پاکستانی عدلیہ کا کلچر بن چکا، ہم آزاد ججوں کا انتخاب ہی نہیں کر سکتے، عرفان قادر

06:38 PM, 28 May, 2022

نیا دور
سینئر قانون دان عرفان قادر نے کہا ہے کہ دنیا کے بیشتر ممالک میں یہ نظام رائج ہے کہ ایسے ججز کا انتخاب کیا جا سکتا ہے جن پر کسی کو اعتراض نہ ہو، لیکن پاکستانی عدلیہ کا کلچر بن چکا ہے کہ ہم یہاں آزاد ججوں کا انتخاب ہی نہیں کر سکتے۔

یہ قانونی نقطہ انہوں نے نیا دوری ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں بات کرتے ہوئے اٹھایا۔ عرفان قادر کا کہنا تھا کہ ہمارے یہاں یہ کلچر بن چکا ہے کہ ہم نہ تو آزاد ججوں کا انتخاب کر سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی ایسی بات کر سکتے ہیں جس سے عدلیہ کی آزادی محفوظ ہو۔

عرفان قادر کا کہنا تھا کہ اگر تاثر ملے کہ پانچ ججز ہی ہمیشہ تواتر کیساتھ خاص نوعیت کے کیسوں میں بنچز کا حصہ ہوتے ہیں تو ان سے ہٹنے کی درخواست کی جا سکتی ہے کہ وہ غیر جانبدار نظر نہیں آ رہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مسلمہ اصول جو دنیا میں رائج ہے وہ یہ ہے کہ مدعی اپنا جج خود نہیں چن سکتے لیکن 10 لوگ ہوں اور ان میں سے صرف 3 کے پاس ہی کیسز لگیں تو اس پر اعتراض کیا جا سکتا ہے۔

تاہم انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ایسی درخواست دینا ایسے ہی ہے جیسے نعوذ باللہ ہم نے کسی کی شان میں گستاخی کردی ہے۔ یہ پاکستان میں بہت ہی غلط رجحان ہے، ایسا کرنے سے جج آپ کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔

انہوں نے ایک واقعہ سناتے ہوئے کہا کہ میں نے ایک جج سے بنچ سے ہٹنے کی درخواست کی تو وہ اس بات پر اتنے ناراض ہوئے کہ کئی سال میرے پیچھے ہی پڑے رہے۔ مجھے اس کیس میں درخواست کرنی پڑی تھی چونکہ آپ بہت ذاتیات پر اتر آئے ہیں، اس لئے آپ کو چاہیے کہ اس کو نہ سنیں۔

عرفان قادر نے بتایا کہ لیکن انہوں نے یہ بات سننے سے بھی انکار کر دیا اور میرے خلاف ایک آرڈر پاس کرکے میرا وکالت کا لائسنس معطل کردیا۔ اس وقت اعتزاز احسن اور مرحومہ عاصمہ جہانگیر نے میرا بھرپور ساتھ دیا لیکن سوا تین سال پاکستانی عدلیہ کی تاریخ میں یہ معاملہ لٹکا رہا۔ بالاخر سپریم کورٹ کو ایک نوٹس کے ذریعے اسے واپس لینا پڑا۔

پروگرام کے دوران ملک ریاض اور آصف زرداری کی مبینہ آڈیو لیک کے معاملے پر بات کرتے ہوئے مزمل سہروردی کا کہنا تھا کہ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ عمران خان کو امید تھی کہ زرداری ان کو مدد فراہم کرینگے کیونکہ جب آنکھیں اور کان بند جائیں تو ملک ریاض جیسے لوگوں کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔

مزمل سہروردی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں بہت سے لوگ ان چیزوں کے گواہ ہیں کہ عمران خان نے اپنے فائدے کیلئے ماضی میں متعدد مرتبہ پیپلز پارٹی سے مدد حاصل کی تھی۔ لیکن زرداری کیساتھ ان کے معاملات فریال تالپور کی گرفتاری کی وجہ سے خراب ہو گئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ اپنا اقتدار ختم ہونے سے پہلے آخری وقت تک عمران خان کی کوشش تھی کہ زرداری پیچھے ہٹ جائیں لیکن وہ اپنے اتحادیوں سے وعدہ کر چکے تھے۔ پھر عمران خان بھی وہ حمایت کھو چکے تھے جس کی وجہ سے وہ زرداری صاحب سے حمایت لے لیتے تھے۔ عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کھو چکے تھے، اس بات کا اندازہ زرداری کو ہو چکا تھا۔

 
مزیدخبریں