قوم کو عامر لیاقتوں سے بچانا ہوگا

قوم کو عامر لیاقتوں سے بچانا ہوگا
عامر لیاقت حسین پر حال ہی میں پیمرا نے ایک  ماہ کیلئے کسی بھی ٹی وی چینل پر شو کرنے یا تبصرہ کرنے پر پابندی لگا دی ہے۔ پیمرا نے عامر لیاقت پر پابندی کی وجہ مذہب کو اپنے ٹی وی  پروگرام کی ریٹنگ اور اپنے فائدے کیلئے استعمال کرنے کا مرتکب قرار دیتے ہوئے انہیں مختلف مسالک کے جذبات مجروح کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ عامر لیاقت حسین پر یہ پابندی نئی ہرگز بھی نہیں ہے. اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ بھی عامر لیاقت حسین کے پروگرام پر پابندی لگاتے ہوئے انہیں مذہبی اشتعال پھیلانے کا مرتکب قرار دے چکی ہے۔ ڈاکٹر عامر لیاقت حسین ان دنوں بول ٹی وی سے منسلک ہیں اور "مذہب" اور "حب الوطنی" کے نام پر نفرتوں کا زہر عوام الناس تک ہہنچانے میں پیش پیش ہیں۔

عامر لیاقت کی زرد صحافت اور مذہب کے غلط استمال کا ذاتی تجربہ

راقم تحریر کو سنہ 2009 میں اے آر وائے ٹیلی وژن کراچی سے کچھ عرصے کی رفاقت میں عامر لیاقت حسین کو قریب سے دیکھنے اور جاننے کا موقع ملا۔ محترم عامر لیاقت حسین اپنے ٹی وی شوز میں جان بوجھ کر نہ صرف ریٹنگ بڑھانے کیلئے مذہبی جذبات کا سہارا لیتے ہیں بلکہ اسے اپنا فن سمجھتے  ہوئے آف دی ریکارڈ اپنے ناظرین کو بیوقوف اور جذباتی بھی قرار دیتے ہیں۔ چونکہ عامر لیاقت کی مکاری، اداکاری اور اس کے مگرمچھ کے آنسوؤں اور پراپیگینڈے پر ایمان لانے والوں کی تعداد کثرت میں ہے، اس لئے ریٹنگ کی بنیاد پر عامر لیاقت نفرتوں کا مکروہ اور گھناؤنا کاروبار عرصہ دراز سے کامیابی کے ساتھ کرتا چلا آ رہا ہے۔ مذہب کے نام پر نیم خواندہ یا پڑھے لکھے کمزور عقیدہ کے حامل لوگوں کو عامر لیاقت کی باتیں مسحور کن تو لگ سکتی ہیں لیکن کسی بھی اعتبار سے ان  باتوں اور دروغ گوئی کے دم پر مذہبی یا صحافتی اقدار پر کسی بھی طور  عامر لیاقت کبھی پورا نہیں اترا۔ ہمارے وطن عزیز میں عامر لیاقت کو زرد صحافت اور عقیدے کے سوداگر کا استعارہ کہا جائے تو بیجا نہ ہو گا۔



سیاسی قلابازیوں کا ماہر شعبدہ باز

موصوف کسی زمانے میں آمر پرویز مشرف کے تلوے چاٹا کرتے تھے پھر انہیں ایم کیو ایم اور الطاف بھائی سے محبت ہو گئی۔ رینجرز کی تحویل میں ایک رات گزارنے کے بعد ان پر حب الوطنی کے دورے پڑنے شروع ہو گئے اور پھر حب الوطنی کی اسناد بانٹنے والوں کی منشا اور حکم سے یہ اب عمران خان کے قصیدے پڑھنے میں مصروف ہیں۔ بدقستی سے یہ ہمارے ہاں ہی ممکن ہے کہ آپ کسی سیاسی جماعت سے وابستہ ہوں، اس کے عہدیدار بھی ہوں اور پھر دھڑلے سے ٹی وی پر  سیاست اور کرنٹ افئیرز کے پروگرام صحافت کا لبادہ اوڑھ کر کریں۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ آپ مذہب کو بھی استعمال کرتے ہوئے "مذہبی سکالر" کے رتبے پر فائز ہو جائیں. پھر تو وارے ہی نیارے۔ ایک جانب مذہب کو استعمال کر کے پاک پوتر ہونے کی سند اور دوسری جانب صحافت کو استعمال کر کے پراپیگینڈہ، جھوٹ اور سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی آزادی۔ کچھ برس قبل ہی عامر لیاقت نے ایک اقلیتی فرقے کے خلاف قتل کا فتویٰ ٹی وی سکرین سے جاری کیا تھا جبکہ 2017 میں گم شدہ بلاگرز اور ایکٹوسٹس کو اس شخص نے بھارتی ایجنٹ قرار دیتے ہوئے ان کی را سے وابستگی کے من گھڑت ثبوت بھی پیش کر دیئے تھے۔



