"ہم جیسی عورتیں 4 ماہ ڈیتھ سیل میں کاٹ کر مسکراتی رہیں، گیلے تیتر جیسے مرد 12 گھنٹوں میں سوکھ گئے"

معروف ماڈل ایان علی نے صحافی عمران ریاض خان کی گرفتاری کو انکے کیس کیساتھ موازنہ کیے جانے پر رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ "جی ہاں ایک نہیں دو پاکستان، ایک ہم جیسی عورتوں جو جعلی مقدمات میں 4 ماہ ڈیتھ سیل میں کاٹ کر، ذہنی جسمانی و صنفی تشدد سہہ کر بھی مسکراتی رہیں اور دوسرا گیلے تیتر جیسے مرد جو 12 گھنٹے میں ہی سوکھ گئے۔"

ٹوئٹر پر طویل تھریڈ لکھتے ہوئے ایان علی نے حقیقت ٹی وی کی ایک پوسٹ شئیر کی جس میں ایان علی اور عمران ریاض خان کی گرفتاری کا موازنہ کیا گیا تھا اور لکھا تھا کہ 'ایک نہیں دو پاکستان۔'



اس پر ایان علی نے جواب دیتے ہوئے لکھا کہ "جی ہاں ایک نہیں دو پاکستان، ایک ہم جیسی عورتوں کا جو 4 ماہ Death Cell میں کاٹ کر، ذہنی جسمانی و صنفی تشدد سہہ کر (جو عدالتی رکارڈ پر ہے) اور درجن بھر جعلی مقدمات قائم کروا کر بھی مسکراتی رہیں کہ کوئی کمزور نہ جانے اور دوسرا گیلے تیتر جیسے مردوں کا جو 12 گھنٹے میں ہی سوکھ گئے"



ایان علی نے مزید کہا کہ "حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے، یہ سوکھا تیتر کل تک تو بہت زعم سے کہتا پھرتا تھا، کہ ٹکر کے لوگوں سے پالا پڑا ہے، اب ایسی روہانسی شکل بنا کر تصویریں کھچوا رہا ہے کہ کوئی یتیم مسکین سمجھ کر ہی ترس کھا لے، ابھی تو جیل کی صورت دیکھی نہیں اور یہ حال ہے کہ کاٹو تو لہو نہیں۔ "



انہوں نے مزید کہا ہے "اگر جیل چلے گئے تو کیا حال ہو گا، کل تک تو یہ صاحب عدالتوں کو بے حس و بے جان کہتے تھے، آج لاہور سے اسلام آباد، اٹک سے راولپنڈی کوئی عدالت نہیں جہاں درخواستِ ضمانت نہیں دائر کی کہ کہیں سے تو گلو خلاصی ہو جائے ، آج کیا عدالتوں پر اعتماد بحال ہو گیا؟ یا سوفٹ وئیر اپ ڈیٹ ہو گیا؟"



امریکی سازش کے بیانیے پر ایان علی نے کہا کہ "کل تک تو یہ امریکی سازش امریکی سازش کا راگ الاپتے نہیں تھکتے تھے، آج امریکہ کو بھی خط لکھوا دیا کہ خدا کا واسطہ ہے مجھے بچاؤ، اب امریکہ کے پاؤوں پڑنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی، کوئی غلامی محسوس نہیں ہوتی، کوئی ڈر محسوس نہیں ہوتا کہ یہ امریکی مدد مداخلت یا سازش کہلائے گی۔"



ماڈل ایان نے کہا کہ "کل تک تو این جی اوز سی آئی اے کی فرنٹ کمپنیز دکھائی دیتی تھیں، اب این جی اوز سے بھے اپنے حق میں بیان دغوا دیے
اب ان کی حمایت حاصل کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں ہوئی؟ یہ نہیں سوچا کہ کہ ان کی حمایت مجھے بھی سی آئی اے کا ایجنٹ بنا دے گی جیسے بیچاری گلالئی اسماعیل بنی تھی۔



پیکا ترمیمی آرڈیننس کے متعلق لکھتے ہوئے ایان علی نے کہا کہ "کل تک تو پیکا ترمیمی آرڈیننس ایک آفاقی قانون دکھائی دیتا تھا جو ریاست و مملکت کے تحفظ کے لیے ناگزیر تھا ، آج سادہ پیکا بھی کالا قانون دکھائی دینے لگا، اتنا کالا کہ اُس کی خلاف چار چھ لوگوں سے مظاہرے ہی کروا ڈالے
یہ تخیلاتی انقلاب ایک رات پولیس وین میں گزار کر ہی آ گیا۔"



