بے حیا مردوں کا کرونا وائرس کے پھیلاؤ میں کردار

بے حیا مردوں کا کرونا وائرس کے پھیلاؤ میں کردار
گئے دنوں کی بات ہے، جب میں جامعہ گجرات کے شعبہ ابلاغیات کا طالبعلم تھا۔ طلبہ کی تعلیم و تربیت کی خاطر جامعہ میں سیمینارز کا انعقاد عام بات تھی۔ ان سیمینارز میں ملک کے نامور صحافی، لکھاری اور دیگر اہم شخصیات کو سننے اور سوال کرنے کا موقع ملتا۔ روز اول سے آخر تک ان سیمینارز کے موضوعات میں ایک مماثلت رہی۔ جیسا کہ

قومی واحدت میں میڈیا کا کردار

اعلیٰ تعلیم اور میڈیا کا کردار

گجرات کی ترقی میں میڈیا کا کردار

تعلیمی بجٹ اور میڈیا کا کردار

مختصر یہ کہ ہر چیز میں میڈیا کے کردار کا جائزہ لیا گیا۔ جب جامعہ سے نکل کر میں نے صحافت کے سنگلاخ راستوں پر چلنا شروع کیا تو پتا چلا کہ قومی واحدت سے لے کر ہر مقام پر میڈیا کا کردار بڑا ہی تشویشناک ہے۔ سچ پوچھیں تو میں نے محسوس کیا کہ کسی بھی قومی مسئلے پر میڈیا کے کردار پر بات کرنے سے پہلے اصل ضرورت میڈیا کی بہتری میں میڈیا کے کردار پر بات کرنے کی ہے۔ اور کوئی بھی یہ کرنے کو تیار نہیں۔

یہ سب بتانے کا مقصد یہ تھا کہ ایسا ہی کچھ آج کل بھی ہو رہا ہے۔ پوری دنیا میں کرونا وائرس کے علاج اور اس کے پھیلاؤ پر بحث ہو رہی ہے۔ چین میں وبا پھیلی تو انہوں نے ووہان میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ اور امریکہ کے کردار پر غور و فکر شروع کر دیا۔ وائرس امریکہ پہنچا تو نیویارک میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ اور چین بشمول عالمی ادارہ صحت  کے کردار پر صدر ٹرمپ نے خوب بھڑاس نکالی اور سلسلہ جاری ہے۔ بھارت میں کرونا وائرس نے تباہی مچانا شروع کی تو بھارت میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ اور مسلمانوں کے کردار پر ایسی جنگ چھڑی کے گن گرج کی آواز پوری دنیا میں سنائی دی۔

پڑوسی ممالک میں جب ایسی گرما گرمی ہو تو پاکستانی کیسے خاموش رہ سکتے تھے۔ لیکن یہاں ایک مسئلہ ہو گیا۔ رمضان اور شوال کے چاند کی طرح پاکستان میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ پر بھی عوام دھڑوں میں بٹ کر رہ گئی۔ اس عالمی مسئلے پر بھی قومی واحدت نظر نہیں آئی۔

ہر طبقے نے پاکستان میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ پر مختلف کرداروں کا جائزہ لیا۔ ابتدائی ایام میں موضوع بحث ایران سے آئے زائرین رہے اور بحث کا محور پاکستان میں کرونا وائرس کا پھیلاؤ اور شیعہ کمیونٹی کا کردار رہا۔ پھر پاکستان میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ میں تبلیغی جماعت کے کردار کا جائزہ لیا گیا۔ ایسے میں تبلیغی جماعت کے اہم رکن اور تمام حکمران جماعتوں کے منظور نظر مولانا طارق جمیل کی دھواں دار انٹری ہوئی اور انہوں نے پاکستان میں کرونا کے پھیلاؤ اور ’’ بے حیا خواتین‘‘ کے کردار پر روشنی ڈالی۔ ابھی سوشل میڈیا پر یہ بحث جاری ہے کہ کرونا کے پھیلاؤ میں ’’ بے حیا خواتین‘‘ کا کتنا کردار ہے کہ دوسری طرف ماہ رمضان کی مناسبت سے افطار کی روح پرور نشریات میں فہد مصطفیٰ نیم عریاں چھاتی کے ساتھ نمودار ہوئے۔ جس سے کرونا وائرس کے پھیلاؤ میں ’’ بے حیا خواتین‘‘ کے کردار کے بیانیے کو خاصہ نقصان پہنچا ہے۔

ہوا کچھ یوں ہے کہ چند روز قبل مولانا طارق جمیل صاحب نے جس چینل پر کرونا کی وبا سے نجات، چینل کے مالک کی سربلندی اور عمران خان کی ایمانداری کا حوالہ دیتے ہوئے ان کی کامیابی کے لیے رقت آمیز دعا کی، اسی چینل کی رمضان نشریات ’’ شان رمضان‘‘ میں انعامی شو ’’جیتو پاکستان‘‘ سے شہرت حاصل کرنے والے فہد مصطفیٰ چند منٹوں کے لیے تشریف لائے۔ بس ان چند منٹوں نے سوشل میڈیا پر ایک نیا ہنگامہ کھڑا کر دیا ہے اور کرونا وائرس کے پھیلاؤ پر بٹی عوام مزید تقسیم ہو گئی ہے۔ سوشل میڈیا صارفین کا کہنا ہے کہ اگر کرونا کے پھیلاؤ میں ’’بے حیائی‘‘ کسی طرح سے ملوث ہے تو اس میں صرف خواتین ہی نہیں ’’بے حیا مردوں‘‘ کے کردار پر بھی برابر کی روشنی ڈالی جائے۔

لکھاری نے جامعہ گجرات سے میڈیا سٹڈیز میں تعلیم حاصل کی ہے اور شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