فن کی دنیا کا گم شدہ مسافر، ڈرامہ نگار اور ہدایت کار 'امجد علی سکندر'

فن کی دنیا کا گم شدہ مسافر، ڈرامہ نگار اور ہدایت کار 'امجد علی سکندر'
اس کی آنکھوں میں کچھ خواب تھے، جن کی تعبیر پانے کے لیے اس نے لفظوں سے تصویریں بنائی اور ان میں اپنی امیدوں کے رنگ بھر دیئے۔ پھر وہ ان تصویروں کو لے کر کوچہ فن میں گیا مگر زندگی کی مہلت ختم ہو چکی تھی۔ اسٹیج پر اپنا آخری کردار اتارنے کے بعد وہ خود پردہ گرنے سے پہلے ہی پس پردہ چلا گیا۔ اس کے بڑے بیٹے انجم علی نے اپنے والد مرحوم کی زندگی کی کہانی سنائی جو درد، دکھ اس کے والد کے رگ و پے میں دوڑ رہا تھاوہ سب اس کے اپنے حقیقی والد کا دیا ہوا تھا جس نے اپنے اکلوتے بیٹے کو تسلیم کرنے سے محض اس لیے انکار دیا تھا کہ وہ دوسری دنیا میں ایک نیا گھر بسا چکا تھا، اس لیے امجد علی اب اس کے لیے اجنبی ہو چکا تھا۔

امجد علی نے کبھی التجا نہیں کی اور نہ ہی کوئی فریاد یا دہائی دی۔ خون ہی تھا جس نے اس کے بند لبوں کی چیخ سنی۔ اس کے چچا نے اسے باب بن کر سینے سے لگا لیا۔ امجد علی کو سہارا دیا اور وہ کارزار حیات میں زندگی کا مفہوم سمجھنے کے لیے چل پڑا۔ شعروادب اور کہانی سے اسے لگاؤ تھا، اس کے دل و دماغ میں تخلیق کے ٹمٹماتے ہوئے دیئے کی لَو کو دیکھ کر اسٹیج اور فلم کے نامور اداکار افضال احمد نے اس کی جانب ہاتھ بڑھایا اور امجد علی کو اسٹیج کی جانب آ کر اپنی قسمت آزمانے کا کہا۔

امجد علی سکندر
امجد علی سکندر


امجد علی سکندر کے تین بیٹے ہیں۔ انجم علی، جمشید علی اور مجاہد علی۔ ان کے آباؤ اجداد 1822ء میں ضلع کہچری لاہور کے قریب واقع ایک ٹبہ کے پاس رہائش رکھتے تھے۔ امجد علی کے دادا حاجی عبدالرحیم 1932ء میں لاہور کے سب سے پُررونق علاقے مزنگ میں آ گئے۔ اور یہاں اپنا گھر بنا کر رہائش اختیار کر لی۔ حاجی عبدالرحیم کے دو بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں۔ سب سے بڑا بیٹا حاجی فضل کریم تھا۔ جس کا 1946ء میں اکلوتا بیٹا امجد علی سکندر پہلی بیوی سے پیدا ہوا۔ امجد علی نے میٹرک گورنمنٹ ہائی سکول مزنگ اڈا سے کیا۔ شعروادب کی جانب سکول کے زمانے سے ہی لگاؤ تھا۔ خاص طور پر سے اسے ڈرامہ لکھنا بہت پسند تھا۔ شادی ہو چکی تھی۔ 1931ء میں بحرین چلے گئے۔ ایک سال وہاں مقیم رہے۔ ملازمت کی لیکن طبیعت کی نازسازی کے باعث واپس اپنے ملک پاکستان آنا پڑا۔ اپنے گھر کے نیچے کریانہ سٹور بنا لیا۔



پانچ چھ سال بعد اداکار افضال احمد سے ملاقات ہوئی۔ جنہوں نے امجد علی کو الحمرا اوپن ایئر تھیٹر کے ڈراموں کی ہدایات دینے کی پیش کش کی۔ امجد علی نے وہاں اپنے پہلے ڈرامے ’’عشق کے مسافر‘‘ کی ہدایات دیں۔ پھر انہیں وائی ایم سی اے ہال میں ڈراموں کی ریہرسل کی نگرانی کرنے کے لیے کہا گیا جسے انہوں نے قبول کیا۔ امجد علی کا بڑا بیٹا انجم علی اپنے والد کی بیماری کے باعث ان کی دیکھ بھال کے لیے ان کے ساتھ ہوا کرتا تھا۔



