بھٹو کی ایک اور بیوی

بھٹو کی ایک اور بیوی

(ندیم فاروق پراچہ)


پاکستان کے شہرت یافتہ، سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ اُنھوں نے دوشادیاں کیں۔ اُن کی دونوں بیگمات مشہور خواتین تھیں: ایک خاموش طبع اور فرماں بردار شیریں امیر بیگم ، اور دوسری پرکشش نصرت بھٹو، جو پاکستان کی خاتونِ اوّل بنیں۔ لیکن ذوالفقار علی بھٹو کی ایک اور بیگم بھی تھی۔ بھٹوکی یہ تیسری بیگم، جسے اُنھوں نے ’خفیہ ‘ رکھا تھا، اُن کے اقتدار میں ایک طاقت ور شخصیت بن گئیں۔




ذوالفقار علی بھٹو


 

ذوالفقارعلی بھٹو پاکستان کے سب سے زیادہ زندہ دل اور رنگین مزاج سیاست دان تھے ۔ وہ شعلہ بیان، ذہین، پرکشش اور اعلیٰ تعلیم یافتہ انسان تھے۔ ناقدین اور مبصرین کے لیے اُ ن کے بارے میں پیش گوئی کرنا آسان نہ تھا۔ میرے والد مرحوم ، جو اُن کے قریب تھے ، نے ایک مرتبہ ذوالفقار علی بھٹو کو’’جدت آمیز ذہانت، شعلہ بیانی، اخلاقی اقدار سے گریزاں، عملیت پسند اور بے خجل رومانس کا امتزاج‘‘ قرار دیاتھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ بھٹو ’’مارکس، سٹالن، ڈیگال اور ڈان جون کا ایک منفرد ملاپ ‘‘ تھے ۔ لاڑکانہ کے ایک بااثرجاگیر دار خاندان میں آنکھ کھولنے والے بھٹو کے والد محمد علی جناح کی آل انڈیا مسلم لیگ کے ایک رکن تھے ۔ ذوالفقار علی بھٹو کی نوجوانی میں شادی اپنی ایک کزن سے ہوئی ، لیکن وہ برطانیہ روانگی کی وجہ سے اپنی بیوی کے ساتھ زیادہ وقت نہ گزار سکے ۔ بھٹو نے برطانیہ سے پولیٹیکل سائنس اور قانون کی ڈگریاں حاصل کیں۔ وہ 1950 ء میں مختصر مدت کے لیے پاکستان آئے ، اور اُن کی پہلی بیوی، شیریں امیر بیگم کے ایک ویب سائٹ، Bhutto.org کو دیے گئے انٹرویوکے مطابق بھٹو نے بہت شائستگی سے اُنہیں بتایا کہ وہ ایک اور عورت سے شادی کرنے کا اردہ رکھتے ہیں۔ وہ کردنژاد ایرانی عورت، نصرت اصفحانی تھی ۔




ذوالفقارعلی بھٹو کی پہلی بیوی، شیریں امیر بیگم اور بے نظیر بھٹو 1988 ء میں۔


 

نصرت کا خاندان تقسیم کے بعد ممبئی سے کراچی آیا تھا۔ ذوالفقارعلی بھٹو اور نصرت کی شادی 1951 ء میں ہوئی ۔ ان کے چار بچے ہوئے ، دو بیٹے اور دوبیٹیاں۔ بھٹو نے اپنی پہلی بیوی، شیریں کوطلاق نہیں دی تھی ۔ وہ لاڑکانہ میں ہی رہتی تھیں اور اُنہیں بھٹو کے خاندان کی حمایت حاصل تھی ۔ 1958ء میں بتیس سالہ بھٹو صدر اسکندر مرزا کی کابینہ کے سب سے نوجوان وزیر بن گئے ۔ اسکندر مرزا کے بعد اورملک پر ایوب خان کے مارشل لا کے نفاذ کے بعد بھی بھٹو کے پاس وزارت کا قلم دان رہا ۔ بھٹو کی جواں سال ذہانت، کشش اور کا م کرنے کے سلیقے نے ایوب خان کو بہت متاثر کیا۔ اُنھوں نے شب خون مارنے کے سترہ دن بعد اسکندر مرزا کو نکال باہر کیا لیکن بھٹو کو کابینہ میں ہی رکھا۔ بھٹو کی مستند سوانح عمری کے مصنف، سٹینلے ولپرٹ نے بھٹو کو ’’ایوب کی آنکھوں کا تارا ‘‘ لکھا ہے ۔ ایوب نے بے خوف اور جارحانہ اندازِ سیاست جاری رکھنے کے لیے بھٹو کی حوصلہ افزائی کی ۔ ولپرٹ لکھتے ہیں کہ ایوب خان اپنی پالیسیوں پر کابینہ کے پرانے اور سینئر وزاکی مخالفت کاتوڑ کرنے کے لیے بھٹو کو استعمال کرتے تھے ۔ ولپرٹ اپنی بات میں اضافہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ 1961 ء تک ایوب خان بھٹو کے محض باس ہی نہیں رہے تھے ، وہ اُن کے اتالیق اور مربی کا درجہ بھی رکھتے تھے ۔ یہ وہ دور تھا جب ذوالفقار علی بھٹو ایوب خان کو ’’ڈیڈی ‘‘ کہتے سنائی دیتے۔




