ایران میں سودی نظام کے خلاف مراجع عظام کا احتجاج

ایران میں سودی نظام کے خلاف مراجع عظام کا احتجاج
کسی بھی ریاست کے نظام میں اس کے معاشی نظام کو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد سودی نظام کو نہیں چھیڑا گیا، بلکہ شراب کی بوتل پر دودھ کا لیبل لگا دیا گیا ہے۔ جس طرح ایران کا تعلیم، صحت، شہرداری اور پارلیمنٹ کا نظام سراسر مغربی ہے، اسی طرح اس کا اقتصادی نظام بھی مغربی ہے۔ البتہ کبھی کبھار اقتدار کی ذمہ داریوں سے دور رہنے والے مراجع صاحبانِ اقتدار علما سے التماس یا تنبیہہ کرتے رہتے ہیں۔ ذیل میں اس سلسلے میں اس سودی نظام کے خلاف قم کے مراجع کے بیانات کا ترجمہ بمع لنک حاضر ہے:

آیت اللہ العظمٰی جوادی آملی

اپریل 2018

’’قرآن نے شیطان کو مستکبر کہا ہے، لیکن میرے حافظے کے مطابق قرآن میں اس کو محارب نہیں کہا گیا۔ سودی بنک کاری اللہ اور رسول کے ساتھ جنگ ہے۔ آپ بے شک کسی سال کا نام سالِ اشتغال و تولید رکھتے پھریں، (ایران کے رہبر نے اس سے پچھلے سال کا نام سالِ اقتصاد مقاومتی: تولید و اشتغال رکھا تھا)، جب تک سرمایہ سودی ہو گا، اصلاح نہیں ہو گی‘‘۔

آیت اللہ نوری ہمدانی:

ستمبر 2018

’’کئی بار کہا ہے کہ ہمارے بنک قرضے دے کر جرمانے کے نام سے جو رقم وصول کرتے ہیں، وہ سود ہے اور حرام ہے۔ لیکن حکمرانوں کو یا تو ہماری آواز سنائی نہیں دیتی، یا وہ سنتے تو ہیں مگر عمل نہیں کرتے‘‘۔

آیت اللہ العظمی مکارم شیرازی

فروری 2019

’’بنکوں نے ایسے حالات پیدا کیے ہیں کہ لوگوں کی زندگیوں کو اجیرن کر دیا ہے۔ بجائے اس کے کہ قرضِ حسنہ پر چار فیصد کی مستقل شرح سود پر لوگوں سے اپنا معاوضہ وصول کریں، ہر سال شرح سود میں چار فیصد مزید شامل کرتے کرتے یہاں تک لے جاتے ہیں کہ پانچویں سال قرض کی باقی ماندہ رقم پر واجب الادا سود بیس فیصد تک جا پہنچتا ہے۔ قرضِ حسنہ کے نام پر کھلم کھلا سود خوری جاری ہے‘‘۔

آیت اللہ العظمی مظاہری

جنوری 2019

’’افسوس ہے کہ سود لینا اور سود دینا ایک عادت بن چکی ہے۔ بعض لوگ شرعی بہانے لگا کر ایسے سود کھاتے ہیں کہ مثلاً چوہے کو پانی سے دھو کر حلال قرار دے دیا جائے۔ اسی طرح رشوت لینا اور دینا بھی نظام میں سرایت کر چکا ہے۔ معمولاً کوئی کام رشوت کے بغیر نہیں ہوتا۔ کوئی گرہ رشوت کے بغیر نہیں کھلتی، نہ کسی فائل پہیے لگائے بغیر آگے جاتی ہے‘‘۔

آیت اللہ العظمی جعفر سبحانی

فروری 2019

’’لوگ بنک سے قرضہ لیتے ہیں اور بنک ان سے سود لیتے ہیں۔ اس سود کے ساتھ ساتھ قرضہ واپس کرنے میں تاخیر پر بنک لوگوں کو جرمانہ بھی کر دیتے ہیں۔ سب مراجع نے اس کو حرام کہا ہے۔ علما کی رائے کے مطابق عمل کریں‘‘۔

آیت اللہ العظمی علوی گرگانی

فروری 2019

’’آج کل اقتصادی حالات برے ہیں۔ ایسے حالات میں لوگ اپنے دینی فرائض بھی ادا نہیں کر پا رہے۔ ایسے موقع پر (بنکوں کو) عوام سے سود لینے میں جلدی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ ہم اسلامی نظام میں ایسے بنک چاہتے ہیں جو لوگوں کے خدمت گزار، مدد گار اور دست و بازو بنیں۔ براہِ مہربانی اپنے سود کی شرح کو تھوڑا کم کیجئے تاکہ لوگوں پر دباؤ کم ہو۔ یا کم از کم حالات کے حساب سے سود لیا کریں، مثلاً جب معاشی سرگرمی تیز ہو تو سود لینے میں کوئی حرج نہیں مگر جب معیشت کا پہیہ سست ہو جائے تو لوگوں پر رحم کیا کریں اور کم سود لیا کریں‘‘۔

ایران کی مثال سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بلاسود معاشی نظام کا نعرہ صرف ایک سراب ہے، جس کا مقصد سادہ لوح اور سماجی علوم سے بے بہرہ لوگوں کو استعمال کر کے جتھے بنانا اور  اقتدار کا حصول ہے۔ جب علما کو سچ مچ ملک چلانا پڑے تو ’’مصلحتِ نظام‘‘ اسی میں ہوتی ہے کہ سودی کاروبار جاری رکھا جائے۔

ڈاکٹر حمزہ ابراہیم مذہب، سماج، تاریخ اور سیاست پر قلم کشائی کرتے ہیں۔