جب محمد رفیع نے کشور کمار کے لیے آواز بلند کی

جب محمد رفیع نے کشور کمار کے لیے آواز بلند کی
کشور کمار کے لیے آنے والی ٹیلی فون کال حیران کن تھی، 25 جون  1975کو  بھارت میں ایمرجنسی کا نفاذ تھا۔ کانگریس کی وزیراعظم اندرا گاندھی کے اس اقدام کی ملک بھر میں مخالفت ہورہی تھی۔ احتجاج اور مظاہرے عروج پر تھے۔ جن سے نمٹنے کے لیے وزیراعظم اندرا گاندھی اور ان کے وزرا طاقت کا بھرپور استعمال کررہے تھے۔ سنجے گاندھی اس سارے ایکشن کی نگرانی کررہے تھے، جو مخالفین کی ہر صدا اور ہر للکار کو طاقت کے بل بوتے پر دباتے چلے جارہے تھے۔ اظہار رائے کی پابندی ایسی تھی کہ جو اس ایمرجنسی کے خلاف لب کشائی کرتا، وہ راتوں رات غائب ہوجاتا۔ ہزاروں سیاسی کارکنوں اور رہنماؤں کو پابند سلاسل کردیا گیا تھا۔

کشور کمار کو وصول ہونے والی کال محکمہ اطلاعات کے سنیئر افسر کی تھی، جو اُن سے ملاقات کرنے کا خواہش مند تھا۔ گلوکار اوراداکار کشور کمار نے انتہائی روٹھے لہجے میں اسے جواب دیا کہ ان کی طبیعت صحیح نہیں۔ وہ دل کے عارضے میں مبتلا ہیں، ڈاکٹرز نے میل میلاپ سے منع کیا ہے ۔ کشور کمار کے  سخت اور تلخ لہجے کو محسوس کرتے ہوئے اُس سنیئر افسر نے اب فون کرنے کی وجہ بیان کرنا شروع کی۔ اس کا انداز گفتگو اب حکمانہ ہوتا جارہا تھا۔ کشور کمارکو بتایا جارہا تھا کہ انڈین نیشنل کانگریس کے رہنما اور اندرا گاندھی کے بیٹے سنجے گاندھی کانگریس کے  20نکاتی  اکنامک پروگرام کی تشہیر چاہتے ہیں اور سنجے گاندھی کی خواہش ہے کہ اس ایجنڈے کو کشور کمار اپنی سریلی آواز میں ریکارڈ کرائیں۔

کشور کمار اس سے قبل بمبئی میں ہونے والی کانگریس یوتھ ریلی میں پرفارم کرنے سے بھی انکار کرچکے تھے لیکن ایک بار پھر انہیں سیاسی تشہیر کے لیے استعمال کیے جانے کی خواہش ظاہر کی جارہی تھی۔ کشور کمار کا ماننا تھا کہ فنکار، سیاسی وابستگی سے آزاد ہونے چاہیے، بلکہ فنکار تو ہر کسی کا ہوتا ہے، اور اگر اسے سیاسی قید میں جکڑا جائے تو اس کا فن اپنا اثر چھوڑ دیتا ہے۔

کشور کمار نے سرکاری افسر کی بات درمیان سے کاٹ کر بولنا شروع کیا کہ وہ اس سلسلے میں کوئی بھی  مدد کرنے سے قاصر ہیں۔ دوسری جانب سے اب سرکاری اہلکار کا لہجہ اور کرخت ہوتا جارہا تھا، جس نے بارعب انداز میں کہا کہ یہ اطلاعات کے وزیر ودیا چرن شکلا کا حکم ہے۔ جس پر کشور کمار نے بھی بے رخی کے ساتھ کہا کہ تو اس کا مطلب ہے کہ میں اُن کا حکم مانوں۔ ایسا نہیں ہوسکتا۔  اب سرکاری افسر نے دھمکی بھرے انداز میں کشور کمار کو مخاطب کیا ’جانتے ہیں ناں۔ اس انکار کے نتائج۔۔‘  کشور کمار نے کچھ کہے بغیر فون بند کردیا۔

ادھر یہ بات اندرا گاندھی کے وزیر اطلاعات ودیا چرن شکلا تک مرچ مسالا لگا کر پہنچی تو ان کا غصہ بھی ساتویں آسمان پر پہنچ گیا۔ شکلا کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ اندر ا گاندھی سے زیادہ سنجے گاندھی کا وزیر تھا۔ بھارتی اپوزیشن جماعتیں انہیں ’پروپگینڈا مشین‘ قرار دیتے۔ جو جھوٹ اور مبالغہ آرائی کی اس قدر بلند و بالا انداز میں تشہیر کرتے کہ وہ سچ لگنے لگتا۔ سنجے گاندھی کون کون سے ظالمانہ اور وحشیانہ اقدامات کریں، اس کا مشورہ ودیا چرن شکلا سے ہی ملتا تھا۔ کئی کا ماننا ہے کہ مسلمانوں کی  ’نس بندی‘ کا آئیڈیا بھی ودیا چرن شکلا کے دماغ کی پیداوار تھا۔ شکلا کی زبان سے نکلا ہوا ہر حکم یہ تصور کیا جاتا کہ وہ سنجے گاندھی کا ہے، اسی بنا پر ہر کوئی وزیر بہادر سے خوف زدہ اور سہما رہتا  لیکن کشور کمار نے اس وابستگی اور قربت کو خاطر میں نہ لا کر معذرت کی۔ جس پر ودیا چرن شکلا آگ بگولہ ایسے ہوئے کہ سنجے گاندھی کو مشورہ دیا کہ کشور کمار کی اس جرات اور بے باکی پر کوئی نہ کوئی تو انتقامی کارروائی کی جائے۔