ایان علی نے مزید کہا کہ "کل تک تو مطیع اللہ جان، اسد طور، ابصار عالم پر حملے جعلی دکھائی دیتے تھے، اب اپنی باری ایک انگلی بھی نہیں لگی اور آزادیِ صحافت اس قدر خطرے میں دکھائی دینے لگی کہ سب تنظیموں کو فون کر ڈالے کہ میرے لیے نکلو تمہیں خدا کا واسطہ ہے، ویسے یہ تنظیمیں یو ٹیوبرز کے لیے نکل سکتی ہیں؟



ایان علی نے مزید سخت بات لکھتے ہوئے کہا کہ "کل تک تو ابصار عالم سے پوچھتے تھے کہ دھمکانے والوں کے نام کیوں نہیں لیتے، اب اپنی باری آئی تو کہتے ہیں پانچ گھنٹے بعد بتاوں گا، اگر نہ چھوڑا تو بتاوں گا، اگر مر گیا تو بتاوں گا، قرین سے تو لگتا ہے تا قیامت یہ خشک حلق تر نہ ہو گا اور کوئی راز افشاء نہ ہو گا۔



انہوں نے عمران ریاض پر تنقید کرتے ہوئے مزید لکھا کہ "کل تک تو کہتے تھے ٹینکوں کے نیچے لیٹ جائیں گے، آج ناشتہ میں ابلے ہوئے انڈے کیا نہیں ملے سنا ہے روتے روتے عدالت کو بھی بتایا کہ میرا گلوکوز اور بلڈ پریشر دونوں لو ہو گئے ہیں، خدارا کچھ کیجیے، ویسے شکر ہے عدالت سے لنچ میں تیتر نہیں مانگ لیے، ورنہ عدالت کو پوچھنا پڑتا، گیلے یا سوکھے؟"



ایان علی نے مزید لکھا کہ "ویسے یقین نہیں آتا کہ اِن چوزوں سے نیازی کو سرخ انقلاب کی امید تھی، ان کی حالت دیکھ کر بیچارہ نیازی کہتا ہو گا
تیر و تلوار تم مت اُٹھاؤ کیوں یہ کرتے ہو بیکار زحمت جانتے ہیں تمہاری نازک کلائی بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں، اور بیچارے پر بوجھ پڑنا تو ابھی شروع ہی ہوا ہے۔"



انہوں نے مزید کہا کہ "ابھی تو محض ریاست اداروں کے خلاف دھمکی آمیز گفتگو کا مقدمہ ہے، ابھی تو نیازی سرکار سے جو مال کمایا ہے، جو نا جائز اسلح کا انبار لگایا ہے، جو جھونپڑی سے فارم ہاؤس تک کا راستہ صاف کروایا ہے، جو بلٹ پروف گاڑیوں سے پورچ سجایا ہے اور جو رشتہ داروں کو مال کے عوض نوازوایا ہے، وہ سب آنا باقی ہے!"




ایان علی نے شعر استعمال کرتے ہوئے لکھا کہ" 'ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا۔۔۔آگے آگے دیکھیے ہو تا ہے' یاد رہے سب سوالوں کا ایک جواب نہیں چلے گا کہ یوٹیوب سے کمایا ہے، اتنا تو بل گیٹس نے یوٹیوب سے نہیں کمایا جتنا سوکھے تیتر نے کمایا ہے، قانون کی زبان میں یہ Alibi یا راہ فرار سوکھے تیتر سے ثابت ہو نہ پائے گی۔"



ایان علی نے کہا کہ "ویسے باقی مقدمات ایک طرف، یہ ریاستی اداروں سے متعلق ہتک و دھمکی آمیز گفتگو کا مقدمہ بھی اگر صحیح سے چل جائے تو یہ سوکھا تیتر بقیہ ماندہ عمر جیل کے چوبارے پر دانہ چگتا پایا جائے اور تب بھی پاکستان کا شکریہ ادا کرے کیونکہ سعودی عرب، امارات یا قطر میں ہوتا تو سیدھے پھانسی ہوتی۔ "



انہوں نے کہا کہ "یہ لغو گفتگو و گھٹیا انداز گفتار دنیا میں کہیں بھی دکھائیں تو ہم مان جائیں، یہ نہ تعمیری تنقید ہے نہ پالیسی پر نکتہ چینی، یہ براہ راست ریاستی اداروں کے خلاف اشتعال دلانے کی کوشش ہے جو دنیا بھر میں Penalize ہوتی ہے، ٹرمپ تک یہ مقدمہ بھگت رہے ہیں تو سوکھا تیتر کس کھیت کی مولی ہے۔"



