شہنشاہ غزل مہدی حسن کی گائیکی کئی پہلوؤں سے غلام علی پر بھاری ہے

شہنشاہ غزل مہدی حسن کی گائیکی کئی پہلوؤں سے غلام علی پر بھاری ہے
میں نے اپنے دوست شریف اعوان صاحب کو بتایا کہ بہت سے دوست چاہتے ہیں کہ غلام علی اور مہدی حسن کا موازنہ کیا جائے۔ میری نظر میں ایسا موازنہ بہت مشکل ہے۔ شاید ناممکن کیونکہ دونوں کا مکتبہ فکر ہر لحاظ سے مختلف ہے۔ دونوں لاجواب ہیں۔ غزل گانے والا غزل گا نہیں سکتا اگر مہدی صاحب اور غلام علی کو نہ دیکھے۔ کلاسیکل گانے والا گویا نہیں ہو سکتا اگر بڑے غلام علی خان اور امیر خان کو نہ دیکھے۔

غلام علی اور مہدی حسن دونوں کے ماننے والے بھارت اور پاکستان میں کروڑوں میں ہیں۔ تو اس بات پر شریف اعوان صاحب نے بڑے پتے کی بات بتائی۔ فرمایا کہ مہدی صاحب کی غزل میں خیال گائیکی کی سنجیدگی و متانت کا گہرا رنگ جبکہ غلام علی کی غزل میں ٹھمری کا چلبلا پن پایا جاتا ہے۔ شریف اعوان صاحب کی رائے معمولی نہ سمجھی جائے۔ وہ بھی اپنی ذات میں ٹھیک ٹھاک مراثی ہیں۔ تہذیب فاؤنڈیشن کے بانی ہیں بیوروکریٹ ہونے کے علاوہ۔ کون آرٹسٹ نہ ہوگا جسے انہوں نے پہلے اپنی ذاتی جیب سے اور بعد میں تہذیب کے پلیٹ فارم سے پروموٹ نہ کیا ہو۔ پاکستان کے واحد سرود نواز اسد قزلباش کو انہوں نے بہت سراہا۔ اب جن کا کام ہی دوسروں کے کام میں کیڑے نکالنا ہو تو فوراً کہیں گے کہ جناب اسد قزلباش کہاں سے پاکستان کا واحد سرودیا ہو گیا۔ طافو کا بیٹا بھی تو بجاتا ہے۔ تو جناب بجاتا ہو گا ویسا ہی بازاری انگ جیسا اس کا باپ طبلے پر بجاتا ہے۔

30 برس قبل کچھ ایسا ہی فون مجھے مرحوم اظہر مجید کا آیا تھا۔ اظہر صاحب ریڈیو پاکستان میں تھے۔ کلاسیکل موسیقی کے سمجھنے والوں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ گلہ کیا کہ جی تم نے استاد نذر حسین کے جیتے جی یہ لکھ دیا کہ اسد قزلباش پاکستان کا واحد سرود نواز ہے۔ میں نے عرض کیا کہ مجید صاحب آج کل کہاں بجا رہے ہیں استاد جی۔ کوئی جواب نہیں تھا۔ ویسے تو میرا بھائی بھی سرود بجاتا ہے اور میں اس کے ساتھ طبلے پر سنگت کرتا ہوں۔ پر نہ میں اسے سرودیا اور نہ وہ مجھے طبلیا مانتا ہے۔ دونوں درست ہیں۔ میں تو اپنے آپ کو بھی طبلیا نہیں مانتا۔ بس ٹھک ٹھک کر لیتا ہوں تھوڑی بہت۔

طبلہ نواز تاری خان مہدی حسن کے ہمراہ


غلام علی کی غزل لَے پر ادھارک جبکہ مہدی صاحب کی لَے اور سُر دونوں پر۔ غلام علی ہارمونیم کے بغیر سُر تک نہیں لگا سکتا۔ بے سُرا ہو جاتا ہے۔ لگا کر دکھا دے تو مان جاؤں۔ مہدی صاحب کی تربیت تو ہوئی تان پورے اور سرمنڈل پر۔ اگر مہدی صاحب کا بہترین گانا سننا ہو تو وہ سنا جائے جس میں وہ سرمنڈل کے ساتھ گا رہے ہیں۔ سرمنڈل چھوڑ دیا تو ان کا گانا آدھا رہ گیا۔ لیکن یہ آدھا بھی سارے جہاں پر بھاری!

