ممتاز قادری کی پھانسی کے بعد بننے والی جماعت پاکستان کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن چکی ہے

ممتاز قادری کی پھانسی کے بعد بننے والی جماعت پاکستان کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن چکی ہے
زندگی میں کبھی اس قدر شرمندگی کا سامنے نہیں کرنا پڑا جس قدر گزشتہ کئی دنوں سے کرنا پڑ رہا ہے، اُدھر برطانیہ میں جب بھی دوسرے مذاہب کے ماننے والوں سے ملاقات ہوتی ہے وہ ایک ہی سوال پوچھتے ہیں کہ یہ پاکستان میں کیا ہورہا ہے۔ سری لنکن شہری پریانتھا کمار کا قتل درحقیقت پاکستانی سماج میں باقی رہ جانے والی انسانیت کا قتل ہے، میں ایک بار سری لنکا جا چکا ہوں، وہاں ہوائی اڈے پر پاکستانی پاسپورٹ دیکھ کر میرے ساتھ انتہائی خوش اخلاقی کا مظاہرہ کیا گیا۔ ایسا شاندار سلوک تو اسلامی ملک متحدہ عرب امارات کے ہوائی اڈے پر نہیں ہوا۔

سری لنکا میں بدھ مت ہندو مت اور مسیحیت کو ماننے والوں کی بہت بڑی تعداد آباد ہے، مسلمان بھی ہیں مگر کم ہیں ،میں نہیں جانتا کہ پریانتھا کمار بدھ مت ہندو مت یا مسیحیت کو ماننے والا تھا، میں صرف یہ جانتا ہوں کہ وہ سری لنکن شہری تھا۔ وہی سری لنکا جو پاکستان کو آنکھوں کا عطیہ بڑی تعداد میں دیتا ہے۔

جب پہلی بار لاہور میں ڈینگی وائرس پھیلا تو ہم حواسِ باختہ ہو گئے تھے، لاہور میں 300 کے قریب افراد ہلاک ہوئے تھے تو سری لنکا کے ڈاکٹر تھے جو پاکستان آگئے اور ہم کو ڈینگی وائرس سے نمٹنے کا طریقہ بتایا۔ پھر ہم نے انکی کرکٹ ٹیم پر حملہ کیا تو دس سال کے بعد پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی ممکن بنانے کے لیے سب سے پہلے سری لنکا کی کرکٹ ٹیم نے مکمل دورہ پاکستان کیا۔

خدا جانے ہمارا سماج کس رخ کو چل پڑا ہے، ہجوم خود ہی فیصلے کر رہا ہے، ریاست کی رٹ بالکل ختم ہو چکی ہے۔ جب جنونی ہجوم لبیک لبیک کے نعرے لگاتا ہے تو تھانوں میں بے بس اور غربیوں پر ظلم وبربریت کے پہاڑ گرانے والی پولیس بھیگی بلی بن جاتی ہے۔ ایک ایسی جماعت جو ایک قاتل ممتاز قادری کی پھانسی کے بعد تشکیل پائی وہ اب ریاست پاکستان کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن چکی ہے۔ جب دل کرتا ہے تمام مرکزی شاہراہوں کو بند کر دیتی ہے، جلاؤ گھیراؤ کرتی ہے، گاڑیوں، موٹر سائیکلوں اور املاک کو نذر آتش کر دیتی ہے جبکہ ریاست بے بسی کی تصویر بنی نظر آتی ہے۔

وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ٹھیک کہا ہے کہ یہ لوگ چلتے پھرتے ایٹم بم بن چکے ہیں، معروف صحافی ڈرامہ نگار حسن نثار نے کہا کہ یہ وہ خطرہ ہے جیسے ایک بم پھٹنے کے بعد مسلسل بم پھٹ جاتے ہیں، ہمارے دوست افسانہ نگار عبدالوحید اپنی پوسٹ میں لکھتے ہیں کہ فیفٹ والوں سے میری درخواست ہے کہ ہم کو گرے لسٹ سے نکال کر بلک لسٹ میں ڈال دیں کیونکہ ہم مہذب دنیا کے ساتھ چلنے کے قابل نہیں ہیں۔

کیا واقعی یہ ٹھیک ہے کہ آخر یہ کیسا معاشرہ ہم بنا چکے ہیں ،اس واقعے کے بعد پوری دنیا ہمارے بارے میں اب اور طرح سوچے گی، عالمی منڈی سیالکوٹ کی فیکٹریوں کے ساتھ کیے گئے معاہدوں پر نظر ثانی کا سوچ رہی ہیں، اگر یہ ہو گیا تو ہماری معیشت کے لیے ناقابل برداشت نقصان ہو گا۔

وزراعظم عمران خان نے ملک عدنان کو وزیر اعظم ہاؤس بلا کر انعام دیا اور کہا ہے ہمارے سر شرم سے جھک گئے ہیں، میں آئندہ ایسا واقعہ نہیں ہونے دوں گا۔ خدا کرے ایسا ہی ہو مگر وزیراعظم صاحب آپکی حکومت تو لبیک والوں کے ساتھ ہاتھ ملا کر کھڑی ہے آپ تو ان سے معاہدے کر رہے ہیں، ہم کو آپکی نیت پر شک نہیں، آپ نیک نیت ہیں مگر عملی طور ایسا نہیں ہو رہا۔ لبیک والے آپ کو بھی دنیا بھر میں رسوائی کے سوا کچھ نہیں دیں گے۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