عمران خان کی انتقام اور نفرت کی سیاست نے ملک کو نقصان پہنچایا ہے

عمران خان کی انتقام اور نفرت کی سیاست نے ملک کو نقصان پہنچایا ہے
ممتاز برطانوی فلسفی برٹرینڈ رسل نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ بیسویں صدی میں سب سے زیادہ جس فلسفی کے فلسفے نے دنیا کو متاثر کیا، وہ کارل مارکس تھے مگر مارکس کی فلاسفی میں ایک مسئلہ تھا؛ وہ نچلے طبقے کی خوشی اور بھلائی تو چاہتا ہی تھا مگر وہ اس سے زیادہ اوپر والے طبقے کی تکلیف اور بربادی دیکھنا چاہتا تھا جس کی بدولت اس کی فلاسفی نے دنیا میں تباہی اور بربادی کو فروغ دیا۔ اس کی فلاسفی میں نفرت کا عنصر غالب تھا جس کی وجہ سے دنیا میں اس کے منفی اثرات مرتب ہوئے۔ اگر اس خیال کو آج پاکستان میں عمران خان کی سیاست پر لاگو کر کے دیکھا جائے تو یوں لگتا ہے کہ یہی مسئلہ عمران خان کے ساتھ بھی ہوا ہے۔ وہ پاکستان کے عام آدمی کی بھلائی اور ترقی دیکھنا چاہتے ہیں مگر وہ اس سے زیادہ مخالف سیاسی پارٹیوں کی تباہی اور بربادی دیکھنا چاہتے ہیں۔ اسی نفرت کے عنصر کی وجہ سے عمران خان کی سیاست سے پاکستان میں منفی اثرات آ رہے ہیں اور اس کا نقصان خود عمران خان کی سیاست کو بھی ہو رہا ہے کیوںکہ نفرت اور انتقام کا جذبہ انسان کی شخصیت کے مثبت پہلو کو دبا دیتا ہے جس سے اس کی اچھا اور مثبت کرنے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے اور یہ عیب ایک قومی سطح کے ترقی پسند لیڈر کے لئے مناسب نہیں ہے کیوںکہ اس کی کارکردگی متاثر ہو گی تو اس کے اثرات ملک، معاشرے اور عام آدمی پر پڑیں گے۔

2018 کے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کو اکثریت ملی جس سے وہ مرکز کے علاوہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی اور بلاشبہ پاکستان کا وہ پاپولر ووٹ ان کو ملا جو خاندانی و موروثی سیاست اور دو پارٹیوں کی اجارا داری کی سیاست سے عرصہ دراز سے بیزار تھا۔ عمران خان کے سیاست میں آنے کے بعد یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ پاکستان اب پسماندگی اور غربت سے نکل کر ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو جائے گا لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہو سکا۔ عمران خان کی حکومت اپنے پاپولر مینڈیٹ کی توقعات پر پورا نہ اتر سکی۔ اس ناکامی کی بہت ساری وجوہات ہیں مگر ایک بڑی وجہ اقتدار میں آتے ہی مخالف سیاسی پارٹیوں کے خلاف نیب اور دیگر اداروں کو استعمال کر کے انتقامی کارروائیوں کا آغاز تھا۔ ان کارروائیوں سے حکومت کی ترجیحات کا رخ تبدیل ہو گیا اور عمران خان اپنی کارکردگی کی بجائے مخالفین کی تباہی اور بربادی میں الجھ کر رہ گئے۔