غلام علی کا بہترین گانا وہی تھا جس میں تاری ان کے ساتھ رہا طبلے پر۔ تاری سے لڑائی ہوئی۔ غلام علی نے تاری کو جلانے کے لئے ذاکر بھائی کو طبلے پر رکھا۔ اب ذاکر بھائی نے تو غزل بجائی نہیں۔ بھارت میں کہاں غزل۔ ہلکے پھلکے گیت کو غزل کہہ دینے سے کوئی غزل تو بن نہیں جاتی۔ جگجیت بھی ساری عمر گیت انگ میں غزل گایا جبکہ مہدی صاحب کی غزل تو تھی ٹھمری۔ تو ذاکر بھائی کلاسیکل انگ کا طبلہ بجاتے رہے غزل میں اور غلام علی کا کام غرق! وہ دن آج کا دن غلام علی کا گانا اٹھ نہ سکا۔

تاری سے لڑائی کا سبب یہ کہ غلام علی پیچھے رہ جاتا اور تاری اپنے طبلے سے غزل پر چھا جاتا۔ غلام علی نے باقاعدہ شکایت بھی لگائی تاری کے استاد شوکت صاحب کو کہ جی اسے سمجھائیں۔ وہ بولے بچہ ہے خود ہی سمجھ جائے گا وقت آنے پر۔

1980 کے اوائل کے بعد غلام علی کا گانا بتدریج گرنا شروع ہو گیا۔ اس کی ایک وجہ شہرت پانے کے بعد غلام علی کا ریاض چھوڑنا۔ جو سٹیج پر بیٹھے بیٹھے گا لیا بس اسے ہی ریاض جانا۔ جبکہ مہدی صاحب آخری دنوں میں بھی ریاض کرتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کیریئر کے آخری دنوں میں گائی غزلیں بھی لوگوں نے بہت شوق سے سنیں۔

غلام علی اور جگجیت سنگھ


پھر سب سے بڑی حماقت جو غلام علی نے کی وہ یہ کہ اپنا منفرد مکتب فکر چھوڑ کر جگجیت سنگھ کو کاپی کرنا شروع کر دیا۔ غزل میں سنتور، گٹار، وائلن، کی بورڈ گھسیڑ دیا۔ کہاں جگجیت ان کے انداز کا پرستار اور اب گنگا ہی الٹی بہنی شروع ہو گئی۔ تو مسئلہ یہ کہ جگجیت نے اپنا مکتبہ فکر خود ایجاد کیا غزل گائیکی میں اور غلام علی کے بس سے باہر تھا اسے شکست دینا۔ لہٰذا غلام علی نہ غلام علی رہا نہ جگجیت بن سکا۔ کچھ بیچ کی چیز بن گیا۔ اگر وہ اپنے ہی انداز پر قائم رہتا، ریاض کرتا رہتا تو منازل بہت تھیں ابھی بھی طے کرنے کو۔

پھر مسئلہ یہ کہ اس کا تلفظ انتہائی بے کار۔ اردو کوئی مہدی صاحب کی مادری زبان نہ تھی۔ وہ راجھستان کے مارواڑی۔ بقول سرمد صہبائی، بھائی شریف اعوان اور دیگر ڈھیر سارے دوستوں کے، ریڈیو پاکستان کے سلیم گیلانی صاحب نے تلفظ کے معاملے میں مہدی صاحب کی بہت رہنمائی کی۔ بہت محنت کروائی۔ لیکن مہدی صاحب تسلیم کرتے تھے کہ ان کا تلفظ ٹھیک نہیں۔ جب ہی محنت کر کے اسے درست کیا۔ مگر غلام علی کو شہرت کا چسکا لگ گیا۔ کنسرٹس ہی جان نہیں چھوڑتے تھے۔ تلفظ پر ان حالات میں توجہ دینے کی کیا ضرورت تھی؟ ڈھیر سارا پیسہ ردی قسم کے تلفظ کے ساتھ ہی آ جاتا تھا۔

