پارلیمان راتوں رات قانون سازی کر سکتی ہے بشرطیکہ رہنماؤں کے ذاتی مفادات خطرے میں ہوں

پارلیمان راتوں رات قانون سازی کر سکتی ہے بشرطیکہ رہنماؤں کے ذاتی مفادات خطرے میں ہوں
قیام پاکستان سے آج تک ملک کا سب سے اہم اور سب سے مقدس ادارہ پارلیمان جو کہ قوم کی ترجمانی کرتا ہے اور ملک میں آئین کا ضامن ہے تا کہ یہ ملک اور اس میں بسے عوام خود کو بے بس اور لاچار تصور نہ کریں مگر تاریخ شاہد ہے کہ گزشتہ 70 سالوں سے زائد عرصے میں کبھی پارلیمان نے عوام کے حقوق سے متعلق وہ برق رفتاری نہیں دکھائی جو کہ خود کے مفادات اور دیگر اداروں کی ایما پر کئے جانے والے فیصلوں میں دکھائی ہے۔ اگر ماضی کی بات شروع کر دی جائے تو اس پر ایک آرٹیکل تو کیا کئی کتب لکھی جا سکتی ہیں اور کئی مورخین نے لکھ بھی دی ہیں۔ کئی لوگ زبانی کلامی آج بھی ریٹائرڈ ہونے کے بعد پارلیمنٹ اور اداروں میں کئے جانے والے فیصلوں کے پس پردہ حقائق کو بیان کر رہے ہیں، چاہے وہ سابق چیف جسٹس ہوں یا سابق آرمی چیف۔

بہت زیادہ پیچھے جانے کے بجائے ماضی قریب کی محض دو مثالوں کو زیر بحث لانے سے مقصد پورا ہو جائے گا۔ ایک تو ماضی قریب کی وہ مثال ہے جب تمام سیاسی جماعتیں اپنی سیاسی لڑائی میں اس قدر عروج پر تھیں کہ ان سے جڑے رہنما ایک دوسرے سے سلام کرنے کے بھی روادار نہیں تھے مگر آرمی چیف کی ایکسٹینشن کے وقت پارلیمان کے تمام ممبران نے صدق دل سے اس بل کو فوری طور پر پاس کر لیا تھا جیسے یہ بنگلہ دیش کو دوبارہ پاکستان میں شامل کرنے کی محدود مدت کی آفر ہو اور اسے ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہئیے۔ دوسری مثال میں اب ہم نے دیکھا ہے کہ پارلیمان نے بڑے جوش و جذبے سے چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات سے متعلق اور سپریم کورٹ کے کنڈکٹ کے حوالے سے ایک ہی سیشن میں بل کو پیش اور منظور یوں کیا ہے جیسے خالصتان کی تحریک کامیاب ہونے کے بعد انڈین پنجاب کو پاکستان میں شامل کرنے کا بل ہو۔

ان تمام معاملات میں موجودہ حکومت اتنی بے بس اور لاچار نظر آتی ہے کہ سب جانتے ہوئے بھی ان کے پاس اب استعمال ہونے کے سوا کوئی چارا نہیں بچا ہے۔ مسلم لیگ ن کے وفاقی وزرا نجی محافل میں اب یہ کہتے دکھائی دے رہے ہیں کہ ہمیں تو معلوم ہی نہیں کہ اصل میں ہماری لڑائی عمران خان سے ہے بھی کہ نہیں، کیونکہ اصل لڑائی تو عمران خان کی اداروں اور چند ان اشخاص سے ہے جن سے شاید پاکستان میں اگر سیاست کرنی ہے تو لڑائی کرنا کسی بھی صورت میں مناسب نہیں ہے۔ حال ہی میں اسی طرح کا تذکرہ ایک فیملی میٹنگ میں آئے ہوئے وفاقی وزیر صاحب نے کیا جو کہ ٹی وی پر آج کل کھل کر تلخ باتیں کرتے ہیں اور عمران خان کے سخت ناقد نظر آتے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا 2013 کے عمران نیازی پروجیکٹ کی آبیاری واقعی بند ہو چکی ہے اور اس کی لانچنگ کو غلطی تسلیم کر لیا گیا ہے یا اپنا یہ پٹا ہوا پروجیکٹ پھر سے نئی منصوبہ بندی کے ساتھ میدان میں اتارنے کی تیاری کی جا رہی ہے؟ یہ سوال اس لئے جنم لے رہا ہے کہ حکومت جس طرح سے سپریم کورٹ اور خصوصاً چیف جسٹس کے اختیارات کو محدود کرنے میں لگی ہوئی ہے، یہ خیال کسی حکومت یا سیاسی رہنما کو ماضی میں کیوں نہیں آیا جب انہی عدالتوں نے ملک میں مارشل لاء کو جائز قرار دیا، جب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی، جب مشرف کی غیر آئینی حرکات کو اپنا کندھا فراہم کیا، جب نواز شریف کو اقامے کی بنیاد پر خوار کر کے ملک کی جگ ہنسائی دنیا بھر میں کروائی، آخر مسلم لیگ ن کو یہ خیال تب کیوں نہیں آیا؟ حالانکہ نواز شریف کو پاناما کیس میں ہٹائے جانے کے بعد شاہد خاقان عباسی کی وزارت عظمیٰ میں مسلم لیگ ن کی حکومت موجودہ حکومت کے مقابلے میں خاصی مضبوط تھی۔ آخر یہ ترامیم تب کیوں نہیں کی گئیں اور اب اچانک اس برق رفتاری کے پیچھے کون سے عوامل کارفرما ہیں؟