1950 ء کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو اپنی دوسری بیوی، نصر ت کے ساتھ


 

جس کا بھی کبھی ذوالفقار علی بھٹو سے واسطہ پڑا، یا جس نے اُن کے بارے میں لکھا، اُس نے بھٹو کو جوش و جذبات اور غور وفکر کا غیر معمولی امتزاج پایا۔ وہ دنیاکی ہر چیز، سیاست، تاریخ، کرکٹ،موسیقی، شاعری پر بلاتکان گفتگو کرسکتے تھے ۔ صرف یہی نہیں، وہ ہنگامہ خیز پارٹیوں میں پورے جوبن پر دکھائی دیتے ۔ حتیٰ کہ جب وہ1970 ء کی دہائی میں پاکستان کے صدر، اور پھر وزیرِ اعظم بنے ، وہ اکثر وسکی کاگلاس اور سگار لے اپنی لائبریری میں چلے جاتے اور گھنٹو ں مطالعے میں مصروف رہتے ۔ اس دوران وہ کسی سے نہیں ملتے تھے ۔ 1961 ء میں ایوب کی آنکھوں کے تارے اور چونتیس سالہ نوجوان وزیر کی ملاقات ڈھاکہ (سابق مشرقی پاکستان) میں ایک نوجوان خاتون سے ہوئی۔ اُس کا نام حسنہ شیخ تھا۔ اُس وقت وہ حسنہ کی عمر پچیس سے تیس سال کے درمیان تھی ۔ اُس کی شادی ایک کامیاب بنگالی وکیل، عبدالاحد سے ہوئی تھی ۔ اُن کی دو بیٹیاں تھیں۔ اردو، انگریزی اور بنگالی بہت روانی سے بولنے والی حسنہ بنگالی اور پشتون نسل کا امتزاج تھیں۔ اُن کے دلکشی اور ذہانت نے ذوالفقار علی بھٹو کا دل موہ لیا۔ ’’انڈیا ٹوڈے‘‘ کے اکتیس دسمبر 1977 ء کے اڈیشن (جس نے بعد میں حسنہ کے بھٹو کے ساتھ تعلقات کی کہانی شائع کی ) کے مطابق اُس وقت حسنہ کے اپنے وکیل شوہر کے ساتھ تعلقات خراب تھے۔ اگرچہ بھٹو نے اپنی تمام تر وجاہت اور کشش کے ساتھ اُس کا تعاقب کیا لیکن حسنہ اُنکی پہنچ سے دور رہیں۔ بھٹو کی بے قراری اپنی انتہاپر تھی ۔ 1965 ء میں حسنہ نے اپنے شوہر سے علیحدگی اختیار کرلی، اور اپنی دونوں بیٹیوں کو لے کر کراچی چلی آئی ۔اُس نے کراچی کے اُس وقت کے انتہائی پوش علاقے، باتھ آئی لینڈ کے ایک اپارٹمنٹ میں رہائش اختیار کی۔ یہ اپارٹمنٹ بھٹو کی کراچی میں رہائش گاہ، 70 کلفٹن سے دس منٹ کی ڈرائیو پر تھا۔ ملیحہ لون ’فرائی ڈے ٹائمز ‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں لکھتی ہیں کہ جب حسنہ کراچی میں قیام پذیر ہوگئیں تو مصطفی کھر نے بھٹو کو اُن سے راہ و رسم بڑھانے میں سہولت فراہم کی ۔ صرف کھر، جو کہ بھٹو کے انتہائی قریبی رازداں تھے، اس معاملے سے واقف تھے ۔ وہ نہایت رازداری سے گاڑی چلاتے ہوئے بھٹو کو باتھ آئی لینڈ میں حسنہ کے اپارٹمنٹ پر لے جاتے ۔ تاہم جس سال (1965ء میں) ان کا معاشقہ پروان چڑھا، اُسی سال بھٹو کے اپنے اتالیق، ایوب خاں کے ساتھ تعلقات میں بگاڑ آنا شروع ہوگیا ۔ 1966 ء میں ایوب نے اُنہیں اپنی کابینہ سے نکال باہر کیا۔ اگلے برس، 1967 ء میں بھٹو نے اس کا جواب اپنی سیاسی جماعت، پاکستان پیپلز پارٹی بنا کر دیا۔ پی پی پی بائیں بازو کے نظریات کی حامل ایک عوامی جماعت کے طور پر سامنے آئی ۔ حسنہ ایک پراعتماد، تعلیم یافتہ اور ضدی عورت تھی۔ ملیحہ لون اپنے مضمون میں تہمینہ درانی کی کتاب، ’’مائی فیوڈل لارڈ ‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتی ہیں کہ 1960 ء کی دہائی کے آخر تک یہ معاملہ اتنا دھماکہ خیز ہوچکا تھا کہ بھٹو کی شکل دیکھتے ہی حسنہ زور سے دروازہ بند کردیتیں ۔ 1967 ء میں حسنہ کو ابودبئی میں شیخہ فاطمہ محل کی تزئین کا پرکشش کنٹریکٹ مل گیا۔ اس سے وہ کراچی میں دو جائیدادیں خریدنے کے قابل ہوگئیں۔ یہ اُن کی آزادی کا اعلان بھی تھا۔ اُنھوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو کھلے الفاظ میں بتادیا کہ اب وہ اُس وقت تک نہیں ملیں گی جب تک وہ اُن سے شادی نہیں کرلیتے ۔




