اسٹیبلشمنٹ نے اپنی شکتیاں عمران خان میں منتقل کر دیں یا شکتی مان پی ٹی آئی میں شامل ہو چکا؟

اسٹیبلشمنٹ نے اپنی شکتیاں عمران خان میں منتقل کر دیں یا شکتی مان پی ٹی آئی میں شامل ہو چکا؟
پاکستان کے عوام دو ناموں سے بہت واقف ہیں۔ ایک ایجنسیاں اور دوسرا اسٹیبلشمنٹ۔ بچپن سے لے کر اب تک پاکستان میں جو واقعہ بھی ہوتا آیا ہے اس کی کوئی وجہ بھی جانے بغیر یہ کہا جاتا رہا ہے کہ یہ ایجنسیوں اور اسٹیبلشمنٹ کا کام ہے۔ حکومت میں وہ آئے گا جس کو اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ حاصل ہو گی۔ الیکشن جیتنے والی پارٹی کی ٹکٹ اس کو ملے گی جس کو اسٹیبلشمنٹ چاہے گی۔ منتخب حکومت کب تک حکومت میں رہ سکے گی اس کا فیصلہ اسٹیبلشمنٹ کرے گی۔ کون سا سیاستدان جیل میں جائے گا، کون جلا وطن ہو گا اور کون پھانسی کے پھندے پر چڑھے گا اس کا فیصلہ بھی اسٹیبلشمنٹ کرے گی۔ ملک کی خارجہ پالیسی کیا ہو گی اس کا تعین بھی اسٹیبلشمنٹ کرے گی۔ ملک میں فرقہ واریت کو کب ہوا دینی ہے اور کس فرقے سے کس فرقے کے لوگوں کو مروانا ہے اس کا فیصلہ بھی اسٹیبلشمنٹ کرے گی۔ لانگ مارچ، سیاسی جلسے اور عدم اعتماد تحریکوں میں بھی ایک ہی نام گو نجتا تھا۔ حتیٰ کہ ہر قتل، اغوا اور دھماکے کے بعد معاشرے میں دو ہی نام ذہن میں کمپیوٹر کے پہلے سے طے شدہ پروگرام کی طرح آتے تھے، اسٹیبلشمنٹ اور ایجنسیاں۔ یوں بھی ایجنسیاں ہی اسٹیبلشمنٹ کا اوزار ہوتی ہیں۔

قیام پاکستان سے لے کر اب تک اسٹیبلشمنٹ کی ان ساری وارداتوں میں عوام اور سیاستدان خاموش تماشائی بنے رہے ہیں۔ ہر ظلم اور بربریت کو یہ سوچ کر سہے جاتے تھے کہ اسٹیبلشمنٹ کا کام ہے۔ مگر اپریل 2020 کے بعد یوں دکھائی دے رہا ہے کہ گنگا الٹی بہنا شروع ہو گئی ہے۔ جس طرح پہلے 75 سال عوام بے بس بنے رہے ہیں، اب یوں دکھائی دیتا ہے کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی حالت پاکستان کے عوام اور سیاستدانوں جیسی ہو گئی ہے اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے اندر اسٹیبلشمنٹ کی روح آ گئی ہے۔

جس طرح پہلے عوام اور سیاستدان بے بسی کی وجہ سے خاموش تماشائی بنے تھے، اب اسٹیبلشمنٹ بھی اتنی ہے بس اور خاموش تماشائی بنی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ آج کل پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کوئی بھی الزام لگ رہا ہو، سرِعام جلسوں میں ان کی عزت افزائی ہو رہی ہو یا پھر اسٹیبلشمنٹ کو جانور اور غدار جیسے القابات سے نوازا جا رہا ہو تو پہلے سے طے شدہ پروگرام کے تحت ایک ہی نام ذہن میں آتا ہے کہ یہ عمران خان کر رہا ہے یا پھر کسی اور سے کروا رہا ہے۔ کسی دور میں لوگ اسٹیبیلشمنٹ کے شر سے بچتے تھے، آج اسٹیبلشمنٹ والے عمران خان کے شر سے حفاظت کے لئے خدا کی پناہ مانگتے پھر رہے ہیں۔

آج سے پہلے سیاستدانوں کے اندر لوگ توڑے جاتے تھے اور ان کو دوسرے سیاستدانوں کے خلاف استعمال کیا جاتا تھا مگر اب عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے اندر سے ان کے لوگوں کو اپنے ساتھ ملا کر ان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ پہلے اسٹیبلشمنٹ والے اپنی مرضی کے عہدے اور وزارتیں بانٹتے تھے اب عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے اندر اپنی مرضی کے لوگوں کو لگوانے پر بضد ہیں۔ پہلے اسٹیبلشمنٹ والے سیاستدانوں، میڈیا اور دیگر اداروں کے لوگوں کے خلاف غداری کے الزامات لگاتے تھے، اب اسٹیبلشمنٹ کے خلاف عمران خان غداری کا الزام لگاتے ہیں۔ پہلے سیاستدان اپنے حوالے اور توسط استعمال کر کے راتوں کی تاریکی میں اسٹیبلشمنٹ کی منت سماجت کیا کرتے تھے کہ ہماری جان بخشی کر دو مگر اب اسٹیبلشمنٹ رات کی تاریکی میں عمران خان کے خاص جانکاروں کے ذریعے سے کہلواتی ہے کہ جناب ہاتھ ہولا رکھیں۔