ہمارے دوست ڈاکٹر حسن آزاد انصاری ریاضی میں پی ایچ ڈی ہونے کے علاوہ بہت اعلیٰ پائے کے ستار نواز بھی ہیں۔ استاد شریف خان پونچھ والے کے شاگرد ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دراصل مہدی صاحب کی محفل والی غزلیں تو خیال گائیکی کی بلمبپت اور مدھ لے ہے۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ ہر کسی کی سمجھ میں آنے والی نہیں سوائے ان کے جو خیال گائیکی کے پکے رسیا ہیں۔

دوسرے غلام علی کی غزل میں ہیرا منڈی جیسا بازاری پن غالب۔ مہدی صاحب کی غزل میں رعب و دبدبہ اور روح۔ مجھے تو غلام علی کی دو یا تین بہترین غزلیں ہی یاد آتی ہیں مگر مہدی صاحب کی سینکڑوں غزلیں ہر لمحہ ذہن میں رہتی ہیں۔ ایک اور اہم بات۔ مہدی صاحب بہت بڑے کمپوزر بھی تھے۔ بیش تر غزلیں انہوں نے خود ہی کمپوز کی تھیں۔ غلام علی اس وصف میں کچھ خاص نام نہ رکھتا تھا۔ پھر تاری اور مہدی صاحب کی جو جوڑی بنی وہ آخری وقت تک قائم رہی۔ اس رفاقت نے تاری میں مہدی صاحب کا رنگ کچھ حد تک پیدا کر دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کی تاریخ میں اگر کوئی مہدی صاحب کی بہترین کاپی کر سکتا ہے تو وہ تاری ہی ہے۔۔ اگر شرتی نہ لگائے تو۔ وہ بیچارہ مہدی صاحب کی مینڈھ یا شرتی لگانے کی کوشش میں بے سُرا ہو جاتا ہے۔

طبلہ نواز ذاکر خان


قریب 30 برس قبل پنڈت جسراج کا انٹرویو کرنے کا موقع ملا۔ بھارتی ہائی کمیشن نے بلایا تھا اسلام آباد۔ پنڈت جی فرماتے ہیں کہ مہدی صاحب نے تو غزل کو ٹھمری بنا دیا۔ بہت بڑا خراج تحسین تھا۔ اور لتا جی نے تو بات ہی ختم کر دی یہ کہہ کر کہ مہدی صاحب کے گلے میں بھگوان بولتا ہے۔ آج زندہ ہوتیں تو کہتیں کہ کوک سٹوڈیو کے گلے میں راکشس بولتا ہے۔ غلام علی کی بدنصیبی کہ انہیں وہ خراج تحسین نہ ملا جو لتا بائی مہدی صاحب کو دے گئی۔

لیکن اس خراج تحسین کا ایک پس منظر ہے۔ لتا جی بہت حاسد قسم کی خاتون تھیں۔ مغرور بھی بے انتہا تھیں۔ ان کی لڑائی ہو گئی تھی رفیع صاحب سے۔ فلم بنانے والوں سے کہہ دیا تھا کہ جس فلم میں رفیع ہو گا میں نہ گاؤں گی۔ فلم انڈسٹری نے رفیع صاحب کو بے جا نظرانداز کیا۔ لتا جی نے رفیع صاحب کو جلانے کے لئے مہدی حسن کے گلے میں بھگوان ڈال دیا۔ ورنہ دنیا مانتی ہے کہ فلمی دنیا کی گائیکی میں تان سین صرف اور صرف رفیع صاحب ہیں۔ مہدی حسن تو اکا دکا بھی نہیں!

Contributor

محمد شہزاد اسلام آباد میں مقیم آزاد صحافی، محقق اور شاعر ہیں۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں۔ طبلہ اور کلاسیکی موسیقی سیکھتے ہیں۔ کھانا پکانے کا جنون رکھتے ہیں۔ ان سے اس ای میل Yamankalyan@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