حسنہ شیخ ، 1968 ء

1968 ء میں ایوب خان حکومت کے خلاف طلبہ اور مزدور یونینز کی ہنگامہ خیز تحریک کی روح رواں ذوالفقارعلی بھٹو اور پاکستان پیپلز پارٹی تھے۔ یہ وہ دور تھا جب حسنہ نے بھٹو کو شادی کے لیے قائل کرلیا۔ تاہم 1969 ء میں جب وہ حسنہ سے شادی کا فیصلہ کرچکے تھے، اُنہیں ’’ریاست کے خلاف تشدد پر اکسانے ‘‘ کی پاداش میں گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا۔ ذوالفقارعلی بھٹو نے حسنہ سے درخواست کی کہ وہ انتظار کرے ۔ وہ ایوب خان کا تختہ الٹنے کے بعد اُن سے شادی کا وعدہ ضرور پورا کریں گے ۔ ملیحہ لون لکھتی ہیں کہ جب ایوب نے 1969 ء میں استعفیٰ دے دیا تو بھٹو کی حسنہ سے ملاقات ہوئی ۔ حسنہ نے اُنہیں دیکھتے ہی کہا...’’تم نے سب میری خاطر کردکھایا؟ اوہ، تم میرا مقدر ہو۔‘‘ لون لکھتی ہیں کہ یہ سن کر بھٹو بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے ۔ ولپرٹ لکھتے ہیں کہ 1970 ء کے انتخابات میں بھٹو کی پی پی پی نے مغربی پاکستان میں زیادہ تر نشستیں جیت لیں تو وہ ایک مرتبہ پھر مصطفی کھر کے ہمراہ خفیہ طریقے سے حسنہ کے باتھ آئی لینڈ والے اپارٹمنٹ میں جانے لگے۔ تاہم ایک روز بھٹو اور حسنہ میں شدید جھڑپ ہوئی، اور اس کی وجہ یہ تھی کہ بھٹو شادی کے وعدے منحرف ہورہے تھے ۔ مایوسی کے عالم میں بھٹو نے ایک بار پھر شادی کا وعدہ کیا۔ یہ وعدہ ایک تحریر کی صورت قرآن پاک کے ایک نسخے کی جلد کے اندر لکھا گیا۔ یہاں ولپرٹ لکھتے ہیں جب بھٹو کاجوش سرد ہوااور حسنہ گھرمیں کسی اور جگہ پر تھیں تو بھٹو نے وہ قرآن اپنی جیب میں رکھا اور وہاں سے فوراً نکل گئے۔ مسلۂ یہ پیش آیا کہ جلدی آنے کی وجہ سے وہ کھر کو نہ مل سکے ۔چنانچہ بھٹو کو 70 کلفٹن تک کا سفر پیدل طے کرنا پڑا۔یہ تیس منٹ کا راستہ تھا۔ اُس وقت تک وہ پنجاب اور سندھ میں انتخابات جیت کر ایک اہم شخصیت بن چکے تھے ۔ چنانچہ بھٹو نے کوشش کی کہ وہ سنسان گلیوں میں سے گزریں تاکہ پہچان سے بچ سکیں۔ ذوالفقار علی بھٹو حسنہ کو اکثر سیاست اور تاریخ پر کتابیں تحفے میں دیا کرتے تھے ۔ وہ انہیں پڑھتی اور وہ دونوں ان پر اپنی ’’خفیہ ملاقاتوں ‘‘ کے دوران بحث کرتے ۔ 1971 ء کے وسط میں بھٹو نے حسنہ کو قرآنِ پاک کا ایک خوبصورت نسخہ تحفے میں پیش کیا۔ یہ وہ نسخہ نہیں تھا جو بھٹو نے اُن کے اپارٹمنٹ سے اٹھایا تھا۔ اس کے کور پر لکھا ہوا تھا، ’’اپنی بیوی ، حسنہ کے لیے‘‘۔ بھٹو بیس دسمبر 1971ء کو پاکستان کے صدر بن گئے ، اور اس کے چند دن بعد اُنھوں نے خاموشی سے حسنہ سے شادی کرلی ۔ یہ نکاح ترقی پسند اسلامی سکالراور پی پی پی کے رکن، مولانا کوثر نیازی نے پڑھایا۔ اس کے گواہ مصطفی کھر تھے ۔ ولپرٹ لکھتے ہیں کہ اگرچہ حسنہ اُن کی بیوی تھی لیکن جب وہ وزیرِ اعظم بنے تو اُنھوں نے وہ قرآن پاک حسنہ کے گھر سے واپس لے لیا ۔ یہ نسخہ دوبارہ کبھی دیکھنے میں نہ آیا۔جب 1977 ء میں فوج نے اُن کا تختہ الٹ دیا تو پولیس نے حسنہ کے اپارٹمنٹ کی بھی تلاشی لی۔ یہ نسخہ کہیں نہ ملا۔