اپریل 2020 سے پہلے آئین کو توڑنا اور اس میں اپنی مرضی کی ترامیم کرنا صرف اسٹیبلشمنٹ کا کام تھا مگر اپریل میں تحریک عدم اعتماد کے وقت عمران خان نے آئین کو اپنی مرضی سے چلا کر اسٹیبلشمنٹ سے یہ ریکارڈ بھی لے لیا۔ اسٹیبلشمنٹ جس سیاستدان اور سرکاری افسر کو پسند نہیں کرتی تھی اس کے خلاف مقدمے بنوانا اور ان کا تبادلہ کروانا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا مگر اب عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے اعلیٰ آفیسرز کے تبادلے بھی کرواتے ہیں اور ان پر مقدمات بنوانے پر بھی زور دیتے ہیں۔

جسٹس منیر ملک سے لے کر جسٹس ثاقب نثار تک پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر چلتی رہی ہے۔ منتخب وزیر اعظم کوجھوٹے مقدمات میں پھانسی دینی ہو، منتخب وزیر اعظم کے خلاف متنازع کیسز بنا کر اس کی حکومت کا تختہ الٹنا ہو، غیر آئینی طریقے سے حکومت میں آئے ہوئے آمروں کو پی سی او کے تحت تحفظ دینا ہو یا پھر غیر قانونی طریقے سے لگائی گئی ایمرجسنی کا قانونی جواز پیش کرنا ہو، ہر موقع پر پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ اسٹیبلشمنٹ کی ہر آواز پر لبیک کہتی رہی ہے۔

مگر اب عدالتیں اور اعلیٰ عدلیہ عمران خان کو وہی سٹیٹس دے رہی ہیں جو کبھی اسٹیبلشمنٹ کو حاصل تھا۔ ان کی ضمانت کے لئے راتوں رات عدالتیں کھل جاتی ہیں۔ ان کے خلاف بھجوائے گئے ریفرنس خارج ہو جاتے ہیں۔ ان کے لانگ مارچ میں وعدے کی خلاف ورزی کرنے پر معزز جج خود ہی کہہ دیتے ہیں کہ ہو سکتا ہے عمران خان کو اس کا پتہ ہی نہ ہو۔ ان کی پنجاب کی حکومت کو بچانے کے لئے معزز عدالت قانون کی نئی تشریح کر دیتی ہے۔ ان کے خلاف توشہ خانہ کیس عدالت میں جاتا ہے تو فیصلہ آنے سے پہلے ہی عمران خان کہہ دیتے ہیں کہ کورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ خارج کر دیا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے سنہرے دور کی طرح عدالتیں تو تیار بیٹھی ہیں عمران خان کو ریلیف دینے کے لئے۔

پہلے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ یہ چاہتی تھی کہ عوام اور سیاستدان ان کی بات اور فیصلے کو من وعن ناصرف مانیں بلکہ پوری طرح اطاعت بجا لائیں۔ اب عمران خان یہ کہتے ہیں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ پر تنقید ایسے کرتے ہیں جیسے باپ اپنے بیٹے پہ کرتا ہے۔

اسٹیبلشمنٹ کو چاہیے کہ وہ عمران خان کی اتباع کریں۔ اسٹیبلشمنٹ سمجھتی تھی پاکستان کے سیاستدانوں اور عوام کی سیاست اور جمہوریت کی سمجھ بوجھ نہیں ہے اس لئے ان کو جو سسٹم اور پالیسی دی جائے اس کو فرمانبرداری کریں۔ اب عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے کہتے ہیں کہ وہ دنیا اور سیاست کے معاملات ان سے بہتر جانتے ہیں لہٰذا وہ ان کے ہر فیصلے کی اطاعت کریں۔ اگر عمران خان کہیں کہ ملک کے مسائل کی وجہ حزب اختلاف ہیں تو اسٹیبلشمنٹ کو ماننا چاہیے۔ اگر عمران خان کہیں کہ حزب اختلاف میں سب چور ہیں اور ان کے اوپر مقدمات بنا کر جیلوں میں بند کر دو تو پھر بھی اسٹیبلشمنٹ کو حکم عدولی نہیں کرنے چاہیے۔

یہ کیسا تاریخ کا دوراہا ہے؟ حالات اس قدر تبدیل ہو جائیں گے اس کے بارے میں 75 سال میں کسی نے گمان بھی نہ کیا ہو گا۔ مگر یہ سب کچھ مقافات عمل ہے یا پھر عمران خان کے اندر اسٹیبلشمنٹ کی روح سرائیت کر گئی ہے؟

ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے اپنی ساری شکتیاں کہیں عمران خان میں منتقل نہ کر دی ہوں؟

عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی طرح دندناتے ہوئے نظر آتے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ عوام اور دیگر سیاستدانوں کی طرح بے بس۔ اسٹیبلشمنٹ کہتی ہے کہ اب سے ہم صرف اپنا آئینی اور قانونی فریضہ سرانجام دیں گے مگر عمران خان کہتے ہیں، نہیں، میں ہی قانون ہوں اور میں ہی آئین ہوں۔ جو میں کہتا ہوں ویسا کرو۔ یہ سارے استحقاق تو اسٹیبلشمنٹ کو حاصل تھے مگر عمران خان کے پاس کب سے آ گئے؟

جون ایلیا نے کہا تھا کہ

ابھی اک شور سا اٹھا ہے کہیں
کوئی خاموش ہو گیا ہے کہیں
ہے کچھ ایسا کہ جیسے یہ سب کچھ
اس سے پہلے بھی ہو چکا ہے کہیں

عاصم علی انٹرنیشنل ریلیشنز کے طالب علم ہیں۔ انہوں نے University of Leicester, England سے ایم فل کر رکھا ہے اور اب یونیورسٹی کی سطح پہ یہی مضمون پڑھا رہے ہیں۔