عدلیہ کو اپنے حصے کی غلطیاں تسلیم کر کے ان کا ازالہ کرنا ہو گا

عدلیہ کو اپنے حصے کی غلطیاں تسلیم کر کے ان کا ازالہ کرنا ہو گا
وزیر اعظم پاکستان کے مشیر احتساب جناب عرفان قادر نے دو روز قبل پریس کانفرنس میں کہا کہ حکومت عدلیہ کو مضبوط اور متحد دیکھنا چاہتی ہے۔ ساتھ ہی انہوں نےعدلیہ کی تشکیلِ نو کی ضرورت پر بھی زور دیا جس کا تھوڑا بہت آغاز تو ہمیں پارلیمان کے نافذ کردہ قوانین میں بھی نظر آ رہا ہے۔

چیف جسٹس کے سوموٹو اور بنچ کی تشکیل کے اختیارت نئے قانون کے ذریعے ججز کی کمیٹی کو دیے گئے ہیں تا کہ ان اختیارات کے استعمال میں شفافیت اور غیرجانبداری پیدا کر کے ان کے استعمال سے ابھرنے والا منفی تاثر ختم کیا جا سکے۔ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرل ایکٹ میں آرٹیکل 184 (3) کے تحت مفاد عامہ کے معاملات میں سوموٹو کے فیصلوں کے خلاف اپیل کی طرز پرریویو کا قانون متعارف کروایا گیا ہے جو وکلا برادری کا ایک دیرینہ مطالبہ تھا۔ اس سے شفافیت اور غیر جانبداری کے ساتھ انصاف کی فراہمی کے اصولوں کو یقینی بنانے میں مدد ملے گی اور چیف جسٹس کے مطلق العنان اختیارات کے خاتمے کے بعد بنچ میں شامل ججز کے اندر یہ احساس پیدا ہو گا کہ ان کے فیصلے کے خلاف ریویو میں ان کے علاوہ دیگر ججز بھی شامل ہوں گے جو ان کی رائے سے اختلاف بھی کر سکتے ہیں۔ اس سے ایک محتاط اور مضبوط عدالتی رائے کو تقویت ملے گی۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ ان قوانین کا جواز وکلا کے علاوہ سپریم کورٹ کے اندر سے سامنے آنے والے تحفظات ہیں جو چیف جسٹس صاحب کے بنائے ہوئے بنچز کے فیصلوں میں اختلاف رائے اور سپریم کورٹ ہی کے بنچز کی سماعت کے دوران ججز کے کمنٹس سے ابھرے ہیں۔ ان میں 'ون مین شو' یا 'روب کے پیچھے سیاسی کردار' وغیرہ جیسے تاثرات شامل ہیں۔ عدالتوں میں اختلافات ہوتے ہیں مگر ان کی بنیاد قانونی یا معلوماتی نکات ہوتے ہیں لیکن اگر ججز کے کنڈکٹ پر سوال اٹھنا شروع ہو جائیں یا ان کے اختیارات کے استعمال پر اعتراضات اور تحفظات آنا شروع ہو جائیں تو ان کو اختلافی آرا نہیں کہا جا سکتا بلکہ ان سے عدلیہ کے نظام انصاف میں انصاف کی فراہمی کی راہ میں حائل غلطیوں کی نشاندہی ہوتی ہے۔

اس وقت ریاست کے اندر ہم جو سیاسی عدم استحکام، بدعنوانی اور قانون کی حکمرانی میں رکاوٹ دیکھ رہے ہیں اس کا تعلق بھی انصاف کے عمل سے ہے اور اگر نظام انصاف پر ہی سوال اٹھ رہے ہوں اور ججز پر مبینہ الزامات کے انکشافات ہو رہے ہوں تو پھر چاہئیے تو یہ کہ احتساب کے عمل کا آغاز بھی نظام انصاف سے ہی شروع ہو۔ کیونکہ نظام انصاف ہی ریاستی معاملات کو آئین و قانون کے مطابق چلانے کی ضمانت دے سکتا ہے۔ اگر کہیں بدعنوانی ہوتی ہے یا کسی کا حق مارا جاتا ہے تو اس کی دار رسی کا آخری سہارا عدالتیں ہی ہوتی ہیں اور اگر عدالتیں خود ہی خطرات کا شکار ہو چکی ہوں تو پھر ریاست کے امن، تحفظ اور ترقی کی ضمانت کون دے گا؟

