یومِ استحصال کے ڈھکوسلے چھوڑیں، یومِ استغفار منائیں۔ کشمیر ہاتھ سے نکل چکا

یومِ استحصال کے ڈھکوسلے چھوڑیں، یومِ استغفار منائیں۔ کشمیر ہاتھ سے نکل چکا
آج کے کالم میں تھوڑا جذبات کا عنصر نظر آئے تو پیشگی معذرت قبول فرمائیں۔ معاملہ ہی ایسا ہے۔ بچپن سے اپنی نصابی کتب میں یہی پڑھتے آئے اور منظر نامہ بھی یہی پیش کیا جاتا رہا کہ کشمیر ہماری شہہ رگ ہے اور ’ہم چھین کے لیں گے آزادی‘ کے بہت قریب ہیں۔ لیکن پچھلے سال 5 اگست کو یہ سب باتیں حرف غلط کی طرح مٹ کر رہ گئیں جب مودی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے بین الاقوامی اصولوں کی دھجیاں اڑاتے ہوئے بھارت میں ضم کر لیا اور وہاں پر احتجاج کو دبانے کے لئے کرفیو کا نفاذ کر دیا۔ سابقہ بیانیے کے مطابق میرا خیال یہ تھا کہ اب وہ ہوگا کہ جس کا دنیا تصور نہیں کر سکتی اور اب اقوامِ عالم ضرور اپنا کردار ادا کرنے پر مجبور ہوں گی۔ معاف کیجئے گا، میں کسی جنگ کی بات نہیں کر رہا بلکہ ایک اعصابی جنگ کی بات کر رہا ہوں کیونکہ نریندر مودی نے بھی تو ہمارے ساتھ یہی حربہ اختیار کیا۔

ویسے یہ بات ہمارے دفاعی بیانیہ کا حصہ ہے کہ اگر کشمیر کی موجودہ حیثیت کو چھیڑا جائے گا تو پاکستان جنگ پر مجبور ہوگا۔ ایسی جنگ کو ایک طرف رکھیے لیکن یہ تو ہو سکتا تھا کہ آزاد کشمیر کی سیاسی قیادت اور عوام کو اعتماد میں لیا جاتا، انہیں مقبوضہ کشمیر کی مظلوم عوام کی مدد کے لئے لائن آف کنٹرول پر پہنچنے یا اسے پار کرنے پر قائل کیا جاتا۔ اس جذبہ کو دیکھتے ہوئے غالب امکان ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام بھی باہر نکل کر لائن آف کنٹرول کی طرف چل پڑتے۔ ذرا سوچیے، اگر ایسا ممکن ہو جاتا تو اس کا سیاسی فائدہ کس کو جاتا۔

اس نکتے پر بہت سارے لوگ یہ اعتراض کر سکتے ہیں کہ بہت خون خرابہ ہو جاتا لیکن اس بہانہ بازی کو پرے رکھیں تو ہمیں بڑے آرام سے سمجھ آ سکتی ہے کہ معاملہ اس نہج پر جاتے دیکھ کر پوری دنیا حرکت میں آ جاتی۔ جن چھوٹے چھوٹے ممالک کی ہم بعد میں منتیں کرتے پائے گئے، شاید اس کی نوبت نہ آتی۔ دوسری طرف مودی حکومت اپنے گھر میں اتنی بھی طاقتور نہ تھی کہ لائن آف کنٹرول پر پیدا شدہ اس بحرانی کیفیت کا اپنے ملک میں سامنا کر سکتی اور نہ ہی وہ اس قابل تھی کہ لائن آف کنٹرول پر دونوں طرف کے کشمیری عوام کے خون کے ساتھ ہولی کھیل سکتی۔ بھارت میں اس اقدام کی مخالف آوازوں اور جماعتوں کو مزید طاقت ملتی۔ شاید یہ بھی دیکھنے کو مل جاتا کہ انتہا پسند ذہنیت کو اس کے اپنے گھر میں دھول کیسے چٹائی جا سکتی ہے۔

یقیناً ساری دنیا اس مسئلے کو حل کرنے میں دلچسپی دکھانے پر مجبور نظر آتی اور خاص طور پر ان مسلم ممالک کی ثالث بننے کے لئے حالت تو دیدنی ہوتی جو اب ہمیں پہچاننے سے انکار کر رہے ہیں۔ مجھے تو اس بات سے بھی اتفاق ہے کہ کشمیریوں کا حوصلہ بڑھانے کے لئے اور دنیا کو دکھانے کے لئے ہماری فوج کو بھی لائن آف کنٹرول پر ریڈ الرٹ کر دیا جاتا کیونکہ کشمیر کے جغرافیہ اور حیثیت میں تبدیلی کے حوالے سے ہماری دفاعی ڈاکٹراین بہت واضح ہے۔