عامر لیاقت کو دیکھنے اور بڑھاوا دینے والے بھی جرم میں برابر کے شریک

عامر لیاقت کو قریب سے جاننے والے یہ بات جانتے ہیں کہ یہ شخص جذباتی بھی ہے اور دماغی طور پر قطعاً بھی متوازن شخصیت کا مالک نہیں ہے۔ ایسے شخص کو ٹی وی سکرینوں پر بطور مذہبی عالم یا سیاسی تجزیہ کار پیش کرنے والے چینل مالکان بھی معاشرے میں مذہبی منافرت، شدت پسندی اور زرد صحافت کو فروغ دینے میں عامر لیاقت حسین کے جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ وہ تمام  افراد جو اس شخص کے پروگراموں کو دیکھتے ہوئے اس کی کہی گئی باتوں پر ایمان کامل لے آتے ہیں انہیں بھی خود سے سوال کرنا چاہیے کہ جس طرح کی غلیظ زبان یہ شخص اپنے یا اپنے آقاؤں کے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کرتا ہے اور جس طریقے سے مذہبی منافرت اور شدت پسندی کو پھیلانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے، کیا اس کی حوصلہ شکنی کرنے کے بجائے اس کی حوصلہ افزائی کر کے یہ تمام افراد بھی اس جرم میں برابر کے شریک نہیں بن رہے؟



اور یہ شخص اکیلا نہیں، جھوٹوں کی پوری ایک انڈسٹری موجود ہے

ویسے یہ صرف وطن عزیز میں ہی ممکن ہے کہ عامر لیاقت حسین اور ان جیسے کئی افراد ٹی وی چینلوں پر خود ہی مدعی اور خود ہی منصف بن کر کسی کو توہین مذہب کا ارتکاب قرار دیتے ہیں اور کسی کو غدار اور بے ایمان قرار دے دیتے ہیں۔ یقین مانیے، عامر لیاقت اگر کسی بھی مہذب اور ایسے معاشرے میں ہوتا جہاں قانون کی عملداری ہوتی ہے تو اب تک شدت پسندی پھیلانے اور جھوٹ بولنے کے جرم میں نہ صرف جیل بھیجا جا چکا ہوتا بلکہ کسی اچھے اسائلم سنٹر میں اس کا علاج معالجہ بھی چل رہا ہوتا۔ چونکہ ہمارے ہاں ایسے افراد کی بہتات ہے جنہیں سنسنی، سازشی مفروضوں اور مذہبی و قومی نرگسیت پسندی کے ساتھ والہانہ عشق ہے، اس لئے عامر لیاقت جیسے افراد کی دکان دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرتی ہے۔ ایسے حضرات کمال ڈھٹائی سے حقائق کے برخلاف تجزیے ہیش کرتے ہیں اور جھوٹ ثابت ہونے پر بھی ڈھٹائی کی بلندیوں کو چھوتے ہوئے اگلے دن پھر اسی جھوٹ کو دہرا رہے ہوتے ہیں۔ جب تک عوام الناس خود اندھی مذہبی عقیدتوں اور سنسنی پر مبنی مرچ مصالحے کی خبروں اور تجزیوں کی لت سے باہر نہیں آئے گی تب تک عامر لیاقت جیسے مذہبی اور صحافتی ٹھگ اس معاشرے میں اپنا چورن بیچتے ہوئے شدت پسندی کے بیج بوتے چلے جائیں گے۔



لوگوں کو غدار اور گستاخ قرار دینے کی فیکٹریاں بند کی جائیں

ذہن سازی اور رائے عانہ کو بنانے کا کام بے حد ذمہ داری اور حساس نوعیت کا ہوا کرتا ہے اور دلیل، تحقیق اور کسی بھی قیمت پر سچ بیان کرنے کا متقاضی ہوتا ہے۔ شاید پیمرا کو اب ایک ایسا ضابطہ اخلاق ازسر نو تشکیل دینے کی اشد ضرورت ہے جس کے تحت مہذب دنیا کی مانند کسی بھی نام نہاد مذہبی عالم یا صحافی کو بنا کسی ٹھوس ثبوت یا تحقیق کے کسی بھی مخالف کو توہین مذہب کا مرتکب، غداری کی اسناد اور بے ایمان قرار دینے کا کوئی حق نہ ہو اور اگر کوئی بھی صحافی، تجزیہ نگار یا نام نہاد مذہبی عالم اس قسم کے فعل کا ارتکاب کرے تو اس کے ٹیلی وژن چینلوں، اخبارات اور ویب سائٹس پر بولنے یا لکھنے پر تاحیات پابندی لگا دی جائے۔ بصورت دیگر عامر لیاقت جیسے افراد صحافت اور مذہبی عالموں کی ساکھ خراب کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں شدت پسندی کو پروان چڑھانے میں بھی کلیدی کردار ادا کرتے رہیں گے۔

کالم نگار

مصنّف ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں؛ ریڈیو، اخبارات، ٹیلی وژن، اور این جی اوز کے ساتھ وابستہ بھی رہے ہیں۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے بھی وابستہ رہے ہیں اور باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