بلوچ طلبہ کے مسائل کو حل کیا جائے، ورنہ یہ عدالت فیصلہ دے گی:اسلام آباد ہائیکورٹ

بلوچ طلبہ کے مسائل کو حل کیا جائے، ورنہ یہ عدالت فیصلہ دے گی:اسلام آباد ہائیکورٹ
ملک بھر میں بلوچ طلبہ کو ہراساں کرنے اور جبری گمشدگیوں کے خلاف کیسسز پر سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہوئی۔ عدالت نے کہا کہ عدالت کسی بلوچ طالب علم کو یہاں سے مایوس ہو کر واپس جانے نہیں دیگی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے بلوچ طلبہ کی درخواست پر سماعت کی۔ بلوچ طلبہ کی جانب سے وکیل ایمان زینب حاضر مزاری عدالت کے سامنے پیش ہوئی۔ جبکہ وفاق کی جانب سے ڈپٹی اٹارنی جنرل خواجہ امتیاز عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔

عدالت نے ڈپٹی اٹارنی سے استفسار کرتے ہوئے پوچھا کہ اس کیس میں کمیشن نے ابھی تک کچھ کیا ہے؟ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ انکوائری، تفتیش اور پھر جامع رپورٹ جمع کرنے میں وقت لگے گا۔ عدالت نے ایمان مزاری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ بہت ہی اہم معاملہ ہے اور اس کمیشن کو تھوڑا وقت دیا جائے۔

ایمان مزاری ایڈوکیٹ نے عدالت کو بتایا وفاقی حکومت نے کمیشن بنانے کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ کیوں بلوچ طلبہ ملک کے اندر خوف محسوس کر رہے ہیں۔ اس وقت پاکستان کا اس سے بڑا کوئی بھی مسئلہ نہیں ہو سکتا۔ پارلیمنٹ اور سینیٹ کو اس معاملے کو اولین ترجیح پر اٹھانا چاہیے۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم اس معاملے کی نوعیت کو سمجھ سکتے ہیں اور ہماری کوشش ہے کہ اس کا حل نکلے۔ عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ آپ سمجھتے ہیں کہ وفاقی حکومت اس معاملے کو حل کرتی ہے تو بلوچ طلبہ عدالتوں میں کیوں آتے ہیں؟

عدالت نے اٹارنی جنرل سے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ کیا سیاسی جماعتیں بلوچ طلبہ کے مسائل کو حل نہیں کرنا چاہتی ہیں؟ چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیئے کہ بلوچ طلبہ نے بہت ہی اہم اور آئینی سوالات اٹھائے ہیں۔ آپ دلائل دیں یہ عدالت فیصلہ کرے گی کیونکہ اس عدالت کے لئے بلوچ طلبہ سے زیادہ کوئی اہم نہیں ہے۔

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ بلوچ طالب علموں کے معاملے سے سارے بھاگ کیوں رہے ہیں؟ ایک ریاست ہے اور ریاست آئین کے تحت چلے گی۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ صرف اس نقطہ پر دلائل دیں کہ بلوچ طلبہ کی پروفائلنگ کیوں کی جا رہی ہے؟ اور کون لوگ اس کے ذمہ دار ہیں، ان کے خلاف ایکشن کیوں نہیں لیا گیا؟

عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ اس درخواست کے بعد بلوچ طلبہ کے پاس حکومت کی جانب سے ابھی تک کون گیا؟ چیف جسٹس نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ خفیہ ایجنسیاں کس کے ماتحت ہیں؟

ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ خفیہ ایجنسیاں وفاقی حکومت کے ماتحت ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے سیکرٹری وزارت داخلہ اور وزارت انسانی حقوق کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے سیکرٹری وزارت داخلہ کو تفصیلی رپورٹ جمع کرنے کی ہدایت کردی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سیکرٹری دفاع سے آفیشلز کا قائداعظم یونیورسٹی جانے اور طلبہ سے انکوائری پر بھی رپورٹ طلب کرلی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دیئے کہ بلوچ طلبہ کے مسائل کو حل کیا جائے، ورنہ یہ عدالت فیصلہ دے گی۔ عدالت نے کیس کی سماعت 5 جولائی تک کے لئے ملتوی کردی۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