 



 

سنجے گاندھی نے فوری طور پر حکم دیا کہ آل انڈیا ریڈیو اور دوردرشن سے کشور کمار کے گیتوں پر مکمل  غیر اعلانیہ  پابندی لگادی جائے۔ یہی نہیں وہ کمپنیز جو کشور کمار کے ریکارڈز اور کیسٹ فروخت کرتی تھیں، انہیں بھی اس بات کا پابند کرایا گیا کہ وہ اب مارکیٹ میں کشور کمار کا کوئی گیت نہیں لائیں گی۔ یہاں تک کہ جن فلموں میں کشور کمار اداکاری کررہے تھے، ان کے ہدایتکاروں پر دباؤ ڈال کر ان تخلیقات کو تعطل کا شکار کرایا گیا۔

کشور کمار تک یہ خبر پہنچ چکی تھی کہ ان کے ’انکار‘ کی سزا کانگریس سرکار کیا دے رہی ہے لیکن وہ خاموش رہے۔ یہ وہ دور تھا جب کشور کمار کے گیت اور فلمیں مقبول ہورہی تھیں اور کانگریس سرکار کے اس اقدام سے انہیں مالی طور پر خاصا نقصان ہوا۔ فلم نگری میں مشہور ہوگیا تھا کہ کشور کمار کے خلاف اندرا سرکار نے انتقامی کارروائی کا آغاز کردیا ہے۔ یہ سلسلہ صرف کشور کمار تک محدود نہیں رہا۔ سنجے گاندھی کی ایما پر شعلے، آندھی اور قصہ کرسی کا جیسی فلموں کو بھی ایمرجنسی میں سنیما گھروں سے اتارا گیا، کیونکہ اندرا سرکار سمجھتی تھی کہ ان فلموں میں سرکار کے خلاف زہر اگلا گیا ہے۔

گلوکار محمد رفیع اس ساری صورتحال کا بغور جائزہ لے رہے تھے۔ جنہیں ایک موقع پر سنجے گاندھی سے ملاقات کاموقع ملا تو انہوں نے کشور کمار کی خاص طور پر سفارش کی کہ ان پر پابندی ختم کی جائے۔ یہ محمد رفیع کا ظرف ہی تھا۔ حالانکہ کشور اور ان کے درمیان پیشہ ورانہ مقابلہ عروج پر تھا، ممکن ہے کوئی اور گلوکار ہوتا تو پیشہ ورانہ حسد اور جلن میں دل ہی دل میں مسرور ہوتا لیکن یہ محمد رفیع تھے جو  ہمیشہ کی طرح گلوکار وں کے حق میں آواز بلند کرنے میں نمایاں رہے۔  سنجے گاندھی ابتدا میں کسی صورت تیار نہیں ہوئے لیکن محمد رفیع کا کہنا یہی تھا کہ فنکار وں کو سیاست سے بالاتر رکھیں۔ کشور کمار بھارت کا اثاثہ ہیں اگر وہ کانگریس کے لیے اپنی خدمات دینے پر رضا مند نہیں تو یہ ان کا ذاتی فیصلہ ہے۔ بہتر ہوگا کہ کشور کمار کو نفرت کی سیاست پر نہ پرکھا جائے۔ محمد رفیع نے سنجے گاندھی پر ایک آخری نفسیاتی چوٹ یہ ماری کہ وہ نہرو کے نواسے ہو کر آخر کیسے فنکار دشمن بن سکتے ہیں۔  سنجے گاندھی نے محمد رفیع کے سامنے ہتھیار تو ڈال دیے لیکن کشور کمارپر لگائی گئی پابندی مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی بلکہ اب اس  میں نرمی برتی جانے لگی۔

کبھی کبھار اُ ن کو کوئی ایک یا  دو گیت نشر ہوجاتا اور پھر ہفتوں تک انہیں غائب کردیا جاتا۔ سنجے گاندھی کے اس فیصلے کی مخالفت ودیا چرن شکلا نے کی، جو چاہتے تھے کہ کشور کمار کو اس سے زیادہ اور سبق سکھانا چاہیے لیکن سنجے گاندھی کے سخت دل میں محمد رفیع کی باتیں گھر کر گئی تھیں۔ اسی لیے ودیا چرن شکلا کی ایک نہ چلی اور  پھر 21مارچ 1977کو بھارت میں  جب ایمرجنسی کا خاتمہ ہوا توکشور کمار پر لگائی گئی یہ غیر اعلانیہ پابندی بھی اپنے انجام کو پہنچی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ’ناں‘ نہ سننے کے عادی اُ س وقت کے بھارتی وزیر اطلاعات ودیا چرن شکلا  بعد میں  2013میں چھتیس گڑھ میں علیحدگی پسندوں کے ہاتھوں مارے گئے۔ بہرحال وقت تو بہت بیت گیا ہے لیکن آج بھی بھارت میں حکومتی وحشیانہ اور ظالمانہ اقدامات کے خلاف آواز اٹھانے والے فنکار ، ادیب شعرا اور  سماجی کارکن  کو مختلف مسائل ، مقدمات  اور پابندیوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔ فائدے میں وہی ہیں جو مودی حکومت کے بے رحمانہ  اور جارحانہ  فیصلوں پر لب کشائی نہ کریں ۔