انگریزوں کے خلاف جنگ آزادی لڑنے والا بھگت سنگھ ہمارا ہیرو کیوں نہ بن سکا؟

بھگت سنگھ کی آزادی کسی اور ہی چڑیا کا نام تھا جو بعد کے طوفانوں میں کہیں سہم کے رہ گئی۔ وہ کبھی نہیں چاہتا تھا کہ انگریزوں کے چلے جانے کے بعد اس دھرتی کے کسانوں کی قسمت یہاں کے سرمایہ داروں اور زمینداروں کے ہاتھوں میں آ جائے۔ وہ صرف حاکموں کے تبدیل ہو جانے کو آزادی نہیں سمجھتا تھا۔

انگریزوں کے خلاف جنگ آزادی لڑنے والا بھگت سنگھ ہمارا ہیرو کیوں نہ بن سکا؟

آج 23 مارچ ہے اور اسے ہم قرار داد لاہور کی منظوری کے دن کے طور پر  یاد کرتے ہیں۔ 1940 میں اسی روز آل انڈیا مسلم لیگ کے لاہور میں منعقد ہونے والے اجلاس میں پاکستان کے مطالبے سے متعلق قرارداد پیش ہوئی تھی جسے اگلے روز یعنی 24 مارچ کو منظور کر لیا گیا تھا۔ اسی مناسبت سے حکومتِ پاکستان ہر سال 23 مارچ کو یوم پاکستان کے طور پر مناتی ہے۔ اس روز ملک میں سرکاری تعطیل ہوتی ہے تا کہ عوام تحریکِ آزادی کے اس اہم موڑ کی یاد سے جڑے رہ سکیں۔

یہاں تک تو ٹھیک ہے مگر کیا 23 مارچ کی بس یہی ایک پہچان ہے جسے یاد رکھا جانا چاہیے؟

درحقیقت کیلنڈر پر اس تاریخ کے نمودار ہونے سے برصغیر کی تاریخ کا ایک اور دریچہ بھی وا ہوتا ہے جس سے متعلق بدقسمتی سے پاکستان میں بہت زیادہ بات چیت نہیں ہوتی۔ 1940 میں قرارداد لاہور منظور ہونے سے ٹھیک 9 سال قبل اسی دن آزادی کے متوالے لائلپور کے ایک گبھرو جوان بھگت سنگھ کو ان کے دو نہایت پیارے ساتھیوں سمیت سنٹرل جیل لاہور میں پھانسی پر چڑھا دیا گیا تھا۔ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا جسے آسانی سے فراموش کر کے آگے گزر جانا ممکن ہے۔ حیرت ہے پھر بھی اس دن ہمیں قراردار لاہور کا ذکر تو جا بجا ملتا ہے مگر اس کے ساتھ بھگت سنگھ کا ذکر کہیں سننے کو نہیں ملتا۔

پاکستان میں پیدا ہونے اور یہاں پروان چڑھنے والوں کیلئے یہ عذاب لازم و ملزوم صورت اختیار کر گیا ہے کہ انہیں آدھی ادھوری تاریخ سے متعلق بتایا جائے اور بار بار اسی کو مکمل تصویر مانتے رہنے پر مجبور کیا جاتا رہے۔ یہاں رہنے والوں کی مجبوری ہے کہ وہ ریاستی سطح پر تاریخ کے ساتھ جاری تماشے کا ساتھ دیتے چلے جائیں۔ مگر کیا آدھا سچ چھپانے سے پورا سچ اپنا وجود کھو سکتا ہے؟ میری دانست میں تو کبھی بھی نہیں!