"جب تک اس جیسے تیتر، بٹیر و کبوتر اور نیازی جیسے کبوتر بازوں کو مثالِ عبرت نہیں بنایا جائے، ایک Meaningful Deterrence کو قائم نہیں کیا جا سکے گا، اس Deterrence کو قائم کرتے وقت اس امر کی فکر نہ کی جائے کہ یہ سوکھے تیتر کتنا روئیں یا چلائیں گے اور دنیا میں کیا ڈھنڈورہ پیٹیں گے"



ایان علی نے کہا کہ "یہ رونا دھونا محض ان کے میراثی پن کی علامت ہے اور کچھ نہیں، یہ تو معصوم تیتروں کو قتل کر کے بھی رونے بیٹھ گئے تھے کہ مجھ پر فریج سے نکلے گیلے تیتر ڈال دیے ہیں، ویسے ہی ریاست پر بکواس کر کےخود رونے لگے ہیں کہ مجھ پر جعلی مقدمے ڈال دیے
ان کے آنسو تب بھی جھوٹے تھے آج بھی جھوٹے ہیں۔"



"ویسے ہی جیسے ان کے حب الوطنی کے نعرے جھوٹے ہیں، اگر رتی برابر بھی حب الوطنی ان کے دل میں ہوتی تو امریکہ برطانیہ کو خط نہ لکھوا رہے ہوتے، اپنے مقدمات کا سامنہ کرتے میری طرح، جب ہم تاریخ کی بدترین ہراسگی کا سامنا کر کے باہر آئے تھے تو دنیا بھر کی نیوز اجینسیز انٹرویو چاہتی تھیں۔ "



اپنے متعلق بات کرتے ہوئے ایان علی نے کہا کہ "ہم ایک انٹرنیشنل سیلیبریٹی ہیں جس کی دکھ بھری داستان سننے کے لیے نیوز ایجینسیز تجوریوں کے منہ کھولنے کو تیار تھیں، وہ جانتی تھیں کہ جب ہمارے Thumbnails بنا کر اس حقیقت ٹی وی والے کے بچے پل جاتے ہیں تو ہمارے انٹرویو کی کیا قیمت ہو گی، ہمیں کی گئی آفرز کا علم کئیوں کو ہے۔"



ایان علی نے کہا کہ "مگر محض دو وجوہات پر ہم نے ان آفرز کو Resist کیا، ایک تو ہم پاکستانی عورت کو یعنی خود کو Damsel In Distress نہیں دکھانا چاہتے تھے کیونکہ الحمدللہ ہم Woman Of Courage ہیں جس نے پاکستان میں Fundamental Rights Jurisprudence Revise کروائے ہیں، جو اب تک Guidin Principle ہیں۔"



ایان نے کہا کہ "ہم پاکستان کو Dungeon On Earth نہیں دکھانا چاہتے تھے!، یہ ہمارا ملک ہے جس نے ہمیں بہت کچھ دیا، اگر کچھ غم بھی دے دیے تو کوئی بات نہیں، غیروں سے کیا کہنا یہ تو آپس کی بات ہے،
انہوں نے شعر استعمال کرتے ہوئے کہا
"میں تو اس واسطے چپ ہوں کہ تماشا نہ بنے
تو سمجھتا ہے مجھے تجھ سے گلا کچھ بھی نہیں"



اپنی طویل تھریڈ کا اختتام کرتے ہوئے ایان علی نے کہا کہ "اس گیلے تیتر جیسوں کو جنہیں اس ملک نے جھونپڑی سے کوٹھی میں پہنچایا ان میں اتنی غیرت بھی نہیں کہ مروتاً ہی کچھ پل چپ رہیں، خاندان و حسب نسب کی بات تھی
میاں مہمد بخش نی کہا تھا:

نیچاں دی اشنائی کولوں فیض کسے نئیں پایا
ککر تے انگور چڑھایا ہر گچھا زخمایا



اللہ رب العزت ہمارے پیارے وطن پاکستان کو اس سوکھے تیتر اس کے ساتھ اس کے مالک شیطانی نیازی جیسے نیچ بے فیضوں سے بچائے اور اس فتنہ کو ہمیشہ کے لیے ختم فرمائے (آمین یا رب العالمین)۔



پاکستان زندہ باد پاکستان عدلیہ زندہ باد پاک فوج زندہ باد۔