’جبری تبدیلی مذہب کا مسئلہ پاکستان کا نہیں عالمی مسئلہ بن گیا ہے‘؛ اقلیتوں کی جبری تبدیلی مذہب کے حوالے سے سینیٹ کمیٹی کا اجلاس

10:07 AM, 24 Aug, 2020

نیا دور
اقلیتوں کی جبری تبدیلی مذہب کے حوالے سے سینیٹ کمیٹی کا اجلاس سینیٹر انوار الحق کاکڑ کی سربراہی میں ہوا۔ اجلاس میں وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری بھی شریک ہوئیں۔

وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شریں مزاری نے کہا کہ چند عرصہ قبل دو ہندو لڑکیوں کا کیس آیا، جس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے کمیٹی بنائی تھی، بچیوں کی شادی کے معاملات اور تبدیلی مذہب پر بات اہم ہے۔

کمیٹی سے گفتگو کرتے ہوئے قبلہ ایاز نے کہا کہ جو نکات اسلامی نظریاتی کونسل نے طے کئے وہ حرف آخر نہیں، آئین میں اور مذہب میں بھی جبری تبدیلی مذہب پر سزا طے ہے، جنوری دو ہزار بیس میں اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ واقعاتی مطالعہ کیا جائے۔ جسٹس تصدق حسین جیلانی کا فیصلہ اقلیتوں کے لئے اہم ترین فیصلہ ہے، اس کے بعد اقلیتی کمیشن بنایا گیا اور کونسل کو ممبر بنایا گیا۔

قبلہ ایاز نے مزید کہا کہ جسٹس گیلانی کے فیصلے میں کہا گیا کہ مسلمان لڑکے اور ہندو لڑکی کی شادیوں کے واقعات سامنے آتے ہیں، ایسے واقعات میں فورا قانون کو تیزی سے حرکت میں آنا چاہیے، اسلامی نظریاتی کونسل نے دیکھا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی اقلیتوں کے خلاف کام کررہے ہیں، میاں مٹھو اور ایوب جان سرہندی کے نام تبدیلی مذہب میں آتے ہیں۔ سندھ حکومت کو لکھا جائے کہ ہمیں بریفنگ دی جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پیپلز کمیشن فار مینارٹی رائٹس میں اس پر کام ہوا اور رپورٹ پیش کی، جبری تبدیلی مذہب کا مسئلہ پاکستان کا نہیں عالمی مسئلہ بن گیا ہے، اگر پاکستان میں اقلیتیں محفوظ نہیں تو اس سے پاکستان کو نقصان پہنچتا ہے، برطانوی پارلیمنٹ میں قرارداد آئی جس میں تمام اقلیتوں کے حوالے سے زکر ہے، جب برطانوی پارلیمنٹ میں مسئلہ پہنچ گیا تو اب یہ مذہب سے زیادہ معاشرتی مسئلہ بن گیا۔

قبلہ ایاز نے کہا کہ جبری تبدیلی مذہب کا مسئلہ عالمی ہو گیا ہے، اس میں سندھ حکومت کی مشاورت سے سندھ کے علاقوں کا دورہ کیا جائے۔

کمیٹی سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر نعمان ایاز نے کہا کہ اصل مسائل کو دیکھ کر ہم نے حل نکالنے ہوں گے، این جی اوز کا ایجنڈا ہوتا ہے اور جبری تبدیلی مذہب کے معاملات کا معائنہ کیا جائے، جبری کمشدگی کا معاملہ برطانوی پارلیمنٹ اور یو ایس کانگریس میں گیا تو مسائل بڑھ جائیں گے۔

شیریں مزاری نے کمیٹی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ڈیٹا کا مسئلہ ہے اور ہر دوسرے روز سندھ سے نئے کیسز سامنے آتے ہیں، میاں مٹھو کا مکمل نام نہیں جانتی ان کا پورا نیٹ ورک ہے، یہ معصوم بچیوں کو گھوٹکی سے پکڑتے ہیں اور پنجاب میں لے آتے ہیں، رحیم یار خان لیجا کر وہاں شادی ہوتی ہے کیونکہ پنجاب میں شادی کی عمر کم ہے، یہ نیٹ ورک ہے اور اگر شادی ہوتی ہے تو نکاح کی رجسٹریشن سندھ میں ہونی چاہیے۔

ڈاکٹر مکیش کمار نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف سے بھی نکل نہ پائیں گے اگر جبری تبدیلی مذاہب کے کیس چلتے رہے، یہ سب سے بڑا فورم ہے جو وزیر اعظم اور سینیٹ چیئرمین کی خواہش سے ہوا، یہ انسانی حقوق کا معاملہ ہے اور اسی ماہ اس کو حل کرنا ہے۔ برطانوی پارلیمنٹ، امریکی کانگریس سمیت ایف اے ٹی ایف میں ان منفی پوائنٹس کو شامل کیا جا سکتا ہے۔

علی محمد خان نے کہا کہ اگر سیکرٹری سندھ کی حکومت سے بات کر لیں انہیں لکھیں کہ کتنے لوگ جبری تبدیلی مذہب کا شکار ہوئے۔ ریاست نہیں بلکہ کوئی شخص اکیلے اس عمل میں شریک ہے۔

اس موقع پر علی محمد خان کو جواب دیتے ہوئے شیریں مزاری نے کہا کہ آپ درست کہیں دنیا جاننا چاہتی ہے کہ ریاست کیسے اس پر کام کر رہی ہے، کوئی شخص اکیلے کام کرے یا نہ کرے لیکن ریاست کی ذمہ داری واضح کرنا ہوگی۔ صوبوں کو جلد اس پر کام کرنا ہو گا۔ گھوٹکی سندھ اور دیگر جگہوں پر نمائندوں کو ایکٹیو کیا جائے، جو بھی ان علاقوں سے مسلمان ایم این اے ہیں وہ ڈیٹا اکھٹا کریں تو بہتر ہو گا۔

کھیل داس نے کمیٹی سے کہا کہ ہم بات نہیں کر سکتے، بین الاقوامی سطح پر اتنے حالات خراب ہیں، اس ملک سے پیار کی وجہ سے ہم بات نہیں کر سکتے، بھارت منفی خبر بنا لیتا ہے۔ سندھ میں قانون بنانے پر کام ہوا لیکن گورنر نے دستخط نہ کئے۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ چاروں صوبوں کے چیف سیکرٹری اس اہم ترین مسئلے کا جواب نہیں دے رہے۔ ریاست ولی کا کردار ادا کرے گی لیکن اس میں علما کی رائے لینی ہو گی۔
مزیدخبریں