تاریخ کا سچ ہمیشہ ہمارے اردگرد منڈلاتا رہتا ہے۔ اس سے چشم پوشی تو کی جا سکتی ہے مگر اسے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ کچھ واقعات اور شخصیات ایسی بھی گزری ہیں جنہوں نے تاریخ کے منہ زور گھوڑے کو اپنے زورِ بازو سے موڑ دیا۔ ایسے لوگ اور واقعات ہمیشہ کیلئے یادگار بن کے ہمارے ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور یہی وہ شخصیات ہیں جن کی عظمت کے قصے ہم اپنے بعد آنے والے لوگوں کو سنانے کا قرض اپنے سینوں پر اٹھائے پھرتے ہیں۔ یہ واقعات تاریخی امانت ہیں جنہیں یہاں بسنے والے ہر شخص تک پہنچانا باضمیر لوگوں کا فرض ہے۔

بھگت سنگھ ایسا نڈر نوجوان تھا جس نے انگریز سرکار کے خلاف بھرپور اور منظم تحریک چلائی اور آزادی کے اصل معنی پہلے خود سمجھے اور پھر عوام کو اپنے ساتھ شامل کر لیا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب برصغیر پاک و ہند میں اس کی مقبولیت قائد اعظم اور گاندھی جی سے بھی بڑھ چکی تھی۔ پنجاب میں ہر جانب بھگت سنگھ کی تصویریں فروخت ہو رہی تھیں اور نوجوان اسے رول ماڈل بنا کر ہندوستان کی تحریک آزادی میں دوڑ دوڑ کر شامل ہو رہے تھے۔ اس دھرتی کے کسانوں کو صدیوں کے بعد اپنی نمائندہ آواز ملی تھی اور وہ اس آواز کے دیوانے ہو چکے تھے۔ شاید بھگت سنگھ کی یہی مقبولیت آل انڈیا مسلم لیگ اور انڈین نیشنل کانگریس کے رہنماؤں کیلئے دردِ سر بنی اور اس آواز کے ساتھ بعد میں وہ سلوک ہوا جسے ہم کبھی بھلا نہیں پائیں گے۔

برصغیر میں انگریزوں نے جب نہری نظام شروع کیا تو 1890 میں بھگت سنگھ کا خاندان مشرقی پنجاب کے علاقے کھٹکر کلاں سے ہجرت کر کے فیصل آباد کے نواح میں آن بسا۔ تحصیل جڑانوالا کے گاؤں بنگے میں بھگت سنگھ کے والد سردار کشن سنگھ اور چچا نے اپنے لیے ایک حویلی تعمیر کی اور اس میں رہنا شروع کر دیا۔ 28 ستمبر 1907 کو اس حویلی میں ایک بچے نے آنکھیں کھولیں جس کا نام بھگت سنگھ رکھا گیا۔

چک نمبر 105 گ ب بنگے تحصیل جڑانوالا ضلع فیصل آباد میں یہ حویلی آج بھی موجود ہے۔ اس حویلی اور گاؤں کے پرائمری سکول کو فیصل آباد کی مقامی انتظامیہ نے 2014 میں ثقافتی ورثہ قرار دے کر اس کی تزئین و آرائش کا کام شروع کروا دیا ہے۔

اپریل 1919 میں برطانوی دور کے بدنام زمانہ رولٹ ایکٹ اور دو مجاہدین آزادی کی گرفتاری کے خلاف امرتسر کے جلیانوالا باغ میں عام لوگ جمع ہو کر احتجاج کر رہے تھے۔ بیساکھی کا تہوار منا کر لوٹنے والے کئی اور لوگ بھی اس احتجاج میں شامل ہو گئے۔ انگریز فوج کے کمانڈر جنرل ڈائر نے لوگوں کو منتشر کرنے کے لئے ان پر گولیاں چلانے کا حکم دے دیا۔ فائرنگ کے اس وحشیانہ واقعے میں خواتین، مردوں اور بچوں سمیت کم از کم ایک ہزار تک بے گناہ افراد ہلاک ہوئے اور 1500 سے زیادہ زخمی ہو گئے۔ بھگت سنگھ کی عمر تب محض 12 برس تھی اور اس واقعے نے بھگت سنگھ کی سوچ اور نفسیات پر گہرا اثر ڈالا۔ اس واقعے کے بعد بھگت سنگھ نے اپنے دیش کو سامراج کی غلامی سے آزاد کروانے کا تہیہ کر لیا۔

