کیا ایمان مزاری پر مقدمہ اسٹیبلشمنٹ کی نئی پالیسی کا عکاس ہے؟

کیا ایمان مزاری پر مقدمہ اسٹیبلشمنٹ کی نئی پالیسی کا عکاس ہے؟
پاکستان کی سیاست بھی عجیب ہے، اگر اسٹیبلشمٹ نیوٹرل ہو جائے تو بھی اعتراض ہے، اور اگر نیوٹرل نہ ہو تو بھی اعتراض ہے۔ اگر اسٹیبلشمنٹ سیاسی معاملات میں دخل اندازی کرے تو بھی اعتراض ہوتا ہے لیکن آجکل جب وہ سیاسی معاملات سے خود کو دور رکھ رہی ہے تب بھی تنقید کی زد میں ہے۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب ایک فریق مداخلت کی دعوت دے اور ایک فریق نیوٹرل رہنے کا تقاضہ کرے تو کیا کیا جائے۔ ہر ایک صورت میں ایک فریق نے ناراض تو ہونا ہی ہے اور آجکل ایک فریق ناراض نظر آبھی رہا ہے‘ اسے نیوٹرل ہونے پر اعتراض ہے۔

پاکستان کی سیاسی قیادت جب آپس میں بات چیت سے انکار کر دے تو ملکی مفاد میں مجبوراً انھیں ایک میز پر لانے کے لیے اسٹبلشمنٹ کو کردار ادا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن کیا ملک کی سیاسی قیادت کو یہ عادت ہی بنا لینی چاہیے اور توقع کرنی چاہیے کہ ہمیشہ اسٹبلشمنٹ اور بالخصوص پاک فوج کی قیادت ہی انھیں ایک میز پر بٹھائے اور ان کے درمیان معاملات کو حل کروائے۔
ہم نے ماضی میں دیکھا ہے کہ اہم ملکی معاملات جن میں فیٹف کی قانون سازی سے لے کر دیگر اہم ملکی معاملات شامل تھے اسٹبلشمنٹ کو حکومت اور اپوزیشن کے درمیان رابطہ کار کا کردار ادا کرنا پڑا۔ جس کی وجہ سے انھیں کوئی خاص نیک نامی حاصل نہیں ہوئی۔

آج عمران خان کی خواہش ہے کہ ادارے ان کے مفادات کا تحفظ کریں،یہ درست ہے کہ پاکستان کی سیاست میں متعدد مواقعے پر اسٹبلشمنٹ نے سیاست میں کردار ادا کیا ہے۔ اسی لیے جب تحریک انصاف کے ایک لیڈر سے پوچھا گیا کہ آپ کیسا کردار چاہتے ہیں تو انھوں نے کہا جیسا جنرل وحید کاکڑ نے ادا کیا تھا۔ یعنی حکومت کو گھر بھیج کر الیکشن کروا دیے تھے۔

اب بھی ایسے ہی ہونا چاہیے لیکن نہ تو وہ کل ٹھیک تھا اور نہ ہی آج ٹھیک ہے، عمران خان ملک میں فوری انتخابات چاہتے ہیں۔ لیکن ان کے پاس اس کا کوئی آئینی راستہ نہیں ہے۔ وہ آئین سے ماورا اقدامات کے ذریعے ملک میں انتخابات کا اعلان چاہتے ہیں، لیکن کیا غیر آئینی اقدامات کے لیے اداروں کو بلانا جمہوری انداز سیاست ہے۔

قومی سلامتی کے اداروں کا ملک میں آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر کام کرنے کا اعلان قابل ستائش ہے۔ یہ بات افسوسناک ہے کہ ان کے اس اقدام کو بھی متنازعہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ایسی خواہشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ وہ حکومت کے احکامات ماننے سے انکار کر دیں۔ وہ اسلام آباد پر چڑھائی اور یلغار میں خاموش تماشائی بن جائیں اور امن وامان کے قیام میں اپنی ذمے داریاں ادا کرنے سے انکارکر دیں۔ یہ کیسی خواہش ہے کہ جب اسلام آباد کی طرف مارچ کر کے حکومت کو اٹھا کر گھر بھیجنے کی کوشش کی جائے تو قومی سلامتی کے ادارے حکومت کے احکامات نہ مانیں۔ بلکہ سارا تماشہ دیکھیں اور اس کی بالواسطہ حمایت کریں۔

