آزادی چا ہے جغرافیائی ہو یا معاشی، سو چ کی ہو یا مذہب کی بہت بڑی نعمت ہے اور یہ قوموں، سما ج اور افراد کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ہمارے پیارے وطن پاکستان میں ہر سال اگست کا مہینہ شر وع ہوتے ہی ہر طرف آزادی کے جشن کی تیاریاں بڑے جوش و خروش سے شر وع ہو جاتی ہیں۔ اور یہ حکو متی سطح پر یومِ آزادی شایانِ شان طر یقے سے منا نے کے لئے اقداما ت کئے جا تے ہیں۔ یو مِ آزادی خد ا تعالیٰ کے حضور شکر گزاری کا دن ہے کہ اُس نے حضر ت قا ئد اعظم بابا ئے قوم با نیِ پاکستان اور ان کے رفقا کار کی سربراہی میں ہمیں آزاد خو د مختار وطن عطا کیا۔ یہ دن اپنے اسلا ف کی ان عظیم قربانیوں کو یاد کرنے کا دن ہے جو بلا امتیاز رنگ، نسل، عقیدے، مذہب، ذات برادری آزاد وطن کے قیا م کے لیے دی گئیں۔
آزادی کے دو پہلو ہیں یعنی ایک خارجی یا بیر ونی اور دوسرا با طنی یا اند رونی ہے۔ بین الا قوامی اور ملکی منظر نامہ پر وقوع پذیزہونے والے دل خراش واقعات نے انسانوں کو بے کس اور کافی حدتک نا اُمید کر دیا ہے۔ اقتدار اور اختیار کی ہوس نے میرٹ کی دھجیاں اُڑا دی ہیں جس سے ہم ہر روز عدل اور انصاف کا قتلِ عام ہوتا دیکھتے ہیں۔ تخریبی قوتوں نے لوگوں کو گھر سے بے گھر کر دیا ہے جو اپنا ملک اور گھر بار چھو ڑ کر مہاجر بننے پر مجبو ر ہو گئے ہیں۔ نام نہا د پنچائتیں معصوم اور بے گناہ خواتین کی عز توں کا تار تار کر نے کے ساتھ ساتھ غیر ت کے نام پر خواتین کا استصحال معمول بن چکا ہے۔ انسانیت کے خلاف یہ بر بر یت ذہنی پسما ند گی اور با طنی غلا می کا منہ بو لتا ثبو ت ہے۔ ٹا ر چر سیلز میں مخلوقِ خدا پر ظالما نہ تشد د، بچوں سے جبر ی مشقت اور جنسی تشدد نے انسانوں کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ بد عنوا نی کے سبب ہر طر ف بد انتظامی اور نا انصافی کا راج، منافقت اور دوہرا معیار، مذہب کے نام پر خدا پر اجا رہ داری کے رجحان، ریاست جو بلا امتیاز عقید ہ، مذہب، ذات برادری تمام شہریوں کی ماں پر بد عنوان اور مفا د پر ست گر وہ کا قبضہ اس با ت کا واضح ثبوت ہے کہ انسان بد ترین باطنی غلامی کا شکار ہے۔ اس با طنی غلا می نے ہمار ی عظیم روایات، سما جی و اخلاقی اقد ار کو نا قابلِ تلا فی نقصان پہنچا یا ہے جس کی وجہ سے ہم بحیثیت قوم ترقی کی وہ منا زل طے نہیں کر پا ئے جو ہمار ے ار دگر د پائی جانے والی قوموں نے حاصل کیں۔ آج ہر طر ف احتساب کا شور ہے لیکن مسائل اور کر پشن کے نا سور سے رہائی کا بہترین حل خود احتسابی ہے کہ ہم اپنے گر یبا ن میں جھا نک کر دیکھیں اور اپنی اصلاح کریں۔ ”تو جو اپنے بھائی کی آنکھ کے تنکے کو دیکھتاہے اپنی آنکھ کے شہتیر پر غو ر کیوں نہیں کرتا، پہلے اپنی آنکھ کے شہتیر کو دُور کر تا کہ اپنے بھائی کے آنکھ کے تنکے کو اچھی طرح نکال سکے۔“ (انجیل مقد س)
یومِ آزادی تجد یدِ عہد کا دن ہے کہ ہم لا لچ، مفا د پر ستی، اقر با پروری، ہو س اور بد عنوا نی کی غلا می سے رہائی حاصل کر یں۔ کرونا کی وبا میں صرف گھروں پر ایک دن کے لیے جھنڈیاں نہ لگایئں بلکہ فضا کو آلودگی سے صاف کرنے کے لیے ایک شجر بھی لگائیں۔ باطنی آلودگی کے خاتمے کے لیے سچائی اور محبت کو اپنا شعار بنائیں کیو نکہ سچائی وہ روشنی ہے جو نہ صر ف انسانوں کو اپنی پہچان بخشتی ہے بلکہ ہر طرح کے تصعب اور نفرت سے رہائی دیتی ہے۔ آئیں انفراد ی اور اجتما عی طور پر سچائی سے واقف ہوں تا کہ حقیقی آزادی کے ثمرات تمام مخلوقِ خد ا کو بلا امتیاز حاصل ہوں اور ہمارا ملک انصاف اور آزادی میں تر قی کرے اور پاکستان کے عوام عزت و وقا ر کے ساتھ خوشحال زند گی بسر کریں۔ آپ سب کو ۴۷ واں یو م آزادی مبارک ہوں۔
دُعا
اے قا درِ مطلق اور ازلی خدا تو امن کا بانی اور اتفا ق کا دوست ہے۔ تجھے جاننا ہمار ی ابدی زندگی ہے تیری غلامی پوری آزادی ہے۔ دشمنوں کے سب حملوں میں اپنے عا جز بندوں کی حمایت کر تا کہ ہم تیر ی حمایت پر پورا بھروسہ رکھ کر کسی مخالف کے زور سے نہ ڈریں اپنے خداوند یسوع مسیح کی قد رت کے سبب آمین!
اہل وطن کو حقیقی آزادی سے بھر پور یو م آزادی مبارک
دی ویری ریورنڈ شاہد پی معراج
ڈین آف لا ہور کیتھیڈرل