1920 میں مہاتما گاندھی نے انگریز حکومت کے خلاف عدم تعاون کی تحریک کا اعلان کیا تو لالہ لاجپت رائے نے لاہور میں ریٹی گن روڈ پر واقع بریڈ لو ہال میں نیشنل کالج کی بنیاد رکھی۔ طلبہ نے اس کے لئے چندہ جمع کیا اور یوں یہ کالج شروع ہو گیا۔ بھگت سنگھ اس وقت ڈی اے وی سکول میں پڑھتے تھے جو اب گورنمنٹ مسلم ہائی سکول نمبر 2 بن چکا ہے۔ انہوں نے بھی گاندھی جی کی کال پر ڈی اے وی سکول چھوڑا اور نیشنل کالج آ گئے۔

1924 میں بھگت سنگھ نے ہندوستان ری پبلکن ایسوسی ایشن (HRA) میں شمولیت اختیار کر لی جس کا نام بعد میں ہندوستان سوشلسٹ ری پبلکن ایسوسی ایشن (HSRA) رکھ دیا گیا۔ 1925 میں جب کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا بنی تو بھگت سنگھ نے اس کی بھی رکنیت حاصل کر لی۔ 1922 سے 1926 تک بھگت سنگھ نیشنل کالج میں زیر تعلیم رہے۔ یہیں انہیں سکھ دیو، یش پال، رام کرشن اور بھگوتی چرن ووہرا جیسے انقلابی دوست ملے جنہوں نے 1926 میں 'نوجوان بھارت سبھا' کے نام سے ایک تنظیم بنائی جس کا مقصد برصغیر کی آزادی کی جدوجہد کو تیز کرنا تھا۔ نیشنل کالج کے انہی چار سالوں نے بھگت سنگھ کے اس اوتار کی تشکیل میں مرکزی کردار ادا کیا جس نے آگے چل کر انگریز حکومت کی نیندیں اڑا دیں۔

لالہ لالجپت رائے سینیئر کانگریسی لیڈر اور معروف مصنف تھے۔ ان کے مضامین اخباروں میں بھی شائع ہوتے رہتے تھے۔ وہ بھگت سنگھ کے نظریاتی ساتھی تھے۔ انہی دنوں لالہ لاجپت رائے نے تجویز پیش کی تھی کہ برصغیر کے مسلم اکثریتی آبادی والے علاقوں پر مشتمل الگ صوبے بنا دینے چاہئیں۔ ان کی اس تجویز کے بعد انگریز سرکار نے ایک کمیشن بنایا جس کے ذمے یہ کام تھا کہ وہ برصغیر کے سیاسی حالات کا مشاہدہ کرے گا۔ سائمن کمیشن جب بنا تو اس میں بھارت سے تعلق رکھنے والا ایک بھی سیاسی رہنما شامل نہیں تھا۔ جب اس کمیشن نے ہندوستان آنے کا اعلان کیا تو لالہ لاجپت رائے نے اس کے خلاف احتجاج کا اعلان کر دیا۔

30 اکتوبر 1928 کو سائمن کمیشن لاہور آیا اور بڑی تعداد میں لوگ احتجاج کے لئے لاہور ریلوے سٹیشن کے باہر جمع ہو گئے۔ لالہ لاجپت رائے اس مظاہرے کی سربراہی کر رہے تھے۔ مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے ان پر انگریز سپرنٹنڈنٹ آف پولیس جیمز سکاٹ کے حکم پر تشدد شروع کر دیا گیا اور لالہ لاجپت رائے کو خاص طور پر اس تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ بھگت سنگھ اور ان کے دیگر انقلابی ساتھی بھی اس احتجاج میں شامل تھے۔ پرامن مظاہرین کے ساتھ یہ واقعہ ان کی آنکھوں کے سامنے پیش آیا۔ لالہ لاجپت رائے بعد میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے 17 نومبر 1928 کو چل بسے۔ لاہور پولیس اور ایس پی جیمز سکاٹ نے ان کے قتل سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ انگریز سرکار کی اس بے حسی پر بھگت سنگھ کا خون کھول اٹھا اور انہوں نے لالہ کی موت کا بدلہ لینے کا ارادہ بنا لیا۔