کچھ ہی مہینے میں موجودہ چیف جسٹس کی مدت ملازمت تو یوں بھی اختتام پذیر ہو جائے گی تو ایک شخص پر اگر اعتراض ہے بھی تو اس شخص کے چکر میں اس عہدے کے اختیارات کو کم کرنے کی آخر کیا وجہ ہے اور کس کے کہنے پر یہ سب ہو رہا ہے؟ کیونکہ اگلے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ہیں جن پر گزشتہ کئی برسوں سے الزمات لگا کر انہیں کٹہروں میں کھڑا کیا جاتا رہا ہے۔ ان کے ساتھ ان کی اہلیہ کو بھی عدالتوں میں بلایا گیا، ان سے انکوائریاں کی گئیں، ان کے خلاف غیر اخلاقی و آئینی ریفرنس بھیجے گئے اور بعد ازاں اس غلطی کا اعتراف عمران خان اور عارف علوی نے خود بھی کیا۔ مگر قاضی فائز عیسیٰ نے اکیلے تمام مخالفین یہاں تک کہ اپنے ہی ادارے کے اندر موجود افراد کی مخالفت کے باوجود قانون اور آئین کے مطابق خود کو صادق اور امین ثابت کر دکھایا۔

اب جب قاضی فائز عیسیٰ کے چیف جسٹس بننے کا وقت قریب آن پہنچا ہے تو چیف جسٹس کے اختیارات کو محدود کرنے کا یہ برق رفتار عمل کیوں اور کس کے کہنے پر شروع ہوا ہے، یہ ایک اہم سوال ہے جو شاید ابھی تو موجودہ حکومت کو پریشان کرے اور برا لگے مگر بعد ازاں اس پر پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں بچے گا۔

موجودہ حکومت کی بے بسی کا تو یہ عالم ہے کہ پی ڈی ایم میں شامل دو بڑی سیاسی جماعتوں میں سے کوئی بھی حکومت کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہے۔ مسلم لیگ ن کے صدر اور پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف کے فیصلوں سے کھلے عام ان کی جماعت کی نائب صدر اور چیف آرگنائزر مریم نواز اختلاف کر کے راہ فرار اختیار کر لیتی ہیں کہ جماعت حکومت میں ہے، میں نہیں ہوں لہٰذا میں تنقید کر سکتی ہوں، میں عام عوام ہوں۔ یوں تو سب جانتے ہیں یہ انتہائی بے تکا جواب ہے مگر کیا کہیں کیونکہ وہ مریم نواز ہیں، وہ یہ جواب دے سکتی ہیں اور ماننے والے مان رہے ہیں۔

دوسری بڑی جماعت پیپلز پارٹی کی حالت یہ ہے کہ وہ تو حکومت میں ہونے سے ہی مکر جاتے ہیں۔ حال ہی میں ایک جگہ انٹرویو میں سابق گورنر پنجاب اور سینیئر رہنما پیپلز پارٹی سردار لطیف کھوسہ نے یہاں تک کہہ دیا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نہیں ہے نا ہی حکومت کے کسی فیصلے سے پیپلز پارٹی کا کوئی تعلق ہے اور پھر بیچارے نوجوان اینکر کو پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین دو مختلف جماعتوں کی کشمکش میں ڈال کر راہ فرار اختیار کی حالانکہ ان کے چیئرمین بلاول بھٹو حکومت کا دنیا میں باقاعدہ آفیشل ریاستی چہرہ ہیں اور وزرات خارجہ کی کرسی پر براجمان ہیں مگر چونکہ جیالوں کو اپنی قیادت اور رہنماؤں پر یقین ہے تو بہرحال کیا ہی شکوہ کیا جائے۔

یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس حکومت کی جواب دہی اب ہمیں ایک سیٹ والے محسن داوڑ کے ذریعے سے کرنی چاہئیے کیونکہ اس کے علاوہ بڑی جماعتیں تو حکومتی ذمہ داریوں پر جواب دینے پر تیار نہیں ہیں۔

یہ مکمل صورت حال واضح کر رہی ہے کہ پروجیکٹ عمران نیازی ابھی بند نہیں ہوا بلکہ اس پر نئی پیکنگ کر کے مزید پاپولیرٹی کا تڑکہ لگا کر میدان میں لائے جانے کا امکان ہے۔ اب یہ کون کر رہا ہے، کیوں کر رہا ہے اور کس سے کروا رہا ہے، اس پر میرے تو ہونٹ سلے ہیں کیونکہ میرے پاس ایسی کوئی اطلاع نہیں۔ اس کا جواب آپ ماضی کے جھروکوں سے تلاش کریں۔

عظیم بٹ لگ بھگ 8 برسوں سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ بطور سماجی کارکن ملکی و غیر ملکی میڈیا فورمز اور ٹیلی وژن چینلز پر پاکستان کا مؤقف پیش کرتے ہیں۔ سردست وہ سماء ٹی وی کے ساتھ بطور ریسرچر اور پروڈیوسر وابستہ ہیں۔ ان کا ٹویٹر ہینڈل یہ ہے؛ Azeembutt_@