لیکن ہوا کیا یہ سوال بہت اہم ہے۔ پوری دنیا کو اور ہمارے ملک میں بھی بہت لوگوں کو علم تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں جس طرح فوج بھیجی جا رہی ہے اور لوگوں کو گھروں میں مقید کیا جا رہا ہے، یہ سب بہت غیر معمولی کام کے لئے کیا جا رہا ہے۔ انصاف کی بات یہ ہے کہ اگر عام لوگوں کو پتہ تھا کہ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے کو ہے کیونکہ یہ نریندر مودی کا انتخابی نعرہ تھا تو کیا ہماری قومی قیادت کو پتہ نہیں ہوگا؟ لیکن مجال ہے کسی نے 5 اگست سے پہلے چوں بھی کی ہو۔

میرے ملک کے وزیراعظم نے پوری قوم کو ہدایت کی ہر جمعہ کو دھوپ میں نصف گھنٹہ کھڑے ہو کر کشمیریوں سے یکجہتی کا اظہار کیا جائے۔ پھر فرمایا کہ پوری قوم کشمیر کے لئے متحد ہو جائے اور اس مسئلے پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا جائے گا لیکن جب یہ وقت آیا تو اپوزیشن کے ساتھ ہونے والے اجلاس سے ہی اٹھ کر چل دیے۔ کشمیریوں کو ہدایت کی کہ جو بھی لائن آف کنٹرول پار کرنے کی کوششوں کا حصہ بنے گا وہ دراصل کشمیر کاز سے دشمنی کا مرتکب ہوگا اور پھر ہم نے دیکھا کہ جس کسی نے بھی ایسی چھوٹی موٹی کوشش کی اسے یا تو گرفتار کر لیا گیا یا ڈرا دھمکا کر واپس کر دیا گیا۔ غرضیکہ ایک مسخرہ پن ہے جو مسلسل پوری قوم بھگت رہی ہے۔ ہمارا کل حاصل ایک جنرل اسمبلی کی تقریر ہے اور اس کے علاوہ ہمیں کسی نے منہ نہیں لگایا۔ ظاہر ہے لگائیں بھی کیوں جب انہیں پتہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی کشمیر کے لئے سنجیدہ نہیں بلکہ ان کی اس سے زیادہ سنجیدگی تو افغان امن مذاکرات میں ہے کیونکہ آنے والے وقت میں سب نے مل کر افغان داعش سے لڑنا ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی کا تقاضا بھی یہی ہے۔

مقبوضہ کشمیر پر مکمل بھارتی تسلط کا سال پورا ہونے پر پاکستانی حکومت نے اسے یوم استحصال قرار دیا ہے اور پوری قوم کو بھی یہ حکم ملا ہے کہ اس دن کشمیر کی مظلوم عوام کے لئے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی جائے۔ آئی ایس پی آر نے پی ٹی وی یا ریڈیو پاکستان کو تکلیف دیے بغیر ایک گانا بھی ریلیز کر دیا ہے اور ساتھ ہی کشمیر روڈ کو سرینگر روڈ کا نام دے دیا گیا ہے۔ یعنی ایک بڑے نام ’ کشمیر‘ کو بدل کر اس کے ایک شہر کے نام پر سڑک کا نام رکھ دیا گیا ہے۔

ادھر اپاہج اپوزیشن کا حال یہ ہے کہ وہ بھی یہ کہتے پائے گئے کہ نام بدلنے کا کام تو اچھا ہے لیکن حکومت نے مسئلہ کشمیر کو صحیح طور پر اقوام عالم میں نہیں اٹھایا۔ اپوزیشن کو اب بھی یہ یقین ہے کہ اس طرح پردہ پوشی کے سے بیانات سے ان کی تقدیر کا تالا کھل سکتا ہے۔ کشمیریوں کی ہزاروں قربانیاں رائیگاں بھی چلی جائیں تو انہیں اس کی ذرہ برابر پرواہ نہیں۔

