ کیے جا ریے ہیں، اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ چند دن پہلے جس طرح سے لاپتہ افراد کی لواحقین کی ریلی پر پولیس گردی ہوئی تھی وہ بھی انسانیت سوز ہے۔

ان واقعات سے لگتا ہے کہ پی پی شاید لیاری کو اپنا سیاسی ووٹ بینک سمجھتی ہے لیکن اس علاقے کی خیر خواہی کے خواہشات اب اس کے دل میں دم ہی توڑ رہی ہیں۔ جیسے مریم نواز شریف کی بطور اپوزیشن سیاستدان پی ڈی ایم کوئٹہ جلسے میں لاپتہ افراد کے ساتھ کئے گئے وعدے تھے۔

سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ بلوچ اپنی تعلیم یافتہ نسل کو بغیر جرم جیل کی سلاخوں کے پیچھے میں جاتا دیکھ رہے ہیں۔ بلوچ کی نظر میں یہ ایک قوم کے شعور پر حملہ ہے اور اس کا کوئی جواز بھی نہیں بنتا۔

بلوچ طلبہ سمیت تمام مکاتب فکر کے لوگ ہر روز اپنی صبح کی شروعات ایک نئے نام " سیو بلوچ سٹوڈنٹس " اور "سٹاپ ہراسنگ بلوچ سٹوڈنٹس " کے پیش ٹیگ کے ساتھ کرتے نظر آتے ہیں۔

 

یوسف بلوچ ایک اردو کالم نگار اور طالب علم ہیں۔ ان کے کالمز نیا دور اردو، سماچار پاکستان اور دی بلوچستان پوسٹ میں شائع ہوتے ہیں۔