’عدالت کو حراستی مرکز میں ہی منتقل کر دیں‘

’عدالت کو حراستی مرکز میں ہی منتقل کر دیں‘

پاکستان کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ فوج کے زیر انتظام چلنے والے حراستی مراکز میں رکھے گئے افراد کے خلاف مقدمات کے فیصلے اگر فوجی افسر کی گواہی پر ہی ہونے ہیں تو پھر بہتر ہے کہ عام عدالتوں میں ہزاروں افراد کے خلاف دائر مقدمات کو حراستی مراکز میں منتقل کر دیا جائے۔


انھوں نے یہ بات صوبہ خیبر پختونخوا میں فاٹا اور پاٹا سے متعلق جاری کیے گئے آرڈیننس کو کالعدم قرار دینے کے خلاف وفاق کی طرف سے دائر کی گئی اپیل کی سماعت کے دوران کہی۔ انھوں نے کہا کہ قانون کی نظر میں ایسے فیصلے کسی طور پر بھی قابل قبول نہیں ہوتے جس میں ملزم کو دفاع اور گواہ پر جرح کا حق نہ دیا گیا ہو۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جہاں ملزم کو دفاع کا حق نہ دیا جائے وہاں ٹرائل اور انصاف کے تقاضے کیسے پورے ہو سکتے ہیں؟

آصف سعید کھوسہ نے طنزیہ انداز کہا کہ اگر سکیورٹی اداروں نے کسی ملزم کو گرفتار کیا ہے اور اس کے خلاف کسی فوجی افسر نے بیان دیا ہے تو پھر اس ملزم کو مجرم ثابت کرنے کے لیے کسی اور ثبوت کی ضرورت نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ معاملہ تو قانون شہادت کو بھی بائی پاس کر گیا ہے۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے وفاق اور خیبر پختونخوا کی حکومت کی طرف سے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیلوں کی سماعت کی۔

واضع رہے کہ سپریم کورٹ نے اس سے قبل پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے خیبر پختونخوا میں رائج ایکشن ان ایڈ اینڈ سول پاور آرڈیننس 2019 اور حراستی مراکز کو غیر قانونی قرار دینے کے فیصلے کو معطل کرتے ہوئے اس کے خلاف حکم امتناعی جاری کر دیا تھا۔

کمرہِ عدالت میں انسانی حقوق کی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے افراد کی کافی تعداد موجود تھی۔ اس کے علاوہ سابقہ فاٹا سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی علی وزیر اور محسن داوڑ بھی موجود تھے۔


چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ’یہ موجودہ دور کا اہم ترین اور سب سے بڑا آئینی مقدمہ ہے۔ کئی ہزار خاندانوں کا مستقبل اس کیس سے جڑا ہوا ہے‘۔ اس کے جواب میں اٹارنی جنرل نے کہا ’کئی کروڑ لوگوں کے تحفظ کے لیے چند افراد کو حراست میں رکھا گیا ہے۔‘


جس پر چیف جسٹس نے برجستہ کہا ’کروڑوں لوگوں کے تحفظ کے لیے ایک بھی بلاوجہ گرفتار ہوا تو میں اس ایک شخص کا ساتھ دوں گا کیوں کہ بلاوجہ گرفتار شخص کی واحد وارث عدالت ہی ہوتی ہے۔‘


چیف جسٹس نے مثال سناتے ہوئے کہا ’نیویارک میں اقوام متحدہ کی عمارت کے باہر اُن کے ساتھ دوسرے ممالک کے ججز بھی موجود تھے۔ ایک جج نے کہا فلسفی کے مطابق جنگ کے دوران قوانین خاموش ہو جاتے ہیں۔ اس بات پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے انہیں جواب دیا کہ اکیسویں صدی میں ایسا ممکن نہیں۔‘


اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل سے واضح کرنے کی کوشش کی کہ ’ان حراستی مراکز کا مقصد لوگوں کی اصلاح کرنا ہے، قتل کرنا ہرگز نہیں۔ یہ بنیادی طور پر اصلاحی مراکز ہیں جہاں لوگوں پر تشدد نہیں کیا جاتا۔‘


چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے پوچھا ’کیا لوگوں کو اُن کی مرضی سے ان مراکز میں رکھا جاتا ہے؟ تو اٹارنی جنرل نے تصدیق کی کہ حراستی مراکز میں لوگوں کو زبردستی رکھا جاتا ہے۔‘


سپریم کورٹ نے کہا ’اس سے زیادہ نیک کام کیا ہو گا کہ ہم اس کیس کو روزانہ کی بنیاد پر سُنیں۔ 11 سال سے یہ معاملہ پردوں کے پیچھے چُھپا رہا ہے۔‘


دوسری جانب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ حراستی مراکز میں رکھے گئے قیدیوں کی مدت حراست کا تعین کیا گیا ہے یا لامحدود اختیار ہے۔جسٹس گلزار احمد نے قانون کی ایک اور شق کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کیا پورے ملک میں کہیں سے بھی اٹھا کر حراستی مراکز میں قید کیا جاسکتا ہے۔

اٹارنی جنرل نے متعلقہ قانون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ فوج پہلے حراستی مراکز میں قید کرتی ہے پھرٹرائل کرکے سزا دی جاتی ہے ۔جسٹس گلزار احمد نے کہا کیا یہ دہرا ٹرائل نہیں ہے۔

واضح رہے کہ اٹارنی جنرل انور منصور نے گذشتہ سماعت کے دوران اس پانچ رکنی بینچ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی موجودگی پر اعتراض اٹھایا تھا تاہم چیف جسٹس نے یہ اعتراض مسترد کر دیا تھا۔

اٹارنی جنرل نے عدالت میں ایک سربمہر رپورٹ پیش کی جس میں صوبہ خیبر پختونخوا میں بنائے گئے حراستی مراکز اور اس میں رکھے گئے افراد کی تعداد کے بارے میں تفصیلات موجود ہیں۔