کیا غذائی قلت کرونا کی وبا سے زیادہ خطرناک ہے؟

کیا غذائی قلت کرونا کی وبا سے زیادہ خطرناک ہے؟
ایک قدیم کہاوت ہے کہ ایک صحت مند دماغ کے لئے ایک صحت مند جسم کا ہونا اشد ضروری ہے۔  اور صحت مند جسم کا براہِ راست تعلق خوراک سے ہے۔ تندرست و تواناجسم  کے لیے اچھی خوراک کا ہونا ضروری ہے ۔ اس طرح وہ اپنی مصروفیاتِ زندگی بہتر طریقے سے سر انجام دے سکے گا۔ تاریخ کے اوراق  میں دیکھا جائے تو اچھی خوراک ہونے کی وجہ سے لوگ مشقت والا کام با آسانی کر لیتے تھے۔مگر آج کے دور میں بسنے والے انسان کو زیادہ مشقت والا کام ناممکن ہونے کی حد تک دیکھائی دیتا ہے۔ اسکی ایک وجہ خوراک میں متوازن غذائی اجزاء کی کمی ہے۔ تحقیق کے مطابق دنیا میں اس وقت  ۳  ارب سے زائد لوگ خوردنی اجزاء کی کمی کا شکار ہیں اور یہ کمی  زیاد ہ  تر  ترقی  پزید ممالک میں پائی گئی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کا شمار بھی انہیں ممالک میں ہوتا ہے جہاں پانچ  سال  تک کے  بچے  غذائی لحاظ  سے  خورد نی  اجزاء کی کمی کا شکار ہیں۔

قومی اعداد و شمار کے مطابق  سٹنٹگ،ویسٹنگ اور خوردنی اجزاء کی کمی پاکستان کے مقامی امراض  ہیں۔ سٹنٹنگ جس میں  جسم کی مکمل نشوونما نہیں ہو پاتی اور  قد نارمل  حالت سے کم رہتا ہے ویسٹنگ جس  میں  انسان کا وزن قد کے لحاظ سے کم رہتا ہے جس کی بڑی وجہ   مسلز کا  نا مکمل بننا ہے   ان  سب کی وجہ خوراک میں اہم خوردنی اجزاء کی کمی ہے۔


زیادہ تر یہ امراض چھوٹے بچوں میں پائی جاتی ہیں تقریبا پانچ سال تک کی عمر کے  بچوں میں سے آ دھے سٹنٹنگ اور تین میں سے ایک وزن کی کمی کا شکار ہے۔ پاکستان میں سٹنٹنگ کے  شکار بچوں کی  شرح  45% ہے اور ویسٹنگ کی شرح12% ہے۔ ان سب کی وجہ خوراک میں اہم خوردنی اجزاء کی کمی ہے جوصحت پر برے ا ثرات مرتب کرتی ہے اور  خاص طور پر اگر یہ عمر کے ابتدائی ایام میں لاحق ہو جائے تو یہ بچوں کی جسمانی اور دماغی نشوونما کو روک دینے کے ساتھ ساتھ موت کی شرح میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔

ان امراض کے بہت سے اسباب  میں سے چند ایک غذائی کمی، حاملہ ماؤں کی  نامناسب دیکھ بھال اور خوراک میں خوردنی اجزا کی کمی شامل ہیں۔ریسرچ کے مطابق اس وقت دنیا میں % 30 اور پاکستان میں % 53 سے زیادہ خواتین اینمیا یعنی آئرن کی کمی کا شکار ہیں  جس کی وجہ زرعی اجناس میں خوردنی اجزاء کی کمی اور اس کے متعلق نامکمل آگہی کی  وجوہات شامل ہیں۔

