پاکستان کتنا مختلف ہوتا اگر حلف کی پاسداری کی جاتی: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

پاکستان کتنا مختلف ہوتا اگر حلف کی پاسداری کی جاتی: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ کی نئی منتخب باڈی نے صدر عبدالقیوم صدیقی کی سربراہی میں اِس دفعہ روایت سے ہٹ کر چیف جسٹس آف پاکستان کی جگہ سنیارٹی لسٹ میں چوتھے نمبر پر براجمان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے حلف لینے کا فیصلہ کیا تھا۔ پونے تین بجے سپریم کورٹ کی پارکنگ سے ملحقہ دروازے سے داخل ہوتا، سیڑھیاں چڑھتا پہلی منزل پر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے لئے مختص ہال میں پہنچا تو صحافی دوست بشمول ’پاس‘ کے منتخب صدر عبدالقیوم صدیقی چیف گیسٹ کے منتظر تھے۔

اپنے سینیئر صحافی دوستوں آصف بشیر چوہدری اور حسن ایوب سے پوچھا کہ کیا اِس سے پہلے روایت چیف جسٹس سے اوتھ لینے کی نہیں رہی؟ دونوں نے تصدیق کی کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور آصف سعید کھوسہ ’پاس‘ کی منتخب باڈی سے حلف لے چکے ہیں اور اِس سے قبل وزیرِ قانون نے بھی منتخب باڈی سے حلف لیا ہوا ہے۔

قارئین کی دلچسپی کے لئے بتاتا چلوں پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ دراصل سپریم کورٹ کی رپورٹنگ کرنے والے سِکہ بند صحافیوں کی تنظیم ہے اور اِس کے ممبران پاکستانی نیوز چینلز اور اخبارات کے لئے سپریم کورٹ میں چلنے والے اہم مقدمات کو رپورٹ کرتے ہیں۔ اِن پیشہ ور صحافیوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر ہونے والے صدارتی ریفرنس کی سپریم کورٹ میں چالیس سے زیادہ سماعتیں کور اور رپورٹ کیں۔

