مجھے پاک فوج کے سینٹر نے نارمل زندگی کی طرف لانے میں مدد کی“

ندیم آفریدی ضلع خیبر کے مقامی رہائشی ہیں۔ وہ منگل باغ کی تنظیم میں شوریٰ کے ممبر تھے۔   کی تنظیم کی جانب سے بھائی کے قتل ہونے کے بعد وہ حکومت کے سامنے پیش ہوئے اور فوج کی جانب سے قائم کئے گئے مقامی سنٹر میں دو سال گزارنے کے بعد اب نارمل زندگی گزار رہے ہیں۔

نیا دور میڈیا نے طالبان اور پھر فوج کے مرکز میں گزرنے والی زندگی پر انسے بات کی جو قارئین کے لئے پیش خدمت ہیں۔

ندیم آفریدی نے کہا کہ میں ایک نارمل شخص تھا اور اپنی زندگی میں مست رہتا تھا مجھے کسی چیز کی پروا نہیں تھی مگر بعد میں پیر سیف الرحمان اور مفتی منیر شاکر کے درمیان اختلافات نے مجھے بہت متاثر کیا۔

 پیر سیف الرحمان کا تعلق بریلوی مسلک سے تھا جبکہ مفتی منیر شاکر ایک دیوبندی تھے۔ پیر سیف الرحمان نے جب ایف ایم ریڈیو سے اپنے مذہبی پرچار کا اغاز کیا تو میں بھی ان نوجوانوں میں تھا جو مفتی منیر  شاکر کے شانہ بشانہ کھڑے رہے۔

واضح رہے کہ مفتی منیر شاکر اور پیر سیف الرحمان دونوں کا تعلق ضلع خیبر سے نہیں تھا مگر مسلک کے نام پر لڑائی نے نہ صرف مقامی لوگوں میں انتہاپسندی کو فروغ دیا بلکہ طالبان کے ظہور سے پہلے سینکڑوں لوگوں کی ذہن سازی بھی کی جس کی وجہ سے علاقے میں طالبان کو بہت سارے حامی ملے۔ مسلک کے نام پر لڑائی نے درجنوں لوگوں کی جان لی اور بعد میں مقامی جرگے کی مداخلت نے دونوں راہنماوں کو علاقہ چھوڑنے پر مجبور کیا۔ 2000ء  کے اوائل میں پیر سیف الرحمان کے غیر قانونی ایف ایم ریڈیو پر مذہبی تبلیغ نے مفتی منیر شاکر کو بغاوت کرنے پر مجبور کیا جن کی وجہ سے خون ریز لڑائیاں ہوئیں اور علاقے میں کئی سال تک امن و امان کے حالات خراب رہے۔

مفتی منیر شاکر کی تنظیم لشکر اسلام کی سربراہی بعد میں منگل باغ نے سنبھال لی جبکہ پیر سیف الرحمان کچھ سال پہلے انتقال کر گئے۔

ندیم آفریدی نے نیا دور میڈیا کو مزید بتایا کہ وہ لشکر اسلام تنظیم کی شوریٰ سے کئی سال وابستہ رہے اور شوریٰ ممبر کے طور پر خدمات سرانجام دیتے رہے۔ ندیم افریدی نے کہا کہ میرے بھائی ایک مقامی سیاسی کارکن ہونے کے ساتھ ساتھ فلاح و بہبود کے کاموں سے بھی وابستہ رہے اور طالبان نے ان کو بھتہ نہ دینے کی پاداش میں قتل کیا جس کا مجھے بہت دکھ ہوا مگر میں کچھ نہیں کرسکتا تھا کیونکہ میں مجبور تھا۔

انہوں نے کہا کہ بھائی کے قتل کے بعد میں افغانستان گیا اور منگل باغ کے ساتھ جھگڑا کیا مگر انہوں نے انکار کیا کہ وہ میرے بھائی کے قتل میں ملوث نہیں ہیں۔

اس تکلیف سے گزرنے کے بعد میں حکومت کے سامنے پیش ہوا کیونکہ میں نے دوبارہ ایک نارمل زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا تھا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا کبھی آپ نے کسی کے قتل کا شوریٰ سے کوئی فیصلہ جاری کیا ہے تو انکا کہنا تھا کہ منگل باغ نے چونکہ انصاف کی بات کی تھی، تو ہمارے پاس زیادہ زمینوں اور رشتوں کے تنازعات آتے تھے جن کو ہم شوریٰ کے طور پر حل کرتے تھے مگر ہم نے کبھی کسی کے قتل کا فتویٰ جاری نہیں کیا۔

انھوں نے مزید کہا کہ حکومت کے سامنے پیش ہونے کے بعد حکومت نے مجھے خیبر میں واقع فوج کے آبادکاری سینٹر میں بھیج دیا تاکہ میں ذہنی طور پر نارمل ہوجاوں۔ میں نے فوج کے مرکز میں دوبارہ نارمل ہونے کے لئے دو سال گزارے اور نکلنے کے بعد نارمل زندگی گزار رہا ہوں۔

ایک سوال کے جواب پر انہوں نے کہا کہ فوج کا ایک بندے پر ایک مہینے میں تقریبا ایک لاکھ خرچہ آتا ہے کیونکہ لباس بھی اچھا ملتا تھا اور دیگر سہولیات کے ساتھ ساتھ خوراک بھی اچھا ملتا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ فوج کے مرکز میں ہم پانچ وقت کی نماز ادا کرتے تھے اور وہاں پر ہمیں دین کی تعلیمات بھی دی جاتیں تھیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ وہاں پر نماز پڑھنے کے ساتھ ساتھ ہم مختلف نوعیت کے ہنر سیکھتے تھے تاکہ یہاں  سے نکل کر ہم اپنے پاوں پر کھڑے ہوسکیں۔ آفریدی نے کہا کہ ہم روزانہ کی بنیاد پر مختلف کھیل کھیلنے کے ساتھ گپ شپ لگاتے تھے کیونکہ مرکز میں پندرہ سال سے لیکر پچاس سال تک کے لوگ ہوتے ہیں جو طالبان کا حصہ رہنے کے بعد وہاں آئے ہیں اور ایک نئی زندگی کی جدوجہد کررہے ہیں۔ انھوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا اگر حالات نہ بنتے تو میں کبھی اس تنظیم کا حصہ نہ ہوتا اور نہ اپنی زندگی کے قیمتی سال ضائع کرتا۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