لیکن تاریخ معاف نہیں کیا کرتی۔ بے سروپا قسم کے جتنے بھی گانے تخلیق کر لیے جائیں، یا سڑکوں کے نام، تقدیر کبھی نہیں بدلے گی کیونکہ دوسری طرف تو ہم افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی خاطر واہگہ بارڈر کھولنے پر بھی مجبور ہو گئے۔ قوم کو تو یہ سمجھ نہیں آتی کہ اگر آپ واہگہ بارڈر بھی مستقل بند کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تو پھر اسے بند ہی کیوں کرتے ہیں۔ ہمیں کشمیر کے مسئلے پر کوئی پوچھتا نہیں لیکن میرے وزیر اعظم کا یہ دعویٰ ہے کہ ہم سعودی عرب اور ایران میں ثالثی کروا رہے ہیں۔

خدا کرے میرے خدشات غلط ہوں لیکن باقی قوم کی طرح مجھے بھی یہ یقین ہوتا جا رہا ہے کہ ہم ذہنی طور پر کشمیر سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ یہ سب اقدامات قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہیں۔ دونوں طرف کی کشمیری قیادت اگر چاہتی ہے کہ بھارتی تسلط سے آزادی حاصل ہو تو وہ اپنا لائحہ عمل خود سے ترتیب دیں۔ لائن آف کنٹرول آج بھی ان کے قدموں کی دھمک سے ٹوٹ سکتی ہے۔ شرط یہ ہے کشمیری قیادت متحد ہو جائے۔ پاکستانی قیادت سے کوئی توقع رکھنا عبث ہے۔ ہاں، پاکستانی قوم ان کے پیچھے چلی آئے گی۔

پاکستانی قوم کو 72 سال یہ بتایا جاتا رہا کہ کشمیر کاز پر کوئی سمجھوتہ اور اس کے بغیر بھارت سے دوستانہ تعلقات ناممکن ہیں۔ جس کسی نے بھی مسئلہ کشمیر کا کوئی اور حل پیش کیا یا بھارت سے پہلے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کی، اسے غدار، سکیورٹی رسک یا مودی کا یار کہہ کر رسوا کیا گیا حالانکہ یہ بات عوام کو بتانا بہت ضروری ہے کہ لائن آف کنٹرول پر بھارت کا باڑ لگانا پرویز مشرف حکومت کی منظوری کے بغیر ناممکن تھا۔ کیا یہ سوال پوچھا نہیں جانا چاہیے کہ جب کشمیر کا معاملہ ابھی طے ہونا باقی ہے تو لائن آف کنٹرول پر باڑ لگانے کی اجازت اور جرأت بھارت کو کس نے مہیا کی؟

بہت سے کشمیری دوستوں سے بات ہوتی ہے۔ وہ اپنے جوانوں اور ماؤں بہنوں کی ہزاروں قربانیوں پر آبدیدہ ہو جاتے ہیں لیکن ساتھ ہی ان کی آنکھیں ہمیں یہ بھی کہہ رہی ہوتی ہیں

میں قصہ مختصر نہیں تھا
ورق کو جلدی پلٹ گئے تم

معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں احساس زیاں ابھی بھی نہیں ہے۔ ابھی بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو کشمیر پر سیمینار، کانفرنسز اور سوشل میڈیا پر کمپین چلا کر اپنا الو سیدھا کریں گے اور عوام کو بیوقوف بنانے کی کوشش کریں گے۔ کوئی سوال کرے گا تو اسے حب الوطنی کے پل صراط پر گزار کر سوال سے روکنے کی کوشش کریں گے کیونکہ انہوں نے کام ہی یہ سیکھا ہے۔

برسراقتدار طبقے کو یاد رکھنا چاہیے کہ ابھی تو لوگ سوال کر رہے ہیں لیکن اس وقت سے خوف کھائیں جب لوگ جواب دینا شروع کر دیں گے۔ پھر بھاگنے کوئی نہیں دیا کرتا۔ قبرستان ایسے لوگوں سے بھرے پڑے ہیں جو اپنے آپ کو دنیا کے لئے لازم سمجھتے تھے اور اب والوں کی تو ان کے سامنے کوئی حیثیت ہی نہیں۔ میری تو اپنے حکمرانوں اور عوام سے یہی اپیل ہے کہ یوم استحصال کے ڈھکوسلے کی بجائے آئیں مل کر یوم استغفار منائیں اور تہ دل سے کشمیریوں اور اپنے رب سے اپنے جھوٹوں اور غفلتوں پر معافی مانگیں۔ ہم نے بنگلہ دیش بننے پر بھی استغفار نہیں کیا تھا بلکہ تاریخ اور نصابی کتب میں ایسی ڈنڈی ماری کہ اصل مجرم صاف بچا لیے گئے۔ شاید اسی طرح ہی کوئی نجات کا راستہ نکل آئے اور پچھلے گناہوں کا کفارہ بھی ادا ہو جائے۔