کوئٹہ کی بازار میں

کوئٹہ کی بازار میں
برف ہے کے پگھلتی نہیں
شام ہے کے ڈھلتی نہیں
کوئٹا کی بازار میں

چاک گریباں
ہر سو
ماتم کناں
دست گریباں
چشم نم
سب پریشاں
دور اس جانب ہیں
نظریں جمی

کہ کوئی سائرن بجے
کوئی گگھو بجے
کہ کوئی گاندھی
کوئی ٹریسا، آصمہ
لتھر کنگ، نہ نیلسن منڈیلا
اب رہا نہیں

کوئٹا کی بازار میں
میتیں ہیں سانت پڑیں
آنکھیں بند ہیں
لہو ہے کہ دجلا کی طرح
بہتا گیا

یہ میں تھا
جو خود قاتل بھی تھا
مقتول بھی تھا
وطن بھی تھا
وطن بدر بھی تھا
ہر در و بام کے زینوں پر
دستک بھی تھا
دستور بھی تھا
کہ مجھ کو ہے
اک عمر ہوئی
پریشاں ہوئے

دور ادھر اس پار
زیریات میں
جناح خود
اپنی گیارہ اگست
کی تقریر پہ
پریشاں
اسکے ہاتھوں سے
اس کی سیاہی لہو میں پڑیں
یہ کیسی تحریر ہے
جس سے خائف ہیں
حکمراں پڑے

کوئٹا کی بازار میں
سوال اب بھی
ہیں وہیں پڑے
کہ یہ وہ منزل نھیں
جو دیکھی تھی اس نے

ہاں مگر
برف ہے کہ پگھلتی نہیں
کوئٹا کی بازار میں
پیڑوں کی شاخوں پر
پتوں پر
راہ پر ہر سو
برف ہے کہ پگھلتی نہیں

اماں کہے "بیٹا ابھی تک آیا نہیں"
کیوں آج برف ہے اتنی پڑی
کیوں ہے آج سناٹا
کیوں ہے شام ڈھلتی نہیں
کہ دور سے کوئی
قدموں کی آہٹ آتی نہیں"
اماں کہے
"کیوں سینے سے آج لگتا نہیں
یہ بیٹا میرا
تابوت میں
کیوں چپ ہے بیٹھا
بولتا کیوں نہیں!"

یہ کوئٹا کی بازار ہے
یا ایدھی کا سردخانہ
کہ اک بے حسی سی ہوا میں ہے
لاشوں کو اب دفنا دو
کہ ایوانوں کہ دریچوں پر ہے
برف جمی ہوئی
احساس مرے ہوئے
کہ اماں ہے بھانپ گئی
اب کوئی نہیں آئے گا
تم مقفل کرو
دریچوں کو بند کرو
کہ برف کہ پگھلنے میں
وقت لگے گا

کھلا قبرستان ہے
کوئٹا کی بازار میں
جہاں بیٹیوں کے
خواب ہیں
ریزہ ریزہ
بکھرے ہوئے
بہنیں ہیں کہ
جن کا کوئی نہیں
باقی بچا
یہ وہ شہر ہے جہاں
حادثوں میں
مزدور ہی نہیں
مرا کرتےہ
ہے ان کی گردن کٹا کرتی
بے سبب
بے وجہ
ہیں خیالوں میں نفرتیں پڑیں
خدا کی بستی میں
خدا کے بندوں پہ
ہے یہ شام پڑی

سیاہ اتنی کہ
جیسے شمشان گھاٹ
کہ اب کی بار
سب سیاہ ہے یہاں
کان کی مانند
کان کے کوئلے کے رنگ کی مانند
کان کے مزدور کے کالے پسینے کی مانند
ماں کا بیٹی کا دوپٹہ
لاشوں پہ پڑی چادر
سب سیاہ ہے

یہ زندہ ہیں
وہ مردہ ہیں
کہ کوئٹا کی بازار
میں اب کوئی فرق نہیں
کون قاتل کون مقتول کے اس جھگڑے
میں اب کوئی پڑتا نہیں
جب ریاست خود قاتل پہ پہرا ہو
جہاں جناح خود اجنبی ہو
اب کسی کو کچھ بھی خبر نہیں

رات کے اندھیروں میں
دن کے اجالوں میں
برف اور کوئلے میں
کوئی فرق نہیں

بس اک آہ زاری
اور سب فگاں ہے
کہ اب کچھ بھی حلق سے
اترتا نہیں
کہ تم اب آئو کہ نہ آئو
کہ فرق اب کوئی پڑتا نہیں

کوئٹا کی
اس بازار میں
برف ہے کہ پگھلتی نہیں
لہو ہے کہ سوکھتا نہیں
ماتم ہے کہ ٹھہرتا نہیں
آسماں ہے کہ کیوں گرتا نہیں

ماں کہتی ہے
میں کیوں مرتی نہیں
بہن کہتی ہے
کہ میں کیوں زندہ ہوں
بیٹی کہتی ہے
"ابا تم نے وعدہ کیا تھا
وہ گڑیا کیوں تم لائے نہیں"
باپ ہے کہ اس کو چپ سی
ہے حلق پہ اٹک گئی
برف ہے کہ پگھلتی نہیں

لٹ گیا جناح
لٹ گیا فاطمہ تیرا پاکستان
کوئٹا کی بازار میں
کوئٹا کی بازار
کوئٹا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