منصوبے کے مطابق مقررہ روز بھگت سنگھ، راج گرو اور سکھ دیو جیمز سکاٹ کو قتل کرنے اس جگہ پہنچ گئے جہاں آج اسلامیہ کالج سول لائنز واقع ہے۔ تاہم شناخت میں غلطی کی وجہ سے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس جیمز سکاٹ کے بجائے انہوں نے اے ایس پی سانڈرز کو ہلاک کر دیا اور موقع سے فرار ہو کر مزنگ میں اپنے ٹھکانے پر آن پہنچے۔ یہاں سے ایک انقلابی ساتھی درگا دیوی کی مدد سے کلکتہ پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ کلکتے میں انہیں جندر ناتھ داس ملے جو بم بنانے میں ماہر تھے۔

اسی دوران انگریز سرکار نے مقامی لوگوں پر دباؤ بڑھانے کے لئے اسمبلی میں دو بل پیش کر دیے؛ پبلک سیفٹی ایکٹ اور ٹریڈ ڈسپیوٹ بل۔ یہ دونوں بل بنیادی انسانی حقوق کو پامال کرنے کی غرض سے بنائے گئے تھے۔ بھگت سنگھ نے انگریز سرکار کے اس فیصلے کے خلاف احتجاج کرنے کے لئے اسمبلی ہال میں بم پھینکنے کا منصوبہ بنایا۔ یہ دیسی ساختہ بم تھے اور دانستہ ایسی جگہوں پر پھینکے گئے جہاں کوئی آدمی موجود نہیں تھا۔ بم پھینکنے کا مقصد کسی کی جان لینا نہیں تھا بلکہ برطانوی سرکار کو مجبور کرنا تھا کہ وہ انقلابیوں سے مذاکرات کریں اور ان کی مانگیں سنیں۔ بم پھینکنے کے دوران بھگت سنگھ اور ان کے ساتھی متواتر ' انقلاب زندہ باد' کے نعرے لگاتے رہے۔

اس واقعے کے بعد بھگت سنگھ نے اسمبلی کے احاطے ہی میں پولیس کو رضاکارانہ طور پر گرفتاری دے دی۔ گرفتاری کے بعد بھگت سنگھ کے خلاف مقدمہ شروع کیا گیا۔ بھگت سنگھ بھی یہی چاہتے تھے کہ ان کے خلاف مقدمہ چلے تاکہ مقدمے کی کارروائی جب اخباروں میں چھپےتو ان کا پیغام بھی برصغیر کے کونے کونے تک پہنچ جائے۔ اسی دوران لاہور میں ایک اسلحہ ساز فیکٹری پکڑی گئی اور الزام لگایا گیا کہ یہ فیکٹری بھگت سنگھ اور ان کے انقلاتی ساتھیوں کی سرپرستی میں کام کر رہی تھی۔ ان کا اپناایک ساتھی ان کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن گیا اور یوں 7 اکتوبر 1930 کو بھگت سنگھ، سکھ دیو اور راج گرو کو پھانسی کی سزا سنا دی گئی۔

