شہباز شریف کے انٹرویو میں مخاطب صرف نواز شریف تھے

شہباز شریف کے انٹرویو میں مخاطب صرف نواز شریف تھے
شہباز شریف کے سلیم صافی کے انٹرویو پر ہر طرف سے تجزیے جاری ہیں۔ سوشل میڈیا پر کچھ لوگ ان سے بہت ناراض ہیں کہ انہوں نے نواز شریف کے بیانیے کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ کچھ کا کہنا ہے کہ مریم نواز کی محنت کو ضائع کر دیا۔ کچھ لوگ ہیں جو ن لیگ سے تعلق نہیں رکھتے لیکن بہرحال سمجھتے ہیں کہ سویلین بالادستی کا نظریہ اس ملک کی بقا کے لئے انتہائی اہم ہے۔ یہ دل سے سمجھتے ہیں کہ نواز شریف ایک تجربہ کار سیاستدان ہوتے ہوئے اس مؤقف پر سختی سے قائم ہیں لہٰذا ان دونوں کے اس سلسلے میں نظریات ملتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اگر سویلین بالادستی کی لڑائی ان کے لئے نواز شریف لڑ لے تو ان کے لئے یہ جنگ آسان ہو جائے گی۔ ان کا ماننا ہے کہ شہباز شریف کے ہاتھ میں مسلم لیگ ن گئی تو ان کا مقصد مزید دور ہو جائے گا۔
دوسری طرف شہباز شریف ہیں جن کا مطمع نظر اپنی وزارتِ عظمیٰ ضرور ہوگی لیکن اس سے بھی زیادہ اہم اس وقت ان کے لئے اپنی پارٹی کو بچانا ہے۔

ن لیگ کی ایک سابق میٹنگ میں ہوئی یہ بات میڈیا کی خبروں کی زینت بن چکی ہے کہ نواز شریف کو پارٹی کی اپنی انٹیلیجنس سے ایسی خبریں موصول ہوئی تھیں کہ اگر 2023 میں پارٹی اقتدار میں نہ آئی تو 80 فیصد پارٹی کے elect-ables پارٹی چھوڑ جائیں گے۔ اب ممکن ہے کہ یہ تعداد نواز شریف کو ڈرانے کے لئے کچھ بڑھا چڑھا کر پیش کی گئی ہو لیکن 40 فیصد لوٹے بھی اِدھر سے اُدھر ہو جائیں تو ن لیگ کا بچے گا کیا؟ سیالکوٹ، ڈسکہ اور گوجرانوالہ کے ضمنی انتخابات نے ایک بات ثابت کر دی ہے کہ مقامی سیاست کے بڑے کھلاڑی، بااثر خاندان اور پارٹی کا ووٹ مل کر ہی کسی شخص کو اقتدار دلوا سکتے ہیں۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی اور جماعتِ اسلامی کی تقریباً سیاسی موت نے کھیل کو دو جماعتی بنیادوں پر استوار کر دیا ہے۔ اس تبدیلی نے سیاست میں ان طاقتور خاندانون کو مزید اہم بنا دیا ہے۔ شہباز شریف اس وقت اس نئی صورتحال سے مقابلہ کرنے کے لئے سمجھتے ہیں کہ انہیں تمام تر توجہ پی ٹی آئی پر مرکوز رکھنا ہوگی۔ اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی کی صورت میں پارٹی سے لوٹوں کے نکلنے کی رفتار مزید تیر ہو سکتی ہے۔ یہاں یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ نواز شریف کے نظریے سے اتفاق رکھنے والے پارٹی رہنما بھی اس بات پر اختلاف نہیں رکھتے کہ اس نظریے کے ساتھ جماعت 2023 کے انتخابات نہیں جیت سکتی۔ وہ اس بات سے بھی اختلاف نہیں رکھتے کہ جماعت لوٹوں سے خالی ہو جائے گی۔ لیکن وہ اس پر راضی ہیں۔ شہباز شریف کے حامی نواز شریف کے حامیوں کی طرح پر امید نہیں کہ لوٹوں کے جانے کی صورت میں جماعت اپنا وجود بھی برقرار رکھ پائے گی، نظریے کی فتح کو تو چھوڑ ہی دیجیے۔

