احسان ہوا تیرا ہم پر

احسان ہوا تیرا ہم پر
ارے بھائی کیا ایسی قیامت ٹوٹ پڑی جو یہ سوشل میڈیا پر ہنگامہ سا برپا ہے؟ ہمارے ہر دلعزیز شاعر، ادیب، دانشور اور مفکر بھائی، جناب احسان اللہ احسان نے حال ہی میں مبینہ طور پر نقل مکانی ہی تو کی ہے۔ یعنی ہمارے بردار ملک ترکی کو انہوں نے شرف مہمان نوازی بخش دیا تو یہ ہمیں کیوں مروڑ اٹھ رہے ہیں؟ آخر کار ’امہ‘ کے ایک اور جی دار جناب اردوان جیسا میزبان تو نصیب والوں کو ملتا ہے۔ سچ پوچھیے تو حاسدین کا برا حال ہے کہ ہم بھی تو پڑے تھے راہوں میں اور سیاں ہماری گلی کیوں نہ آئے۔

چند ایک ناعاقبت اندیشوں نے اسے ’فرار‘ جیسے عامیانہ لفظ سے تشبیح دی ہے۔ توبہ توبہ کیجئے صاحب۔ بھلا ان کو فرار کی کیا ضرورت تھی؟ اپنے گھر سے کون بھاگتا ہے علاوہ چند خون کی گرمی میں مبتلا شادی کرنے کے خواہشمند، محبت نامی بلا کے مارے نوجوانوں کے؟ بھائی تو ماشااللہ سے ان تمام علتوں سے عاری تھے۔ حضور نے ہم کو نہ صرف شرف مہمان نوازی ایک طویل عرصے تک بخشا، بلکہ الٹا ہم پر احسان کر گئے کہ ایک عدد پاکستانی کا ہماری مردم شماری میں اضافہ کر کے ہمیں جو شرف بخشا اس کا کیا مول دیجئے گا؟



مول سے یاد آیا کہ سارا جھگڑا اور رنجش ہی اسی بات کی ہے کہ حضور کی سپیڈ ڈائل پر ہمارے تمام چینلز موجود ہیں۔ انہی چینلز پر جناب احسان اللہ احسان اپنی دانش کے موتی بکھیرا کرتے تھے۔ یہی چینلز جناب کو لائیو کوریج دیتے تھے۔ جناب اپنے اشعار فی البدیہہ انہی چینلز کو کبھی عطا کیا کرتے تھے۔ حضور کی چند آزاد نظمیں تو اردو ادب کے لئے ایک سرمائے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ جن میں خصوصاً ’میں پھٹ گیا‘، ’ہلاک ہو گیا‘ اور ’حملہ قبول ہے، قبول ہے قبول ہے‘سرفہرست ہیں۔ جناب ہی کی آسانی کی خاطر ہمارے ہر گھڑی تیار اور کامران ادارے نے بول، مول، ڈھول، تول، گھول، ٹٹول حتیٰ کے لول تک کے نام سے چینل کھول دیا اور جناب نے اپنی نقل مکانی کی خبر سامراج کے ایک ایسے چینل کو دی جو ہمیں ایک آنکھ نہیں بھاتا۔

خیر، جناب بڑے آدمی ہیں اور بڑے لوگوں کی بڑی باتیں۔ یہاں چند ایک غیر ذمہ دار افراد جناب پر طرح طرح کے الزامات عائد کرتے پائے جاتے ہیں کہ جناب کی انجمن تخریبی کاموں میں ملوث تھی۔ بھلا ایسے کند ذہنوں کی بات کا کیا اعتبار کیجئے؟ بھائی تو صرف انجمن کے ترجمان تھے۔ جب انجمن والے بھائی کو اشارہ دیتے تھے تو بھائی اپنے حسن کلام سے بطور ترجمان، ہمیں نوازا کرتے تھے۔ تحریک طالبان پاکستان، یعنی ان طلبہ کی تنظیم کہ حصول علم جن کی زندگی کا نصب العین ہے۔ بھلا وہ اہل علم و قلم کیا کسی بھی تخریبی کام میں ملوث ہوسکتے ہیں؟ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ الزامات نرے الزامات ہی رہے۔

بھائی کے حسن سلوک اور اعلیٰ اخلاق سے حاسد افراد نے جب بھائی کو گزند پہنچانے کی ٹھانی، تو ہم نے بھائی کی منت سماجت کی اور جناب کو بالآخر اپنی مہمان نوازی پر مجبور کر لیا۔ اس غرض سے بھائی کو ’حفاظتی تحویل‘ میں لے لیا۔ چند بے کار کے ارسطو اسے ’حراست‘ جیسے عامیانہ لفظ سے تشبیہہ دے کر بھائی کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچا رہے ہیں۔ ان سب سے التماس ہے کہ حد ادب کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ جن سے پیار ہوتا ہے انہیں اپنی نگاہوں میں بسایا جاتا ہے پلکوں پر بٹھایا جاتا ہے۔ جو ہم نے قریب ڈھائی برس تلک پوری دل جمعی اور مستعدی سے کیا۔

ان کی علمی اور ادبی خدمات کو سراہنے کی خاطر ’جینے دو‘ نامی چینل کے صافی نامی صحافی نے بھائی کو قوم کے سامنے پیش کیا۔ تاکہ قوم بھائی کا اصلی چہرہ دیکھ سکے کہ بھائی احسان اللہ احسان گویا بچوں کے ٹیڈی ئئیر ہیں۔ کاش کہ ہالی ووڈ والے ہماری زبان سے کوئی شغف رکھتے تو موصوف کو ’ونی دا پُو‘ والے ٹیڈی بیئر کے لئے کاسٹ کر لیتے۔ ان جیسے ملنسار، خوش مزاج اور انسانیت کے لئے درد دل رکھنے والے آج کل شاذ ہی نظر آتے ہیں۔



اتنے ناقابل تردید شواہد ملنے کے باوجود، حاسدین اور ناقدین اب بھی ان پر طرح طرح کے دہشت گردی اور تخریب کاری کے جھوٹے من گھڑت اور ناقابل یقین الزامات داغ رہے ہیں۔ اسی لئے محکمے کے منظور شدہ ترجمان کو جناب کا دفاع ٹی وی کی سکرینوں پر کرنا پڑ رہا ہے۔ آخر ایک ترجمان ہی دوسرے ترجمان کو بہتر سمجھ سکتا ہے۔ بھائی اور بھائی کی انجمن کا اصل نصب العین تو عین ہماری قومی فلاح ہی ہے نا۔

احسان بھائی نے تو ہم پر وہ احسان کیا کہ ہم اس کا بدلہ چکانے کے لائق بھی نہیں۔ بھائی کو آمد ہوئی کہ چند تخریب کار فلاں فلاں جگہوں پر چھپے ہیں۔ بھائی نے محکمے کو خبر دی اور یوں محکمے نے ان منحوسوں کو گرفتار کیا اور چند کو جہنم وصل۔ ایسے ترجمان تو ہمیں ڈھونڈے نہ ملیں۔ بہت جلد عین ممکن ہے کہ دارالحکومت کے چوک چوراہوں پر آپ کے پوسٹر ہماری محب وطن تنظیم ’موو آن ڈوٹ اورگ‘ کی جانب سے آویزاں ہوتے دیکھیں۔ قیاس یہی ہے کہ ان پردرج ہو گا: ’’احسان بھائی جانے کی باتیں جانے دو۔ اب لوٹ آؤ۔ اب واپس آ بھی جاؤ‘‘