انصاف کا مقدمہ

انصاف کا مقدمہ
دس، بارہ سال پرانی بات ہے جب میں جیو ٹی وی سے بطور پروڈیوسر منسلک تھا، مجھے پاکستان کے نظام عدل پر ایک تاریخی ڈاکیومینٹری بنانے کا موقعہ ملا۔ یہ ڈاکیومینٹری حامد میر صاحب کا آئیڈیا تھا اور اس کے میزبان ہوسٹ بھی وہی تھے۔ ان ہی کی وجہ سے پہلی دفعہ مجھے چند مختلف ریٹائرڈ ججوں اور بڑے وکیلوں سے ملنے کا موقع ملا اور میری معلومات میں کافی اضافہ ہوا۔

یہ ڈاکیومینٹری صرف ایک دفعہ چلی اور دوبارہ کبھی نشر نہیں ہوئی۔ پاکستان جیسے غریب ملک میں کروڑوں روپے مالیت کے بنگلوں میں رہنے والے تمام ریٹائرڈ ججوں نے باتیں تو بہت اچھی اچھی کیں لیکن یہ سوال میرے دل ودماغ پر چھا گیا کہ یہ سب تو بہت امیر ہیں اور ایک جج اتنا امیر کیسے ہو سکتا ہے؟َ لاہور اور کراچی کے امیر ترین علاقوں میں رہنے والوں کے پاس یقیناً ان بنگلوں کے علاوہ بھی بہت کچھ ہوگا۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب عمران خان نے تحریک انصاف کی بنیاد رکھی تو اپنی جماعت کا نام تحریک انصاف اس لئے رکھا کہ وہ سمجھتے تھے کہ جب تک عدل و انصاف کا نظام ٹھیک نہیں ہو گا، اُس وقت تک اس ملک میں کچھ بھی بہتری نہیں آ سکتی، افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ اپنی بہت سی باتوں کے ساتھ اس بات کو بھی بھول چکے ہیں کہ اُن کی جماعت کا نام تحریک انصاف کیوں رکھا گیا تھا۔

اسی طرح جب افتخار چودھری صاحب کو جب مشرف نے نکالا تو انھوں نے بھی یہ شوشا چھوڑا تھا کہ اگر وہ دوبارہ بحال ہوئے تو عدلیہ میں وہ ریفارمز لائیں گے اور انھوں نے ایک ڈاکیومینٹ بھی دکھایا تھا، (جس کا نام اب مجھے یاد نہیں)۔ افتخار صاحب دوبارہ چیف جسٹس تو بن گئے لیکن اپنے اُس ریفامز کو بھول گئے اور دوبارہ کبھی اُس پر کوئی بات نہیں ہوئی۔

التبہ اُن کے ہونہار اور لائق بیٹے نے پانچ ارب کاروبار میں کمائے اور جب ان پیسوں پر انگلیاں اُٹھنا شروع ہوئیں تو انھوں نے اپنی سربراہی میں عدلیہ کا ایک بنچ تشکیل دیا اور اپنے بیٹے کو حکم دیا کہ وہ اس پانچ ارب کا انکم ٹیکس ادا کرے اور محب وطن پاکستانیوں کی صف میں کھڑا ہو جائے۔

میں نے آخری تصویر افتخار چودھری کی اُس وقت دیکھی تھی جب وہ لندن کے ایک امیر علاقے میں فلیٹ خریدنے پہنچے تھے اور اسی طرح کی کچھ تصاویر ثاقب نثار صاحب کی بھی تھیں کہ وہ اور ان کی فیملی یورپ کے مزہ لوٹ رہے تھے۔ کیا کوئی اُن سے یہ سوال پوچھنے کی ہمت کر سکتا تھا کہ اتنے پیسے کہاں سے آئے کہ وہ بادشاہوں کی طرح زندگی کے مزے لوٹ رہے ہیں؟

ہم جج صاحبان سے کچھ نہیں پوچھ سکتے کیونکہ پاکستان میں وہ دوسرے نمبر کی مقدس گائے سمجھے جاتے ہیں، ان کے خلاف بات کرنے کو عدلیہ کی توہین سے منسوب کیا جاتا ہے جبکہ ایک جج کے کردار پر سوال کرنا اور عدلیہ کی توہین دو مختلف باتیں ہیں۔

آپ سفارش، رشوت اور دبائو میں آکر فیصلہ کریں اور جب ہم اُس پر بات کریں تو ایک دم عدلیہ کو ڈھال بنا کر اُس کے پیچھے یہ چھپ جاتے ہیں، یہ کس قسم کا نظام ہے؟

1985ء میں نظریہ ضرورت کا استعمال کرنے سے لے کر ثاقب نثار کی آڈیو لیک تک یہ بات ثابت کرتی ہے کہ زیادہ تر جج صاحبان انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتے اور ہمارا عدلیہ کا نظام آج بھی وہی ہے جو کہ ستر سال پہلے تھا۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ پاکستان میں عدلیہ عدل وانصاف فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے اور اس کے ذمہ داروں میں جج صاحبان، اسٹیبلشمنٹ، سیاستدان اور بڑے کاروباری مافیا سبھی شامل ہیں۔

ایسی ان گنت مثالیں بھی موجود ہیں کہ جج نے اپنے کئے ہوئے فیصلے کو خود ہی واپس تبدیل کر لیا۔ سوال یہ ہے کہ اگر فیصلہ ٹھیک تھا تو واپس کیوں لیا اور اگر فیصلہ غلط تھا تو پھر اس جرم میں جج کو کون سزا دے؟

ایک چھوٹے سے ڈسٹرکٹ میں بیٹھا سیشن کورٹ کا جج بھی کسی شاہی خاندان کے فرد سے کمتر خود کو نہیں سمجھتا، اُس کے ناز نخرے اگر آپ دیکھیں تو دنگ رہ جائیں۔ کعوڑوں روپوں سے تعمیر شدہ جوڈیشل کمپلیکس میں ہر چیز آپ کو ملے گی، ماسوائے عدل وانصاف کے، حقیقت میں یہ عدالتیں ایک عام انسان کیلئے دوزخ سے کم نہیں، جہاں آپ پیسہ خرچ کرکے صرف تاریخ پر تاریخ حاصل کرتے ہیں۔