اب آتے ہیں شہباز شریف کے انٹرویو کی طرف۔ شہباز شریف کے انٹرویو میں ان کے اصل مخاطب عوام نہیں ہیں۔ ان کی مخاطب اسٹیبلشمنٹ بھی نہیں ہے۔ وہ صرف نواز شریف سے بات کر رہے ہیں۔ اس مقصد کے لئے انہیں میڈیا کی ضرورت کیوں پیش آئی، یہ بحث فی الحال ایک طرف اٹھا رکھیے۔ لیکن انہوں نے اناؤں کو ملک کی بربادی کا ذمہ دار قرار دیا، ایک جگہ بھی آئین کو توڑنے یا کارِ سرکار میں عسکری مداخلت کو اس کی وجہ نہیں کہا۔ اس کی مثالیں بھی انہوں نے کچھ ایسی ہی دیں۔ مثلاً کارگل کے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں نے مشورہ دیا تھا کہ جنرل پرویز مشرف کو امریکہ ساتھ لے کر جائیں تاکہ جو بھی فیصلہ ہو، اس کی ذمہ داری دونوں اٹھائیں۔ ایک اور صاحب نے مشورہ دیا کہ اگر آرمی چیف ساتھ گیا تو امریکہ کو لگے گا کہ یہاں حکومت فوج کرتی ہے، نواز شریف نہیں۔ میں نے کہا کہ دنیا کو پہلے ہی پتہ ہے کہ یہاں کیا صورتحال ہے۔ ان سے کیا چھپانا ہے؟ لیکن نواز شریف اکیلے چلے گئے۔ ان کی اپنی حکومت گر گئی لیکن پاکستان کو انہوں نے بچا لیا۔ یہاں وہ نواز شریف کی تعریف نہیں کر رہے۔ وہ نواز شریف کی غلط حکمتِ عملی کو ان کے سامنے لا رہے ہیں۔

اسی طرح جہانگیر کرامت کا واقعہ بھی انہوں نے بیان کیا کہ سجاد علی شاہ کے ساتھ جب لڑائی چل رہی تھی، بہت آسان تھا کہ حکومت الٹا دی جائے لیکن جنرل جہانگیر کرامت نے انکار کر دیا اور کہا کہ جمہوریت کو موقع ملنا چاہیے۔ سلیم صافی نے لقمہ دیا کہ نواز شریف نے تو ان کو نکال دیا۔ جس پر شہباز شریف نے کہا کہ وہ ایک اور معاملے پر نکالا تھا۔ ایک مرتبہ پھر وہ نواز شریف ہی کی غلطی کو سامنے لا رہے تھے۔ دونوں واقعات میں وہ یہ ثابت کر رہے تھے کہ نواز شریف کی انا نے معاملات خراب کیے۔

ساتھ انہوں نے بار بار کہا کہ مجھے ہر بار وزارتِ عظمیٰ کی پیشکش کی گئی لیکن میں نے کبھی ایسے کسی موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی۔ میری ذات کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ یہ پیغام بھی وہ نواز شریف کو ہی دے رہے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ انہیں جواب بھی نواز شریف نے ہی دیا ہے۔ سوموار کی شام ٹوئیٹس کے ایک تھریڈ میں نواز شریف نے جہاں عمران خان حکومت کی کارکردگی کو نشانہ بنایا، وہیں انہوں نے اپنا پیغام بھی واضح کیا کہ وہ کسی قسم کی مفاہمت کے لئے تیار نہیں۔ اپنے تھریڈ کی تیسری ٹوئیٹ میں وہ لکھتے ہیں کہ "یہ جدوجہد محض چند سیٹوں کی ہار جیت کے لئے نہیں بلکہ آئین شکنوں کی غلامی سے نجات کے لئے ہے۔ اور اپنی عزتِ نفس پر سمجھوتہ کیے بغیر تاریخ کی درست سمت میں کھڑے نظر آنے کے لئے ہے۔ مسلم لیگ ن اور عوام کے درمیان خلیج ڈالنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو گی"۔

تو اب معاملہ صاف ہے۔ شریف خاندان میں خلیج واضح ہوتی جا رہی ہے۔ اس حد تک کہ اب دونوں بھائی ایک دوسرے سے بات بھی ٹوئٹر اور جیو نیوز کے ذریعے کر رہے ہیں۔ والدین انتقال کر چکے ہیں۔ اس کھیل میں ن لیگی متوالوں کی بڑی تعداد یقیناً نواز شریف کے بیانیے کے ساتھ ہوگی، لیکن لوٹے بہرحال شہباز شریف کے ساتھ ہی ہیں۔ جماعت کے اندر اس رسہ کھنچائی میں جیت اسٹیبلشمنٹ کی ہی ہوگی، چاہے شہباز شریف کی صورت ہو یا عمران خان کی۔

ویب ایڈیٹر

علی وارثی نیا دور میڈیا کے ویب ایڈیٹر ہیں.