پاکستان میں سول سوسائٹی اور آئین وقانون کی بالادستی کی بات کرنے والوں کو ہمیشہ یہ شکایت رہی ہے کہ ادارے قانون کے دائرے میں رہ کر کام نہیں کرتے۔ بالخصوص مسنگ پرسن کے کیسز میں یہ دلیل دی جاتی ہے کہ قانون کے دائرے میں کام کیا جائے۔ ایف آئی آر درج کروائی جائے اور معاملہ کو قانون کی عدالت میں لایا جائے۔ نظام انصاف پر بھروسہ کیا جائے۔ یہ دلیل بھی دی جاتی ہے کہ جب تک ادارے خود کو قانون کے تابع نہیں کریں گے ملک میں قانون کی بالا دستی کیسے قائم ہو سکتی ہے۔ اسی دلیل کے تحت پاک فوج نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار آئین و قانون میں حاصل تحفظ کے تحت انصاف کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔

ہم نے دیکھا ہے کہ پاک فوج کی قیادت کے خلاف نازیبا گفتگو پر ایمان مزاری کے خلاف جب ایڈووکیٹ جنرل کی جانب سے درخواست پر مقدمہ درج کروایا گیا ہے۔ مقدمہ 505/138 کی دفعات کے تحت اسلام آباد کے تھانہ رمنا میں درج کیا گیا ہے۔ یہ وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے کہ 21 مئی کی شام پانچ سے چھ بجے شیریں مزاری کی بیٹی ایمان مزاری نے پاک فوج اور اس کے سربراہ کے خلاف سرعام الزامات عائد کیے۔

جب ایمان مزاری کی والدہ کو پنجاب کے محکمہ اینٹی کرپشن نے چالیس ہزار کنال اراضی کے کیس میں گرفتار کیا تو انھوں نے اس کا ملبہ پاک فوج اور اس کے سربراہ پر ڈالنے کی کوشش کی ۔ اس موقعے پر نہایت غیرمحتاط گفتگو بھی کی گئی۔ پاک فوج نے اس حوالے سے ایف آئی آر درج کروائی ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ جان بوجھ کر دیے گئے ریمارکس کا مقصد فوج کے رینکس اینڈ فائل میں اشتعال دلانا تھا۔یہ اقدام پاک فوج کے اندر نفرت پیدا کرنے کا باعث بن سکتا تھا جو ایک سنگین جرم ہے۔ متعلقہ قوانین کے تحت سخت قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔

اب وہی سول سوسائٹی کہہ رہی ہے کہ پاک فوج نے ایف آئی آر درج کروا کر بہت زیادتی کر دی ہے۔ پہلے جب قانون کا راستہ نہیں اپنایا جاتا تھا تو کہا جاتا تھا کہ بہت زیادتی کی جاتی ہے۔ اب جب قانون کا راستہ اپنا یا گیا ہے تو میں سمجھتا ہوں نظام انصاف کا امتحان شروع ہوا ہے۔ کیا قانون اور آئین پاکستان فوج کو ایسی کردار کشی سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔

کیا یہ اچھی بات نہیں کہ آج فوج نے قانون و انصاف کا راستہ اپنایا ہے۔ میں سمجھتا ہوں انصاف ملنے سے ادارے کی جانب سے ہر معاملے میں قانون کا دروازہ کھٹکھٹانے کی روایت جنم لے گی۔ملک کے انصاف کے نظام کے لیے یہ تاریخی موقع ہے کہ اس مقدمہ کا سو فیصد میرٹ پر فیصلہ ہونا چاہیے۔

اس سے پہلے بھی ہم نے دیکھا کہ ملک میں حکومت کی تبدیلی کے موقعے پر بھی سوشل میڈیا پر پاک فوج کی قیادت کے خلاف نہایت قابل اعتراض اور نا زیبا مہم چلائی گئی۔ جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ کیا پاکستان میں اس کی کھلی اجازت دی جا سکتی ہے۔ کیا یہ اجازت دی جا سکتی ہے کہ جس کا جی چاہے وہ جب چاہے ملک کی فوجی قیادت کے بارے میں جو دل چاہے کہہ دے اور قانون کی کوئی گرفت نہیں ہونی چاہیے۔

محترمہ ایمان مزاری کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے ضمانت قبل از گرفتاری مل گئی ہے۔ مجھے ضمانت پر کوئی اعتراض نہیں لیکن انھیں عام شہری کی طرح ماتحت عدلیہ سے ضمانت لینی چاہیے تھی۔ براہ راست اسلام آباد ہائی کورٹ سے ضمانت غیر معمولی انصاف کے زمرے میں آتی ہے۔ یہ بھی کوئی اچھی روایت نہیں ہے۔ مقدمہ کی شفاف تفتیش اور ٹرائل ہونا چاہیے۔ اور قانون وانصاف کی بالادستی ہونی چاہیے۔ یہ دلیل کہ گالیوں اور قابل اعتر اض گفتگو کی کھلی اجازت ہونی چاہیے۔ا ور قانون کو کا دروازہ نہیں کھٹکھٹانا چاہیے۔ ایک مضحکہ خیز دلیل ہے۔ ایسی کھلی چھوٹ دنیا کے کس ملک میں ہے؟