ان خطرات سے نپٹنے کے لیے بہت سی حکمت عملیاں اپنائی گئی ہیں لیکن لوگوں کو خوراک مہیا کرنے کے لیے بنائے جانے والے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ معاشی بجٹ میں کمی ہے جو کہ خوراک میں اہم خوردنی اجزا کی کمی کا باعث ہے۔ ان خطرات کے سدباد میں سب سے پہلے آگاہی اور خوراک  میں خوردنی اجزاء کی کمی کو  پورا کرنے کے لیے صوبائی اور قومی سطح  پرکام کرنے کی ضرورت ہے۔ میڈیا، غذا کے متعلق آگہی کاسب سے اہم  ذریعہ ہے۔ سکولوں میں، خصوصا ابتدائی تعلیم کے بچوں میں گھر سے باہر کے ماحول  میں کافی برے  اثرات کا سامنا کرناپڑتا ہے۔  والدین اور اساتذہ کو چاہیے کہ بچوں کو  صحت مند کھانے کی عادت کے ڈالنے  کے لیےانکی رہنمائی کریں۔ ابتدائی عمر میں بہت سی وجوہات ہوتی ہیں جو صحت مند غذائی عادات کی حوصلہ شکنی کرتی ہیں جن میں سے چندایک  حفظان صحت کے منافی کھانے کی جگہ،چھا بڑی فروشوں کی سکولوں کے آس پاس بڑھتی ہوئی تعداد  اور والدین کا مصروف طرز زندگی شامل ہیں َ۔ ان وجوہات کی وجہ سے بچے اپنی بڑھتی  ہوئی عمر میں غیر معیاری  غذاکی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔  َایسی خوراک  کی وجہ سے قومی ومعاشی  ترقی، صحت کی دیکھ بھال کے لیے بنیادی ڈھانچے  اور شہریوں کی مجموعی طور پر  ذہنی، جسمانی او رسماجی زندگی پر برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اس لیے سکول کی حدود کے اندر خوراک  کے متعلق آگاہی، والدین اور انکے بچوں  کے لیے  صحت  اور صحت  مندماحول پیداکرنے کا اہم عنصر ہے ۔حال ہی میں پنجاب فوڈ اتھارٹی نے ان مسائل کو حل کرنے کے لیے سکولوں میں ایسے اقدام اٹھائے جن میں خوراک سے متعلق آگاہی اور نصاب میں ترقی کے پروگرام شروع کرنے کے ساتھ ساتھ سکولوں میں انرجی  ڈرنکس اور کاربونیٹڈمشروبات  بیچنے پر پابندی لگائی جو کہ انتہائی اچھے اقدام ہیں اور انکا خیر مقدم کیا گیا۔

پاکستان میں ابتدائی تعلیم گورنمنٹ سیکڑ سے  پرایؤٹ  سیکڑ کی طرف بڑھ رہی ہے ۔ پرایؤٹ سیکڑ والے مختلف تدابیر اپنا کر بچوں اور والدین کو اپنی طرف راغب کر رہے ہیں  اور ماہر اساتذہ کو  ملازمت دے کر  بہتر نتائج حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جن میں بچوں کو موسیقی سکھانے،جسمانی فٹنس کی نگرانی اور طالب علموں کی حوصلہ افزائی کرنا  شامل ہے مگر صحت اور جسمانی نشوونما کو ترجیح نہیں دی جاتی۔یہ ایک پریشان کن حالت ہے کہ تعلیم اور تربیت کے ایک انتہائی اہم  پہلو کو نظراندازکیا جارہا ہے اور بدقسمتی سے بہت سے والدین بھی اس بارے فکر مند نہیں ہیں۔مگر حوصلہ افزا پہلو یہ ہے کہ نوجوانوں کی  بہت بڑی تعداد جنہوں  نے غذائیت میں تعلیم حاصل کی ہے  اب اعلی تعلیمی اداروں  سے نکل رہی ہے۔ یہ گریجویٹ اچھی طرح تعلیم یافتہ ہیں  اور خوراک  کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ان کو تربیت بھی  دی گئی ہے۔ مگر اب بھی بہت سے لوگ صحت کی دیکھ بھال کے نظام میں نوکری تلاش کر رہے ہیں  اگر ان کو سکولوں میں جگہ دی جائے تو یہ وہاں سب سے بہتر ملازم ہونگے۔

جس سے ہمارے شہری کی صحت اور غذائیت کو طویل عرصے تک بہتربنانے میں اور مضبوط صحت مند ملک کی قیادت میں مدد مل سکتی ہے۔ لہذا گورنمنٹ  اور پرائیوٹ  شعبے کے سکولوں میں پیشہ ورانہ غذاٗئیت کے اساتذہ کو بھرتی کرنا ہو گا تاکہ وہ بچوں کو غذائیت سے متعلق آگہی فراہم کرنے اور صحت مند خوراک کی طرف راغب کرنے کے خوش آئنداور موئثر اقدام کو اپنائیں َ۔ یہ تجویز وازرت تعلیم کے ساتھ ساتھ کھانے کی ریگولیٹری حکام کو بھی دی جائے تاکہ سکول کم ازکم ایک نیوٹریشنسٹ کو لازمی طور پر بھرتی کرے۔ عام طور پر یہ اسکول ان استاتذہ کو اوسط تیس سے چالیس ہزار روپے ادا کرتے ہیں۔ لہذا نیوٹریشن کے ماہرین کو ملازمتیں انکے بجٹ پر زیادہ  اثر انداز نہیں ہونگی۔ خاص طور پر جب ہم پاکستان کی مجموعی آبادی کے صحت مند ہونے پر اس پالیسی کے طویل عرصے تک اثر ات کا اظہار کرتے ہیں توایک مضبوط ومستحکم پاکستان کی قیادت کے لیے صحت مند بچوں اور صحت مند نوجوانوں کا ہونا ضروری ہے۔  جو کہ صرف اس پالیسی کے طویل عرصے تک رائج ہونے کے بعد حاصل  ہو سکتے ہیں۔