صدارتی ریفرنس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف لگائے گئے سنگین الزامات کا ہر پہلو اِن صحافیوں نے فل کورٹ کے ججز کو سنتے دیکھا اور حکومتی دلائل بھی سنے جِس میں وہ الزامات پر الزامات لگاتے گئے لیکن دس رکنی فل کورٹ نے صدارتی ریفرنس کو متفقہ طور پر مسترد کر دیا۔ سپریم کورٹ کو رپورٹ کرنے والے صحافیوں کی طرف سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو خلاف روایت مدعو کر کے ان سے حلف لینا اِس بات کا ثبوت تھا کہ تمام صحافی مطمئن ہیں کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ایک ایماندار جج ہیں۔ میرے اِس تاثر کی مزید تصدیق نومنتخب صدر ’پاس‘ عبدالقیوم صدیقی کے جواب سے بھی ہوئی جب میں نے ان سے پوچھا کہ ماضی کی طرح چیف جسٹس کی جگہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا حلف لینے کے لئے انتخاب کیوں کیا گیا؟ جیو نیوز کے سینیئر صحافی عبدالقیوم صدیقی نے انتہائی سکون سے لیکن لفظ ’آزاد منش، خود  مختار اور ایماندار‘ پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اصولی بات ہے مجھے آزاد منش اور خودمختار ججز پسند ہیں اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ایک ایماندار اور آزاد منش جج ہیں۔ انہی صفات کی وجہ سے میں ان سے حلف لینا چاہتا تھا۔ ’’صدر عبدالقیوم صدیقی نے یہ بھی بتایا کہ ’پاس‘ کی ایگزیکٹو باڈی نے متفقہ طور پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے حلف لینے کا فیصلہ کیا اور ان کی تنظیم کا حصہ کسی بھی رپورٹر نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو رجسٹرار سپریم کورٹ کے ذریعے حلف لینے کی درخواست بھجوانے پر اعتراض نہیں کیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسی کا انتظار ہو رہا تھا تو سینیئر صحافی عبدالقیوم صدیقی کی صاحبزادی لائبہ ایڈووکیٹ بھی والد کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت کے لئے آ گئیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جب حلف برداری والے ہال میں داخل ہوئے تو تمام صحافیوں نے ان کے احترام میں کھڑے ہو کر اور زوردار تالیاں بجا کر ان کا استقبال کیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے پہنچنے کے بعد تقریب کا باقاعدہ آغاز تلاوتِ قرآنِ پاک سے کیا گیا۔ اللہ کے کلام سے آغاز کے بعد سینیئر صحافی عبدالقیوم صدیقی کو ابتدائی کلمات کی دعوت دی گئی۔ عبدالقیوم صدیقی نے سپریم کورٹ کے صحافیوں کی طرف سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی آمد پر ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے جب کہا کہ ’’آپ جب چیف جسٹس بنیں گے‘‘ تو تمام صحافیوں نے باآوازِ بلند انشااللہ کہا۔ عبدالقیوم صدیقی کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 184/3 ہم نے اب تک سیاسی حکومتوں کو گرانے کے لئے استعمال ہوتا دیکھا ہے، امید ہے آپ چیف جسٹس بن کر ججز، عدلیہ اور میڈیا کی آزادی کے لئے اِس کا استعمال کریں گے۔ سپریم کورٹ کے رپورٹرز کے منتخب صدر عبدالقیوم صدیقی نے اپنے مختصر خطاب کا اختتام جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کر طرف رخ کر کے اِس جملے پر کیا کہ ’’آپ جیسے آزاد جج سپریم کورٹ اور پاکستانی عدلیہ کے ماتھے کا جھومر ہیں‘‘۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر عبدالقیوم صدیقی سمیت ’پاس‘ کے سات منتخب ارکان پر مشتمل ایگزیکٹو باڈی سے حلف لینے کے بعد تقریب سے بارہ منٹ کا خطاب کیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خطاب میں طنز کیا کہ ’’یہ ملک کتنا مختلف ہوتا اگر حلف کی پاسداری کی جاتی‘‘۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا مزید کہنا تھا کہ آئینِ پاکستان میں آرٹیکل 19 نے تقریر اور آزادیِ اظہار کو ہر شہری کا بنیادی حق قرار دیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹھارہویں ترمیم کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ اٹھارہویں ترمیم میں آرٹیکل 19-A کا اضافہ کر کے عوامی مفاد کی معلومات تک رسائی بھی شہری کا بنیادی حق قرار دے دیا ہے جِس سے آزادی اظہارِ رائے اور آزادیِ صحافت لازم ہو گئے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ باشعور عوام اور باخبر صحافی گورننس میں غلطیوں کی بہتر نشاندہی کر کے احتساب کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا مزید کہنا تھا کہ ایسی صورت میں بااختیار ریاستی عہدیدار اِس ڈر سے اپنے اختیارات کا غلط استعمال نہیں کرتے کیونکہ انہیں پتہ ہوتا ہے ان کا کنڈکٹ پریس فریڈم کی وجہ سے عوام کی نظر میں ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ آزادی صحافت کو آئین میں شہریوں کا بنیاد حق قرار دیا گیا تو اب اِس حق کی خلاف ورزی آئین کی خلاف ورزی ہے۔ جسٹس عیسیٰ کا کہنا تھا کہ آئین کا احترام ہر شہری پر فرض ہے اور جو بھی آزادیِ صحافت کو محدود کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ عوام اور آئینِ پاکستان کا دشمن ہے اور قابلِ احتساب ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پچھلے دو سالوں میں عالمی پریس فریڈم انڈیکس میں پاکستان کی بدترین تنزلی سے 145ویں پوزیشن پر گرنے کو شرمناک قرار دیا۔

https://twitter.com/AsadAToor/status/1310553230556839936

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے والد کے دوست بانیِ پاکستان محّمد علی جناح کے انگریزوں کے آزادی صحافت کو دبانے کے لئے پریس ایکٹ لانے کے خلاف قائداعظم کی تقریر کا حوالہ بھی دیا جِس میں قائد کا کہنا تھا کہ ’’ایسے صحافیوں کا تحفظ فرض ہے جو عوامی مفاد میں خدمات سرانجام دیتے ہوئے حکومت پر آزادانہ تنقید پوری ایمانداری سے کرتے ہیں کیونکہ کسی بھی حکومت کے لئے یہ تنقید سیکھنے کا موقع ہوتی ہے۔‘‘

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی تقریر کے اختتام پر سب صحافیوں کی کامیابی کے لئے نیک تمناؤں کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی آوازوں کے بغیر خطرہ ہے ہم اپنا راستہ کھو دیں گے، آئینِ پاکستان ہار جائے گا اور پاکستانی قوم بھٹک جائے گی۔