’اب حکومت سے نہیں اقوام متحدہ کے نمائندوں سے مذاکرات کریں گے‘

’اب حکومت سے نہیں اقوام متحدہ کے نمائندوں سے مذاکرات کریں گے‘

کشمیر کو تقسیم کرنے والی لائن آف کنٹرول عبور کرنے کے لیے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں منعقد ہونے والے جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے آزادی مارچ کو جسکول کے مقام پر روکے جانے کے بعد مظاہرین کا دھرنا پیر کو بھی جاری ہے۔


آزادی مارچ کے شرکا نے بارش اور سردی میں اتوار کی شب لائن آف کنٹرول سے چھ کلومیٹر دور اس مرکزی شاہراہ پر گزاری جو مظفرآباد کو سرینگر سے چکوٹھی کراسنگ پوائنٹ کے ذریعے ملاتی ہے۔

اس دھرنے میں پانچ ہزار کے لگ بھگ افراد شریک ہیں اور جے کے ایل ایف کے رہنماؤں نے مقامی انتظامیہ کی جانب سے رکاوٹیں نہ ہٹائے جانے کے بعد جسکول میں ہی غیرمعینہ مدت کے لیے دھرنا دینے کا اعلان کیا ہے.

جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے رہنماؤں عبدالحمید بٹ، توقیر گیلانی اور رفیق ڈار نے ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومت مارچ کے شرکا کی راہ میں حائل رکاوٹیں ہٹا ہیں اور انھیں آگے جانے دے اور اگر وہ ایسا نہیں کر سکتی تو پھر دھرنا ختم کروانے کے لیے دو مطالبات پر عمل کرے۔

ان مطالبات میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے نمائندے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان کے نمائندگان کو دھرنے کے مقام پر بلا کر مظاہرین سے ان کی ملاقات شامل ہیں۔

رہنماؤں کا کہنا ہے کہ بصورت دیگر کسی صورت دھرنا ختم نہیں کیا جائے گا۔

پریس کانفرنس میں لبریشن فرنٹ کے قائدین نے کہا کہ وہ پاکستان اور انڈیا کی حکومت سے مذاکرات نہیں کریں گے بلکہ صرف اقوام متحدہ اور اس کی سیکورٹی کونسل کے نمائندوں سے بات کریں گے۔

خیال رہے کہ ہزاروں کشمیری مظاہرین نے جمعے کو کنٹرول لائن کی جانب مارچ شروع کیا تھا جو مختلف علاقوں سے چناری پہنچے ہیں۔