سیاسی جماعتوں کے فوج اور عدلیہ پر حملوں سے ملک کی جگ ہنسائی ہوئی

سیاسی جماعتوں کے فوج اور عدلیہ پر حملوں سے ملک کی جگ ہنسائی ہوئی
یوں تو بچپن سے ہی سنتے آ رہے ہیں کہ پاکستان نازک دور سے گزر رہا ہے مگر پچھلے دنوں 9 مئی کی توڑ پھوڑ کو دیکھ کر دل چاہا کہ نازک دور کے علاوہ یہ بھی کہنا چاہئیے کہ پاکستان عدم برداشت اور انتہا پسندی کے دور کے عروج سے بھی گزر رہا ہے۔

یہ توڑ پھوڑ سابق وزیر اعظم عمران خان کی غیر قانونی طریقے سے گرفتاری کے نتیجے میں تحریک انصاف کے احتجاج میں شامل شرپسند عناصر کی طرف سے کی گئی اور ان شرپسند عناصر کا ہدف عسکری مقامات بشمول جی ایچ کیو اور کور کمانڈر لاہور کا گھر تھا۔ اس کے علاوہ جو مناظر میرے لیے دل دہلا دینے والے تھے ان میں شہدا کی یادگاروں کی توڑ پھوڑ اور مجسموں کی بے حرمتی شامل ہیں۔ اس شرپسندی اور جہالت پر بھارتی سوشل و الیکٹرانک میڈیا پر جشن کا سماں تھا اور ان کا کہنا بجا تھا کہ پاکستان کو کسی دشمن کی ضرورت نہیں، وہ ایک دوسرے کو مارنے کے لیے خود ہی کافی ہیں۔

اس توڑ پھوڑ سے متعلقہ ایک تصویر میں ایک شرپسند نے نشان حیدر کے حامل اور کارگل کے ہیرو کرنل شیر خان شہید کا مجسمہ اکھاڑ کر اوپر اٹھایا ہوا ہے جبکہ پولیس پیچھے خاموش تماشائی بن کر سب کچھ دیکھ رہی ہے۔ اس شیر جوان شہید کے مجسمے کو اکھاڑنے کی دشمن ملک بھارت کے چند باشعور باشندوں نے بھی مذمت کی اور جو دشمن فوجی کرنل شیر خان شہید کے مقابلے میں لڑے تھے انہوں نے بھی اس کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ وہ تو ایسا بہادر تھا جس کی ہم دشمن ہوتے ہوئے بھی تعریف کرنے پر مجبور ہیں اور آپ لوگوں نے پاکستان میں اس کی نشانی (مجسمے) کے ساتھ کیسا سلوک کیا۔

کسی شرپسند کو ملکی املاک کو آگ لگاتے ہوئے دیکھا گیا اور کسی کو کور کمانڈر کے گھر سے مور چرا کر بھاگتے ہوئے دیکھا گیا۔ اب ان میں سے کچھ شرپسند گرفتار ہو چکے ہیں، کچھ کو گرفتار کیا جا چکا ہے اور کچھ افراد کو محض سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کی خاطر گرفتار کیا جا رہا ہے۔ مجھے اس بات نے بھی حیران کیا کہ جب شرپسند عناصر احتجاج کی آڑ میں سرکاری املاک کو نقصان پہنچا رہے تھے اس وقت پولیس یا فوج کا کوئی اہلکار ان کو روک کیوں نہ سکا؟

اب اس تمام واقعے کی شفاف اور حقائق پر مبنی تفتیش حکومت کے ذمے ہے۔ ایک غیر جانب دار کمیٹی بنا کر تحقیق اس کے سپرد کرنی چاہئیے اور اس کمیٹی کے افراد سب جماعتوں کی متفقہ رائے سے منتخب کیے جائیں جن کی دیانت میں کوئی شک نہ ہو (جو کہ بہت مشکل کام ہے)۔ اس افسوس ناک واقعے کے چند دن بعد پی ڈی ایم کی طرف سے سپریم کورٹ کے سامنے جلسہ کر کے چیف جسٹس آف پاکستان کے نظام انصاف پر کڑی تنقید کی گئی اور ان کے فیصلوں پر تنقید کر کے انہیں ڈھکے چھپے الفاظ میں دھمکایا گیا۔ یہ اداروں پر تنقید کا ایک اور قابل مذمت واقعہ تھا۔ اگر کوئی سیاست دان فوج کے خلاف بات کرے یا کوئی شرپسند اس کی تنصیبات پر حملہ کرے تو وہ بھی قابل مذمت ہے اور اگر کوئی سیاست دان اپنی کرسی کی خاطر عدالت عظمیٰ کے سامنے کھڑے ہو کر چیف جسٹس کو للکارے اور دھمکائے تو یہ بھی شرمناک اور قابل مذمت ہے۔

یہ سیاست دان جو اپنی کرسی کی خاطر یا من پسند فیصلے نہ ہونے کی وجہ سے اداروں اور اداروں سے وابستہ شخصیات کو للکار رہے ہیں، ان کو شرم آنی چاہئیے اور انہیں یہ سوچنا چاہئیے کہ ادارے ہیں تو پاکستان کا نظام ہے اور نظام ہے تو پاکستان ہے اور پاکستان ہے تو ہم سب ہیں۔ انہیں اپنی گندی سیاست میں اداروں کو گھسیٹنے کی بجائے خود اپنے حالات اور اپنی اصلاح پر غور کر کے پاکستان کو مزید جگ ہنسائی سے بچانا چاہئیے۔

اداروں کے سربراہان کو بھی کسی مخصوص سیاسی ٹولے کا آلہ کار بننے کی بجائے پاکستان اور اس کے عوام کی خاطر سوچنا چاہئیے اور خود کو سیاست سے الگ رکھنا چاہئیے۔ خدارا تمام با اثر شخصیات پاکستان پر رحم کریں اور اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کی خاطر ملک کو مزید جگ ہنسائی اور عدم استحکام سے بچائیں۔

احتشام اعجاز بھلی ان دنوں امریکہ میں مقیم ہیں اور U.S. Press Association کے ممبر ہیں۔ وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور لاہور ہائی کورٹ کے تاحیات رکن ہیں۔