تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے 19 جون کو جاری مختصر حکم کے ذریعے ایف بی آر کو جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ اور ان کے 2 بچوں ارسلان فائر عیسیٰ اور سحر عیسیٰ کی برطانیہ میں 3 آف شور جائیدادوں کی نوعیت اور فنڈنگ کے ذرائع کی وضاحت طلب کرنے کی ہدایت کی تھی۔
مذکورہ ہدایت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دینے کے تحت دی گئی تھی۔ سرینا عیسیٰ، کمشنر آٹو میٹک ایکسچینج آف انفارمیشن زون اسلام آباد ذوالفقار خان کے دفتر پہنچیں جو آف شور ٹیکسیشن کے معاملات دیکھتے ہیں۔
انہوں نے ذاتی حیثیت میں خود کو اور اپنے 3 بچوں کو جاری کردہ 3 نوٹسز کے تحریری جوابات جمع کرائے۔ عام طور پر ٹیکس سے متعلق کارروائیوں میں ٹیکس کنندہ کی موجودگی لازمی نہیں ہوتی اور وکلا یا ای میل یا کیس کی پیروی کی جاسکتی ہے، تاہم سرینا عیسیٰ نے ذاتی حیثیت میں جوابات جمع کرائے۔
#BREAKING: 6 page statement of Mrs. #JusticeQaziFaezIsa before #FBR. She requested FBR that can you share PM Imran Khan, Shahzad Akbar and Farogh Nasim income tax records that she can see did they disclose their wives and children properties in their income tax records? 1/2 pic.twitter.com/b7O3sWGcTF
— Asad Ali Toor (@AsadAToor) July 10, 2020
انکم ٹیکس آرڈیننس کے سیکشن 176 کے تحت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کے 2 بچوں کی 3 جائیدادوں کی خریداری اور ان کے ذرائع سے متعلق وضاحت طلب کرنے کے لیے نوٹسز جاری کیے گئے تھے۔
ڈان نیوز سے حاصل معلومات کے مطابق اب کمشنر آفس تحریری جوابات کو اسکروٹنائز کریں گے، جوابات کی حیثیت کو 3 سے 4 دن میں کلیئر کیا جائے گا۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے تحقیق کا دائرہ کار صرف برطانیہ میں موجود 3 جائیدادوں تک محدود رکھا ہے، یہ جائیدادیں 2003 سے 2013 کے درمیان خریدی گئی تھیں۔ پہلی جائیداد سرینا عیسیٰ کے نام پر 2004 میں 2 لاکھ 36 ہزار پاؤنڈز میں خریدی گئی تھی، دوسری جائیداد 2013 میں ان کے اور بیٹے ارسلان فائز عیسیٰ کے نام پر 2 لاکھ 45 ہزار پاؤنڈز میں خریدی گئی تھی۔ علاوہ ازیں تیسری جائیداد 2 لاکھ 70ہزار پاؤنڈ میں سرینا عیسیٰ اور ان کی بیٹی سحر عیسیٰ کے نام پر خریدی گئی تھی۔