آخر کار بھٹو نے شادی کرلی۔ ذوالفقار علی بھٹو اور حسنہ، دسمبر 1971


 

ذوالفقار علی بھٹو کی دوسری بیوی، باوقار نصر ت بھٹو بھی ایک منہ زور خاتون تھیں۔ وہ بھٹو کے چار بچوں کی والدہ تھیں۔ کسی نے اُنہیں بھٹو کی حسنہ سے خفیہ شادی کی اطلاع دے دی۔خیر یہ بات یقینی طور پر کوئی نہیں جانتا کہ نصرت کو اس شادی کا علم کیسے ہوالیکن امکان ہے کہ اُنہیں یہ تو علم تھا کہ اُن کے شوہر کا کسی ’بے باک اور منہ پھٹ بنگالی عورت ‘ سے افیئر چل رہا ہے ۔ ملیحہ لون لکھتی ہیں کہ نصرت نے ایک درجن نیند کی گولیاں کھاکر خود کشی کرنے کی کوشش کی ، تاہم وہ بچ گئیں اور اُنہیں راولپنڈی کے ایک اہسپتال میں داخل کرلیا گیا۔ ’’شکستہ دل صدر‘‘ نے اُن سے معافی مانگی اور وعدہ کیا کہ وہ اپنے بچوں کی والدہ کو کبھی نہیں چھوڑیں گے ۔ نصر ت کی صحت بحال ہوگئی اور پھر وہ پاکستان کی فرسٹ لیڈی بن گئیں۔ نصرت کی خود کشی کی کوشش تک حسنہ کا اصرار رہا تھا کہ بھٹو اپنی شادی کا اعلان کریں لیکن اس کے بعد حسنہ نے ’’بھٹو کی خفیہ بیوی ‘‘ بن کر رہنے پر ہی اکتفاکرلیا۔ اس کے باوجود حسنہ بہت بااثر تھیں۔ 1990 میں حسنہ نے ’’فرائیڈے ٹائمز ‘‘ کی مدیر، جگنو محسن کو بتایا کہ بھٹو اُن سے ملنے آتے رہے ۔ اُن کے گھرمیں اکثر وزرا اور طاقتور افراد کا بھی آنا ہوتا تھا۔وہ افراد بھٹو سے کوئی بات کرنے کے لیے وہاں آتے تھے ۔ جگنو محسن لکھتی ہیں کہ حسنہ درحقیقت اپنے اپارٹمنٹ میں ایک ’’کچن کیبنٹ ‘‘چلاتی تھیں۔ یہ اپارٹمنٹ ذوالفقار علی بھٹو دور کی معاشی اور سماجی پالیسیوں کو متاثر کرتا تھا۔