جیل میں بھگت سنگھ نے ساتھیوں سمیت بھوک ہڑتال شروع کر دی جو 110 دن تک جاری رہی۔ ایک متنازعہ مقدمے کی متنازعہ کارروائی کے نتیجے میں بھگت سنگھ، سکھ دیو اور راج گرو کو پھانسی کی جو سزا سنائی گئی تھی 23 مارچ 1931 کو سنٹرل جیل لاہور میں اس سزا پر عمل درآمد کروا دیا گیا۔ لاہور کے علاقے شادمان میں جہاں اب شادمان چوک ہے، پہلے یہ جگہ سنٹرل جیل کا حصہ تھی اور عین اسی جگہ ان انقلابیوں کو پھانسی دی گئی تھی۔

سول سوسائٹی کئی سالوں سے مطالبہ کر رہی ہے کہ اس چوک کا نام شہید بھگت سنگھ چوک رکھا جائے مگر مذہبی جماعتوں کو اس مطالبے پر اعتراض ہے۔ یہ معاملہ ابھی تک لاہور کی ایک عدالت میں زیر سماعت ہے۔

پاکستان اور بھارت کی نظریاتی کنفیوژن
قائداعظم کے قانونی گرو اور بعد میں آل انڈین نیشنل کانگریس کے بانی رکن بننے والے پارسی قانون دان دادا بھائی نورو جی پہلے ہندوستانی تھے جنہوں نے انگریزوں سے برصغیر چھوڑ کر چلے جانے کا مطالبہ کیا تھا۔ 'ہندوستان چھوڑ دو' کا نعرہ دادا بھائی نورو جی ہی کا دیا ہوا ہے۔ انہوں نے یہ مطالبہ انیسویں صدی کے دوسرے نصف میں کیا تھا۔ بعد میں دادا بھائی نورو جی انڈین نیشنل کانگریس کے شریک بانی بنے اور انہوں نے انگریز سامراج کے خلاف جدوجہد جاری رکھی۔ قائد اعظم محمد علی جناح اور موہن داس کرم چند گاندھی انہی کے نظریات کی روشنی میں سیاسی میدان میں اترے تھے۔ گاندھی جی کی عدم تعاون کی تحریک بھی دادا بھائی نورو جی کے نظریات ہی کی روشنی میں شروع ہونے والی ایک سیاسی مہم تھی جس کے ذریعے انگریزوں کو ہندوستان چھوڑنے کا پیغام دیا گیا تھا۔

ان سیاسی آوازوں کے برعکس بھگت سنگھ وہ پہلی توانا آواز تھی جس نے کارل مارکس کے نظریات کے مطابق طاقت کا جواب طاقت سے دینے کا راستہ اختیار کیا اور انگریزوں کے خلاف جدوجہد آزادی کو ' انقلاب زندہ باد' کا نعرہ دے کر اس میں نئی روح پھونک دی۔ بھگت سنگھ کہتے تھے؛ 'جنہیں اونچا سنائی دیتا ہے ان تک اپنی آواز پہنچانے کے لئے دھماکوں کی ضرورت پڑتی ہے'۔

پنڈت جواہر لعل نہرو اپنی آپ بیتی میں انگریزوں کے خلاف لڑنے والے ان انقلابیوں کے بارے میں لکھتے ہیں

برصغیر کی تقسیم کے بعد دونوں ملک بھگت سنگھ جیسے انقلابی رہنما کو سویکار کرنے سے متعلق متذبذب ہی رہے۔ پاکستان میں تو خیر دھیرے دھیرے ماحول ہی اس طرح کا بنا دیا گیا کہ تحریک آزادی میں شامل ایسے تمام ہیروز عوام کی نظروں سے اوجھل کر دیے گئے جن کا تعلق اسلام کے بجائے کسی دوسرے مذہب سے تھا۔ اس طرح پاکستان نے ہندو، سکھ، عیسائی، پارسی، احمدی اور دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے ہیروز کو اجتماعی قومی حافظے سے نکال باہر کیا۔ یہی وجہ ہے کہ برصغیر کی دھرتی کو برطانوی شکنجے سے آزاد کروانے میں اہم کردار ادا کرنے والے بھگت سنگھ جیسے سپوتوں کا ذکر پاکستان کی نصابی کتابوں میں کہیں نہیں ملتا۔