ہمارے آئین میں نظام انصاف کو خود مختار حیثیت دی گئی ہے اور اس میں احتساب کے عمل کو بھی بہت ہی شفاف، غیر جانبدارانہ اور خود کار طریقہ سے متعارف کروایا گیا ہے مگر اس پر عمل درآمد مفلوج ہو چکا ہے جس کی وجوہات اختیارات کی اجارہ داری ہے جس نے غیر جانبداری، شفافیت اور انصاف کے اصولوں کو اپاہج کر کے رکھ دیا ہے اور صورت حال دن بدن انتہائی تشویش ناک ہوتی جا رہی ہے۔ ان سارے معاملات کا تعلق اخلاقیات سے ہے جو ہمارے معاشرے میں انتہائی گراوٹ کا شکار ہو چکی ہیں۔

یوں تو اچھی پریکٹس کو قانون پر بھی فوقیت دینے کی کوشش کی جاتی ہے مگر ہمارے اسلاف سے بڑاعمل کس کا ہو سکتا ہے۔ حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کو چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنے کے لئے چالیس دن تک کوڑے لگوائے جاتے رہے مگر انہوں نے یہ عہدہ قبول نہیں کیا۔ اس کی وجہ اللہ کے رسولﷺ کا وہ فرمان ہے جس میں انہوں نے ججز کو تین درجوں میں تقسیم کر کے سخت وعید سنائی ہے۔ ایک تو وہ قسم ہے جو اس عہدے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے اور فیصلے بھی غلط کرتے ہیں۔ دوسرے وہ جو اہلیت تو رکھتے ہیں مگر فیصلے انصاف پر مبنی نہیں کرتے اور تیسرا گروہ ان کا ہے جو اہلیت بھی رکھتے ہیں اور فیصلے بھی انصاف پر مبنی کرتے ہیں۔ ان میں سے تیسری قسم کے ججز جنت میں جائیں گے۔

جس طرح سے تواتر کے ساتھ سپریم کورٹ میں انتظامی اختیارات کے استعمال پر ادارے کے اندر اور باہر سے اعتراضات اور تحفظات سامنے آ رہے ہیں لیکن ان کو سنجیدہ نہیں لیا جا رہا، یہ سمجھ سے باہر ہے۔

جب سپریم جوڈیشل کونسل اتنے بڑے سنگین الزامات کے باوجود بے توجہی سے کام لے رہی ہو تو اس سے عوام کا عدالتوں پر اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ اس معاملے پر سپریم کورٹ کے اندر ججز میں بھی تشویش پیدا ہو رہی تھی اور دو ممبران ججز کونسل کا اجلاس بلانے کا مطالبہ بھی کر رہے تھے تا کہ ججز کے کنڈکٹ پر لگائے گئے الزامات کو دیکھا جا سکے۔ اگر ان کے خلاف الزامات جھوٹے ہوں تو ختم کریں وگرنہ پھر اس کو منطقی انجام تک پہنچایا جا سکے۔ ایسے حالات میں ادارے کے اندر سے ابھرنے والے تشویش ناک تاثرات کو نظر انداز کیسے کیا جا سکتا ہے اور جب اس تشویش کی بنیاد بھی چیف جسٹس صاحب کے انتظامی اختیارات ہی بن رہے ہوں تو پھر اس طرح کے سوالات کا اٹھنا کوئی انہونی بات نہیں ہوتی۔

ان کی بنیاد اصولوں کی وہ خلاف ورزیاں ہیں جن میں سنیارٹی کے اصول کو نظر انداز کیا گیا جن کی اب افزائش نسل شروع ہو گئی ہے اور تباہی کا یہ سلسلہ تھمنے والا نہیں لگ رہا۔ پچھلے سال حکومت نے ججوں کی تعیناتی کے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا جس میں سنیارٹی کو نظر انداز کیا گیا تھا اور اسی بنیاد پر پارلیمانی کمیٹی نے بھی سپریم جوڈیشل کونسل کی سمری کو واپس بھیج دیا تھا۔ چند دن قبل سپریم کورٹ میں اس معاملے کو سنا گیا اور عجیب اتفاق یہ ہوا کہ فیصلہ کرنے والے تین رکنی بنچ میں دو ججز خود انہی سنیارٹی کے اصولوں کے خلاف سپریم کورٹ میں تعینات ہوئے تھے جنہوں نے یہ فیصلہ دیا کہ پارلیمانی کمیٹی سنیارٹی کو نہیں دیکھ سکتی جبکہ سنیارٹی کے اصولوں کے تحت تعینات ہونے والے جسٹس اطہر من اللہ نے لکھا کہ وہ اس کو دیکھ سکتے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اصولوں کی ان خلاف ورزیوں کو ہم دوبارہ سے واپس لا سکتے ہیں؟ سپریم کورٹ کے اندر رنگدار گلابوں کی شجرکاری نے جون کے گرم موسم میں جیسے ججز کے چہروں پر خوشگواری اور تازگی پیدا کی ہے اگر وہ اسی طرح ان کی سوچوں پر بھی لا سکیں تو یقیناً یہ سب کچھ ممکن ہے۔ سپریم کورٹ کے تمام ججز کو اگر ان غلطیوں کا احساس ہو جائے تو پھر ان کو تسلیم بھی کرنا ہو گا۔ جیسے جیسے یہ واقع ہوئیں اسی طرح ان کی واپسی کو بھی ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ فل کورٹ بیٹھ کر اصولوں کو طے کرے اور ان کے مطابق عمل کرتے ہوئے اپنے اور سپریم جوڈیشل کونسل کے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے معاملات کو استدلال پر لے آئیں۔