ایسا ہرگز نہیں کہ عمران خان کو کرپشن اور بدعنوانی کے ذریعے سے لوٹی گئی دولت واپس نہیں لانی چاہئیے تھی اور احتساب کا عمل شروع نہیں کرنا چاہئیے تھا مگر سیاست میں ہر کام وقت کا محتاج ہوتا ہے اور اس حقیت کو ایک سیاسی لیڈر سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا۔ ایک عظیم سیاسی رہنما نے کہا تھا کہ اگر تم انتقام لینا چاہتے ہو تو اپنی خوبیوں میں اضافہ کرو اور اپنی کارکردگی میں اضافہ کرو، تمہارے مخالفین خود اپنی موت آپ مر جائیں گے۔ لیکن اس کے برعکس نفرت اور انتقام کے جذبے نے ان کی تعمیری سوچ کو شدید ٹھیس پہنچائی جس کا دائرہ کار وسیع سے و سیع تر ہوتا گیا اور جس کی لپیٹ میں صرف سیاسی مخالفین نہیں بلکہ میڈیا اور سیاست سے تعلق رکھنے والے دیگر افراد بھی آئے۔ انتقام اور نفرت کے ساتھ یہی مسئلہ ہے۔ یہ انسان کو صحیح اور غلط، مثبت اور منفی میں فرق کرنے کی صلاحیت سے محروم کر دیتا ہے۔ ایک تنکا بھی ہلتا ہے تو آپ کو گمان گزرتا ہے کہ آپ کی مخالفت ہو رہی ہے اور آہستہ آہستہ اس کی لپیٹ میں وہ لوگ بھی آ جاتے ہیں جو آپ کے ساتھ مخلص ہوتے ہیں۔ اس وقت سے ڈرنا چاہئیے جب آپ کے دیانت دار ساتھی آپ کو آپ کے فائدے کی بات بھی اس ڈر سے نہ بتا سکیں کہ ایسا کرنے سے وہ آپ کے شر سے محفوظ نہ رہ سکیں گے۔ اس گرداب میں قابل اور وفادار لوگ آپ کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔ آپ چند خوشامدیوں میں گھر جاتے ہیں جو ہر وقت آپ کو 'سب اچھا ہے' کی نوید سناتے رہتے ہیں۔ ایک لیڈر کی اصل ناکامی اور شکست یہی ہے اور پھر وہی ہوتا ہے جیسا کہ فیض صاحب نے کہا تھا:
یہ داغ داغ اجالہ یہ شبِ گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں

اقتدار کھو جانے کے بعد عمران خان اب مسلسل وضاحتیں دے رہے ہیں کہ ان سے کئی ایسے مقدمات بنوائے گئے جن میں ان کا کوئی کردار نہیں تھا۔ آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں کیوںکہ جناب عالی آپ کے اوپر نفرت اور انتقام کا جذبہ اس قدر غالب تھا کہ آپ کو پتہ ہی نہیں چل رہا تھا کہ ہو کیا رہا ہے اور آپ کے دشمن کس طرح دوستی کا روپ دھار کر آپ کو انتقامی کارروائیوں کے لئے استعمال کرتے رہے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے نواز شریف سے 90 کی دہائی میں شہید محترمہ بینظیر بھٹو اور پاکستان پیپلزپارٹی کی دیگر قیادت کے خلاف کیس بنوائے گئے اور جب نواز شریف کو ادراک ہوا تو وہ بھی آپ کی طرح صفائیاں دیتے تھے کہ وہ انتقام کے جذبے میں استعمال ہوتے رہے ہیں۔ مگر سوال تو یہ ہے کہ ان سیاسی اور انتقامی شعبدہ بازیوں میں نقصان کس کا ہو رہا ہے؟ یقیناً اس عام آدمی کا جو عرصہ دراز سے کسی مسیحا کی تلاش میں سرگرداں ہے اور جس نے عمران خان کو یہ سوچ کے ووٹ دیا تھا کہ عمران ناگزیر ہے۔ وہ فہرست بہت طویل ہے جو کام آپ نے کرنے تھے اور جس کی امید آپ نے عام آدمی کو دلوائی تھی مگر وہ سب خواب انتقامی سیاست کی نظر ہو کر رہ گئے۔ آج کل دو تہائی اکثریت کی کلپنا کی جا رہی ہے کہ وہ ہو گی تو حالات بدل جائیں گے اور کارکردگی بہتر ہو جائے گی۔

یہ دعوے اور کارکردگی و ترقی و حقیقی آزادی پھر سے ایک سیاسی سراب ثابت ہو گا جب تک آپ نفرت اور انتقام کے جذبے کو کم کر کے عوام کی ترقی اور خوشحالی کے جذبے کو خود پر حاوی نہیں کرتے۔ سیاسی مخالفین کو اپنی کارکردگی سے زیر کیجئے۔ پھر آپ کو انتقام کی بھی ضرورت نہ رہے گی اور یہی آپ کا اصل مینڈیٹ بھی ہے اور حقیقی آزادی بھی۔ آج کل پاکستان جن سیاسی و اقتصادی مسائل میں گھرا ہوا ہے ہمیں سب سے زیادہ متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ عظیم انقلابی رہنما نیلسن مینڈیلا نے کہا تھا کہ آپ انتقام کی سیاست سے ایک متحد قوم نہیں بنا سکتے۔

عاصم علی انٹرنیشنل ریلیشنز کے طالب علم ہیں۔ انہوں نے University of Leicester, England سے ایم فل کر رکھا ہے اور اب یونیورسٹی کی سطح پہ یہی مضمون پڑھا رہے ہیں۔