سری لنکا بحران پر مہاتیر محمد کا انتباہ، خبردار نہ ہوئے تو سب پھنس جائیں گے

سری لنکا بحران پر مہاتیر محمد کا انتباہ، خبردار نہ ہوئے تو سب پھنس جائیں گے
مہاتیر محمد کا کہنا ہے کہ سری لنکا کی یہ اقتصادی حالت ناقص مانیٹری مینجمنٹ اور غلط سرمایہ کاری کی پالیسی کی وجہ سے ہوئی ہے۔ سری لنکا میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے، وہ ہمارے لئے سبق ہے۔

مہاتیر نے کہا کہ چین کی معیشت بہت مضبوط ہے اور وہ اس کے ساتھ کسی بھی مالیاتی بحران سے نکلنے کے قابل ہے۔ لیکن ایشیا کے ترقی پذیر ممالک کو ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ کرنسی کے تاجر چین میں من مانی نہیں کر سکتے لیکن دیگر ترقی پذیر ممالک کو محتاط رہنا چاہیے۔

مہاتیر محمد کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکی کرنسی ڈالر گذشتہ 20 سال کی بلند ترین سطح پر ہے اور تمام ایشیائی ممالک کی کرنسیاں کمزور ہو چکی ہیں۔ ایسے میں مہنگائی بڑھ رہی ہے اور ڈالر کے قرضوں کا بوجھ بھی بڑھ رہا ہے۔

سابق ملائیشین وزیراعظم مہاتیر نے کہا کہ کرنسی میں معمولی اتار چڑھاؤ عام بات ہے۔ "پانچ فیصد اوپر اور نیچے قابل قبول ہے کیونکہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ مارکیٹ میں رفتار ہےلیکن 50 فیصد کی کمی لوگوں کو غریب بناتی ہے اور یہ قابل قبول نہیں ہے"۔

ملائیشیا کے سابق وزیراعظم مہاتیر محمد نے کہا ہے کہ 1997 میں ایشیا میں آنے والا مالیاتی بحران دوبارہ دستک دے سکتا ہے۔ مہاتیر محمد نے 1997 کے ایشیائی مالیاتی بحران کے 25 سال مکمل ہونے پر ''ایشیا نکی'' کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ یہ بحران دوبارہ دستک دے سکتا ہے کیونکہ حالات تبدیل نہیں ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہاں بہت سے لوگ ابھی بھی کرنسی مارکیٹ کے مقابلے میں شامل ہیں۔ قوانین اور اخلاقیات کا معاملہ پیچھے رہ جاتا ہے۔ آپ شاید کرنسی کی قیمت کم کرنا چاہتے ہیں لیکن دوسرے اس کی قدر بڑھانا چاہتے ہیں۔ یہاں لوگ ایک دوسرے کو کاٹتے رہتے ہیں۔ کرنسی مارکیٹ پچھلے 25 سالوں میں غبارے کی طرح بڑھی ہے۔ بینک فار انٹرنیشنل سیٹلمنٹس کے سروے کے مطابق، 2019 میں زرمبادلہ کی اوسط تجارت 6.6 ٹریلین ڈالر یومیہ رہی۔ یہ 90 کی دہائی کے وسط کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ تھا۔

مہاتیر محمد 1981 سے 2003 تک ملائیشیا کے وزیر اعظم رہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ کرنسی کے تاجر اب بھی بہت مضبوط ہیں اور وہ کسی خاص کرنسی کو کمزور کرنے کے لیے کام کرتے رہتے ہیں۔ وہ برطانیہ اور اٹلی جیسی ترقی یافتہ معیشتوں سے کام کرتے ہیں اور برسوں سے کرنسی مارکیٹ میں مداخلت کر رہے ہیں۔

1997 کے بحران میں ملائیشیا ان ممالک میں سے ایک تھا جو اس بحران کی لپیٹ میں تھا۔ رنگٹ کرنسی میں 50 فیصد کی کمی ہوئی۔ ملائیشیا کا سٹاک مارکیٹ انڈیکس 75 فیصد گر گیا اور غیر ملکی کرنسی کے سرمایہ کار مارکیٹ سے باہر نکل گئے تھے۔

اس سے قبل ملائیشیا نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے مشاورت کی تھی۔ حکومتی اخراجات میں کمی اور شرح سود میں اضافہ کیا گیا۔ یہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو واپس لانے کے لیے کیا گیا۔

مہاتیر محمد کہتے ہیں، ’’اگر آپ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے پاس جائیں تو ان کا واحد سود قرض کی ادائیگی ہے۔‘‘ انہیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ ملک میں سیاسی اور معاشی سطح پر کیا ہوگا۔ وہ خود ملک کی معاشی پالیسی بنانا چاہتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ہمیں ان کے سامنے ہتھیار ڈالنا ہوں گے۔ خیال رہے کہ مہاتیر محمد رواں ماہ 97 برس کے ہو گئے ہیں اور ابھی تک انہوں نے فعال سیاست سے کنارہ کشی نہیں کی۔

مہاتیر نے ''ایشیا نکی'' کو بتایا کہ سری لنکا کا موجودہ قرضوں کا بحران ایشیا کی دیگر حکومتوں کے لیے ایک انتباہ ہے کہ وہ ذمہ دارانہ مالیاتی پالیسیاں اپنائیں یا بے رحم آئی ایم ایف کے ہاتھوں میں کھلونا بننے کے لیے تیار رہیں۔ سری لنکا کے زرمبادلہ کے ذخائر ختم ہو چکے ہیں اور اس کے پاس اپنے درآمدی بل ادا کرنے کے لیے پیسے بھی نہیں ہیں۔ لوگ اشیائے خورونوش اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قلت سے دوچار ہیں۔ سری لنکا نے غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی روک دی ہے اور اس وقت نئے قرضوں کے لیے آئی ایم ایف کی پناہ میں ہے۔