امجد علی نے خود ڈرامے تحریر کرنا شروع کر دیئے۔1981ء میں پہلا ڈرامہ ’’وقت بڑا ہرجائی‘‘ لکھا۔ جو ایک طرح سے ان کی اپنی زندگی کا عکاس تھا۔ دوسرا ڈرامہ 1983ء میں ’’رشتے ناطے‘‘ تحریر کیا یہ دونوں ڈرامے راحت ہال میں پیش کیے گئے۔ اسی دوران امجد علی کو کینسر تشخیص ہوا۔ چچا حاجی غلام محی الدین اپنے بھتیجے کی کسمپرسی اور تنہائی کو خوب سمجھتے تھے، انہوں نے اسے بیٹا سمجھ کر اپنے سینے سے لگایا۔ 1983ء میں ہی امجد علی نے اس جہان فانی کو 39برس کی مختصر عمر میں خیرباد کہہ دیا۔



امجد علی سکندر کے بڑے بیٹے انجم علی لکھتے ہیں۔

’’والد محترم امجد علی مرحوم بہت کم اس دنیا میں زندہ رہے۔ مگر وہ ایک وقار کے ساتھ اپنی مختصر زندگی گزار گئے۔ ان کے دادا حاجی عبدالرحیم، دادی برکت بی بی، چچا حاجی غلام محی الدین پر اللہ کی ہزاروں لاکھوں رحمتیں نازل ہوں۔ جنہوں نے والد مرحوم کو ان کے والد کی شفقت کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔ خاص طور پر چچا حاجی غلام محی الدین نے باپ بن کر والد صاحب کی پرورش کی ہے اور انہیں کسی بھی چیز کی کمی کا احساس نہیں ہونے دیا۔ چچا اور چچی کے پانچ بیٹوں نے ہم تین بھائیوں اور ہماری والدہ کا ہر طور سے خیال رکھا۔ دل جوئی اور عزت میں کوئی فرق نہیں آنے دیا۔ ہم نے محنت کی اپنی والدہ کا ہر طور سے خیال رکھا، چچاچچی اور ان کے بیٹوں کی محبت اور شفقت نے زندگی کے کٹھن اور اداس لمحات میں خوشیاں بکھیر دیں۔ تو محرومیوں کا احساس تک نہ ہوا۔ البتہ والد مرحوم کی یاد اور ان کا تصور لمحہ بہ لمحہ زندگی میں ہمارے ساتھ ہی رہتا ہے۔‘‘



امجد علی ایک فن کار تھا۔ اپنوں کے ہاتھوں ہی زخم اٹھاتا رہا۔ آباؤ اجداد تحریک پاکستان میں بھرپور طور پر شامل تھے۔ آج بھی امجد علی کے اہل خانہ کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ریاست قوم کے حقیقی سپوتوں اور فن کی دنیا کے ان گم نام مسافروں کے لیے کیا کچھ کر سکتی ہے۔ کیا انہیں کوئی محفوظ زندگی اور بہتر مستقبل کی ضمانت مل سکتی ہے۔

خواب کے پھولوں کی تعبیریں کہانی ہو گئیں
خون ٹھنڈا پڑ گیا، آنکھیں پرانی ہو گئیں
رہ گیا مشتاق دل میں رنگ یادِ رفتگاں
پھول مہنگے ہو گئے قبریں پرانی ہو گئیں

طاہر اصغر مصنف و صحافی ہیں ان کی دلچسپی کے موضوعات پروفائل اور آپ بیتی لکھنا ہے۔ وہ جالب بیتی اور منٹو فن و شخصیت کی کہانی کے مصنف ہیں۔ زیر طبع ناول ’’قصہ غوغا غٹرغوں‘‘ ہے ۔موسیقی اور ادب سے گہرا شغف رکھتے ہیں۔