اور اگر یہ محض چہروں کی تازگی کا رسمی ساماں ہی تھا تو پھر اس علامتی تبدیلی سے معاملات کا مکمل حل ڈھونڈنا ممکن نہ ہو سکے گا اور قوم کو پارلیمانی اصلاحات کے ذریعے سے ہی کوئی حل ڈھونڈنا پڑے گا۔

عوامی تاثرات تو اپنی جگہ مگر جس نہج پر ہم پہنچ چکے ہیں یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا بلکہ اس کے پیچھے سالوں کی محنتیں ہیں اور آنے والی دہائیوں کے بندوبست کئے جاتے رہے ہیں۔ کیا عدلیہ کے اندر سے اٹھنے والی آوازوں کو دبایا نہیں جاتا رہا؟ کیا اس میں عدلیہ کا اپنا حصہ نہیں؟ کیا آئینی تشریحات نے اس اٹھتے ہوئے اعتماد کو ہوا نہیں دی؟ کتنے دکھ کی بات ہے کہ جب پارلیمان میں ججز کی نیک نامیوں کو زیر بحث لایا جا رہا ہو اور حکومت اپنے اداروں کی عزتیں اچھال رہی ہو تو دنیا میں ہمارا کیا تاثر ابھر رہا ہو گا؟ اس طرح تو نظام خطروں میں پڑ جاتے ہیں مگر ہمیں پھر بھی خیال نہیں آ رہا۔ آج ہماری سلامتی کو للکارنے والوں کے خلاف فوجی عدالتوں کی آوازیں کیوں بلند ہو رہی ہیں؟ کیا یہ ہمارے مروجہ نظام عدل پر ایک سوال نہیں؟

اداروں میں انتظامی عہدوں پر بیٹھے لوگ تو بدلتے رہتے ہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا مگر ریاستی اداروں کی عزت و احترام ریاست کی ساکھ اور عوام کے اداروں پر اعتماد کی اساس ہوتا ہے جس کو کسی صورت بھی ٹھیس نہیں پہنچنی چاہئیے۔ بعض دفعہ اس طرح کے چیلنجز کا سبب ان آئینی عہدوں پر بیٹھی شخصیات کا کنڈکٹ ہوتا ہے جو قانون میں بہتری لانے کے مواقعوں کا سبب بنتا ہے مگر اس میں نیک نیتی اور اصلاح کا پہلو پیش نظر ہونا چاہئیے نا کہ انا کی تسکین یا مفادات کا حصول۔

سپریم جوڈیشل کونسل کو فعال کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ اگر یہ ادارہ اپنے فرائض منصبی صحیح معنوں میں ادا کر رہا ہوتا تو اس قدر حالات خراب نہ ہوتے اور عدالت عظمیٰ پر اٹھنے والے سوالات جنم ہی نہ لیتے۔ اگر شوق سے کندھا دیا ہے تو پھر اب وزن بھی اٹھانا پڑے گا یا پھر جہاں سے اٹھایا تھا وہیں واپس لوٹانا ہوگا۔ اس دھرتی کے ساتھ صدی کا جو سب سے بڑا سیاسی پرینک ہوا ہے اس میں اپنے حصے کی تباہی کو تسلیم کر کے اس کا ازالہ بھی کرنا ہو گا وگرنہ فطرت کے انتقام کا سامنا کرنا پڑے گا۔