ذوالفقار علی بھٹو اور نصرت : وزیرِ اعظم اور فرسٹ لیڈی


 

حسنہ نے محسن کو بتایا کہ ایک روز اُس نے بھٹو سے پوچھا کہ وہ اتنی جلدی میں کیوں ہوتے ہیں تو اُن کا کہنا تھا کہ وہ جانتے ہیں کہ ’’آخرکار وہ اُنہیں ہلاک کردیں گے‘‘۔ حسنہ نے وضاحت نہ کی کہ بھٹو کی مراد کن سے تھی ۔ ممکن ہے کہ اُن کا اشارہ اسٹبلشمنٹ یا ملک کے دائیں بازو کے مذہبی حلقوں کی طرف ہوجو 1970 ء کی دہائی کے وسط میں بہت طاقتور ہوچکے تھے ۔ حسنہ نے محسن کو یہ بھی بتایا کہ جب 1977 ء کے انتخابات کے نتائج آنا شروع ہوئے اور پی پی پی نے اُن حلقوں میں بھی واضح کامیابی حاصل کرنا شروع کردی جن میں اس کی پوزیشن مستحکم نہیں تھی تو بھٹو نے شکایتی لہجے میں کہا، ’’ کوئی میرے ارکان کو سمجھائے کہ میری بیس سال کی محنت پر پانی نہ پھیریں۔ ‘‘ اپوزیشن جماعتوں نے دھاندلی کا الزام لگاکر ملک گیر احتجاج شروع کردیا۔ اس کی وجہ سے جولائی 1977 ء میں مارشل لا گیا اور بھٹو حکومت ختم کردی گئی ۔ مبصرین کا خیال ہے کہ پی پی پی بہت آسانی سے اگلے پانچ سال کے لیے حکومت بناتی دکھائی دے رہی تھی لیکن اس کے کچھ وزرا نے پنجاب کے بہت سے حساس حلقوں میں کھلی دھاندلی کی ۔ جب بھٹو حکومت ختم ہوئی تو حسنہ لندن میں تھیں۔ اُنھوں نے محسن کو بتایا کہ بھٹو کی بڑی بیٹی، بے نظیر ( جو بعد میں وزیرِ اعظم بنیں) اُن سے سخت ناراض رہتیں لیکن بھٹو کے بیٹے ،مرتضیٰ کا اُن کے ساتھ سلوک بہت اچھا تھا۔ وہ اُن سے رابطے میں رہتا اور ملک اور اپنے والد پر بیتنے والے حالات سے آگاہ کرتا رہتا۔ جب ذوالفقارعلی بھٹو کو قتل کے ایک جھوٹے مقدمے میں ملزم ٹھہرایا گیا تو حسنہ نے ایک مشہور برطانوی وکیل، جان میتھوز کی خدمات حاصل کیں، لیکن ضیا کی آمریت نے ایک برطانوی وکیل کو پاکستانی عدالت میں مقدمہ لڑنے کی اجازت نہ دی۔




بے نظیر حسنہ سے سخت ناراض رہتیں لیکن مرتضیٰ کا سلوک بہت اچھا تھا


 

مرتضیٰ نے اُنہیں بھٹو کی پھانسی کی اطلاع دی۔ شکستہ دل حسنہ نے خود کشی کرنے کا سوچا۔ لیکن پھر اُنھوں نے اپنی بیٹی کا سوچتے ہوئے خود کشی کا ارادہ ترک کردیا۔ یہ بیٹی، شمیم اُن کی بھٹو سے واحد بیٹی تھی۔ اس کے بعد وہ مستقل طور پر لندن میں ہی رہنے لگیں۔ ذوالفقارعلی بھٹو کو اپریل 1979 ء کوپھانسی کی سزا ملی۔ شیرین امیر بیگم کا 2003 ء کو انتقال ہوا۔ نصرت 2011 ء میں چل بسیں۔ لیکن حسنہ ابھی بھی حیات ہیں۔ اُن کی عمر 80 سال سے زیادہ ہے ، اور وہ لند ن میں رہتی ہیں۔