یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا؟

یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا؟
پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ یہ بات تسلسل کے ساتھ کس جانب سے ان کے ذہن میں بٹھائی جاتی رہی ہے کہ سب سیاستدان کرپٹ ہوتے ہیں اور انہی کی لوٹ مار کی وجہ سے ملک ترقی نہیں کر پا رہا۔ اہل نظر اس بات سے بھی واقف ہیں کہ اس بات کی گردان کیوں کی جا تی رہی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اس ملک کی ستر سالہ تاریخ میں سے آدھا عرصہ تو اس ملک پر بلا واسطہ اور بالواسطہ انہی ’مہربانوں‘ کی حکومت رہی ہے جو ستر سال سے یہ چورن بیچتے چلے آ رہے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ آخر کیوں یہ بات عوام کو ذہن نشین کرائی جاتی رہی ہے؟ اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ سیاستدانوں کو چور اور لٹیرا قرار دے کر اپنے آپ کو نجات دہندہ ثابت کرتے کے لئے عوام کے ذہن میں یہ بات بٹھانا ضروری ہے تاکہ جب ’میرے عزیز ہم وطنو‘ کہہ کر خطاب کیا جائے تو عوام ذہنی طور پر اس کے لئے تیار ہوں۔ اب یہ الگ بات ہے کہ وقت کے ساتھ عوام اس بات کو سمجھ چکی ہے کہ ہمارے ’مہربانوں‘ کے ہر دور میں ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔



قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی سے محلاتی سازشیں شروع ہو گئی تھیں۔ قائد اعظم کی وفات کے ساتھ ہی یکے بعد دیگرے اپنے مہروں کو اقتدار میں لا کر سیاستدانوں کو بے توقیر کیا گیا اور پھر اس ملک میں پہلا مارشل لا لگا اور ’میرے عزیز ہم وطنوں‘ کی آواز سنائی دی اور اس کے ساتھ ہی مہربان کھل کر سامنے آ گئے۔ جب جسٹس منیر نے اس قبضہ کو انقلاب کہہ کر جائز قرار دے دیا تو اس کے بعد آنے والوں کے لئے بھی راستہ کھل گیا۔

دیوار کیا گری مرے کچے مکان کی
لوگوں نے میرے صحن سے رستے بنا لیے

پہلے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ایوب خان نے پہلے اپنے پیٹی بند بھائیوں کے ساتھ ہی حکومت چلانے کی کوشش کی لیکن جب ناکام ہو گئے تو سیاستدانوں کو شریک اقتدار کر لیا۔ ہمارے مہربان کب سے اقتدار پر قبضہ کرنے کا سوچ رہے تھے، اس کا ذکر انہوں نے اپنی کتاب  میں تفصیل سے کر دیا ہے۔

موصوف کا ماننا تھا کہ جس عوام کے ووٹ کی طاقت سے پاکستان معرض وجود میں آیا تھا وہ جمہوریت سے کماحقہ اگاہ نہیں لہٰذا پہلے انہیں جمہوریت کی الف ب سیکھنے کی ضرورت ہے۔

جمہوریت کے تعلیم دینے والے نظام کو بنیادی جمہوریت کا نام دیا گیا اور ملک بھر میں اس نظام کے تحت بی ڈی ممبرز منتخب کرائے گئے اور پھر اسی کو الیکٹورل کالج کا درجہ دے کر موصوف نے خود کو صدر منتخب کروا لیا۔ تمام بی ڈی ممبرز کو پیسے کے زور پر خریدا گیا اور یہ بات میں وثوق سے اس لئے کہہ رہا ہوں کیونکہ میرے ایک عزیز بھی ان انتخابات کے نتیجے میں بی ڈی ممبر منتخب ہوئے تھے۔



یہ تھی پاکستان میں کرپشن کی پہلی واردات اور اس کے بعد ملک میں کارخانے اور فیکٹریاں لگانے کے لئے لائسنس کی مد میں کیا کیا رشوتیں نہیں لی گئیں۔ میرا جس شہر سے تعلق رہا ہے وہاں ایک صاحب کی سٹیشنری کی دکان تھی اور وہ اسی دور میں بنک سے قرضہ لے کر اس شہر کے سب سے بڑے صنعتکار بن گئے۔

اگر اس ملک میں ایک ایسا کمیشن بن جائے جو تمام ناجائز قابضین کے ادوار کی تفتیش کرے تو عوام دانتوں میں انگلیاں داب لیں کہ کیسے کیسے لوگ ہماری آنکھوں میں دھول جھونک کر ہمارے مسیحا کہلائے۔ ملکی خزانے کو شیر مادر سمجھ کر ہڑپ کرنے والے جب سیاستدانوں پر انگلیاں اٹھاتے ہیں تو دل سے ایک ہوک سی اٹھتی ہے۔

تو ادھر ادھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا
مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں تری رہبری کا سوال ہے

مصنف ایک سیاسی ورکر ہیں۔