رانا ثنا کی گاڑی اور عزیز آباد کی ٹنکی

رانا ثنا کی گاڑی اور عزیز آباد کی ٹنکی
تحریر: (کنور نعیم) اگر آج سے ایک یا نصف صدی پہلے کوئی دماغ اس بات کو تسلیم کر سکتا تھا کہ میلوں دور بیٹھے شخص کو نہ صرف دیکھا جا سکتا ہے بلکہ اس سے گفتگو بھی کی جا سکتی ہے؟ کیا وہ اس بات کو تسلیم کر سکتا تھا کہ ایک لمحے کے اندر پیغام بھیجا اور موصول کیا جا سکتا ہے؟ اور کتنی ہی چیزیں آج کی دنیا میں موجود ہیں جن کے بارے میں سوچنا کسی دور میں نری حماقت تصور کی جاتی ہوگی۔

بالکل اسی طرح کیا دو دن پہلے تک آپ مان سکتے تھے کہ واٹس ایپ پیغام کے ذریعے برطرفیاں بھی کی جا سکتی ہیں؟ روان سال کے ساتویں مہینے میں سابق وزیر قانون پنجاب رانا ثنا اللہ فیصل آباد سے لاہور جا رہے تھے جب انسداد منشیات نے انہیں پندرہ سے بیس کلو منشیات کے ساتھ گرفتار کیا۔ یہ منشیات منظر عام پر نہیں لائی گئیں، یہ ایک علیحدہ بات ہے۔ ان پر کیس بنا اور اسی کیس کی سماعت خصوصی عدالت کے جج مسعود ارشد کر رہے تھے۔

اٹھائیس اگست دو ہزار انیس کو عدالت کی کارروائی شروع ہوئی۔ جج نے انسداد منشیات کے وکیل سے ثبوت طلب کیے تو وکیل نے وقت مانگا۔ عدالت ایک گھنٹے کے لیے برخواست ہوئی۔ ایک گھنٹے بعد جج صاحب نے آکر فرمان سنایا کہ انہیں واٹس ایپ کے ذریعے پیغام موصول ہوا ہے کہ انہیں کام کرنے سے روکا جا چکا ہے۔

سینئر صحافی عبدالقیوم صدیقی کا کہنا تھا کہ واٹس پیغام کی ٹائمنگ نے معاملے کو کافی مشکوک بنا دیا ہے۔ اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی جج کو فون پیغام کے ذریعے برطرفی کی اطلاع دی جائے جبکہ صحافی مطیع اللہ جان کا کہنا تھا کہ دنیا کافی جدید ہوگئی ہے۔ ممکن ہے کہ آنے والے وقتوں کی جنگیں بھی واٹس ایپ پر لڑی جائیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا واٹس صرف بدنام ہے، اصل بد تو وہ ہیں جو یہ پیغامات بھیجتے ہیں۔

اس بات کے سامنے آنے کے بعد جناب شہباز گل نے سوشل میڈیا کے ہی ذریعے ایک نوٹیفکیشن شیئر کیا جس کے مطابق اس سماعت سے دو دن قبل یعنی 26 تاریخ کو تین ججوں کی بر طرفی کا حکم نامہ جاری کیا گیا تھا جن میں ایک مسعود ارشد صاحب بھی شامل ہیں۔ ڈاکٹر گل نے گتھی کو سلجھانے کی اچھی کوشش کی لیکن

الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا

پہلے شاید کوئی وہم لاحق تھا، اب ابہام لاحق ہوگئے ہیں۔ جیسا کہ، کیا کوئی معطل یا برطرف جج اپنی عدالت لگا سکتا ہے؟ کیا اتنے اہم عہدے کا کوئی شخص اپنی برطرفی کے بارے میں لاعلم رہ سکتا ہے؟ کیا کسی شخص کو اسکی معطلی یا تقرری کی اطلاع بذریعہ واٹس ایپ دینا مناسب ہے؟ اگر کوئی شخص اپنے موبائل کا نیٹ آن نہ کرے تو وہ حسب سابق اپنی ذمہ داریاں نباہتا رہے؟ اور یہ پیغام اسی وقت کیوں بھیجا گیا جب عدالت نے ثبوت طلب کیے؟

لیکن اس واقعے نے چند خوش فہمیوں اور امیدوں کو بھی ہوا دی جیسے کہ اب شاید ہم ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال کرنے کے اہل ہو گئے ہیں۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے الیکٹرونک کورٹس کا افتتاح کیا، خصوصی عدالت نے واٹس ایپ بر طرفی کا افتتاح کردیا۔ اب آگے آگے دیکھنا ہے کہ ہوتا ہے کیا۔

عزیز آباد کی ٹنکی سے جتنا اسلحہ اور رانا ثنا اللہ کی گاڑی سے جتنی منشیات نکلی، اس پر آسمان لرز گیا اور زمین کانپ اٹھی۔ اس اسلحے کا قصہ تین سال پرانا ہو کر کہیں دفن ہوگیا لیکن اب دل چاہتا ہے کہ انصاف کو ہوتا دیکھا جائے۔ رانا ثنا کے خلاف موجود ثبوت، جنہیں کسی خاص حکمت اور بصیرت کے تحت منظر عام پر نہیں لایا جا رہا، ان ثبوتوں کو دیکھا جائے۔ لیکن ہائے شومئی قسمت

مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں

یہ پیغام کہاں سے آیا، کس نے بھیجا، اور اسی وقت کیوں بھیجا جب ثبوت طلب کیے گئے، اس پر اتنا ہی کہنا مناسب ہوگا کہ

جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

ویسے ہم کتنی کمال کی قوم ہیں، فیصلے واٹس ایپ پر کرتے ہیں۔ آدھے گھنٹے کھڑے رہ کر دیرینہ مسائل حل کرتے ہیں۔ لیکن انصاف کا اتنا بہترین نظام دیکھ کر مجھے تو خدشہ لاحق ہو گیا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آئندہ موبائل کمپنیوں کے اشتہارات کچھ ایسے ہوں، 100 ایم بی فیسبک کیلیے، 100 ٹوئٹر اور 100 ایم بی عدلیہ کے حاصل کریں، صرف 50 روہے میں۔ آپ کو کیا لگتا ہے؟

کنور نعیم ایک صحافی ہیں۔ ان سے ٹوئٹر پر Kanwar_naeem او فیس بک پر KanwarnaeemPodcasts پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