بھارتی دانش بھی ان کرانتی کاریوں کو لے کر نظریاتی کنفیوژن کی شکار رہی۔ چونکہ جواہر لعل نہرو ان انقلابیوں کے طریقہ کار سے متعلق کھلے عام معترض رہتے تھے اس لئے کانگریس سرکار کے ہوتے ہوئے سرکاری سطح پر بھگت سنگھ جیسے انقلابیوں کی خدمات کا اعتراف نہ کیا گیا۔ ریاست نے بھگت سنگھ کا ذکر تبھی کیا جب اسے بھگت سنگھ کی ضرورت محسوس ہوئی۔ کانگریس سرکار کے وزیراعظم راجیو گاندھی کو 1985 میں پہلی مرتبہ یاد آیا کہ بھگت سنگھ اس دھرتی کا ہیرو ہے۔ یہ گولڈن ٹیمپل والے واقعے اور اس کے نتیجے میں قتل ہونے والی بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے بعد کا زمانہ تھا جب کانگریس سرکار سکھوں سے پیدا ہونے والے تناؤ میں کمی لانے کے طریقوں پر عمل کر رہی تھی۔
بھگت سنگھ مذہب کو سماجی ترقی میں رکاوٹ سمجھتے تھے
بھگت سنگھ علی الاعلان کارل مارکس اور لینن کے نظریات کے پرچارک تھے۔ وہ سماجی ترقی میں مذہب کو رکاوٹ قرار دیتے تھے اور ان کا پختہ اعتقاد تھا کہ مذہب کے دائرے سے باہر نکل کر اور سائنس کا راستہ اپنا کر ہی سماج کو ترقی کے راستے پر ڈالا جا سکتا ہے۔ انہوں نے ایک طویل مضمون بھی تحریر کیا تھا جس کا عنوان تھا؛ Why I am an atheist?

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بھگت سنگھ، سکھ دیو اور راج گرو کی یادگار پر حاضری دی

قابل غور نکتہ ہے کہ جو انسان سامراجیت، سرمایہ داری، جاگیرداری اور مذہب کے نام پر جاری استحصال کے خلاف جدوجہد کرتے اور ' انقلاب زندہ باد' کا نعرہ لگاتے ہوئے پھانسی پر چڑھ گیا آج بھارت کی سب سے بڑی مذہبی سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے بھی اسے گلے سے لگا لیا ہے تو یہ نظریاتی کنفیوژن نہیں تو اور کیا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے چند سال قبل بھارتی پنجاب کے ضلع فیروز پور کے گاؤں حسین والا پہنچ کر بھگت سنگھ، سکھ دیو اور راج گرو کی یادگار پر حاضری دی۔ اس موقع پر نریندر مودی نے حسین والا میں اپنی تقریر میں کہا؛ 'میں آج بہادروں کی عظیم روایت کو سجدہ کرنے آیا ہوں'۔

بھگت سنگھ ہماری سرزمین کا ایسا جانباز سپُوت تھا جس نے ذاتی ترغیبات کو دفن کر کے ملک کیلئے اپنی جان قربان کر دی۔ جس نے مبہم سیاستوں اور سازشوں کے دور میں انگریز کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اور اسے للکار کے کہا کہ برصغیر چھوڑ دو اور واپس چلے جاؤ۔ یہ جگہ ہماری ہے اور یہ یہیں کے باسیوں کے پاس اچھی لگتی ہے۔ ہندوستان کی تحریک آزادی کے شعلوں کو مسلم لیگ اور کانگریس سے بھی پہلے برطانوی پارلیمنٹ تک پہنچانے والا نوجوان کوئی اور نہیں، ہمارا بھگت سنگھ ہی تھا۔ ذرا سوچیں تو سہی کہ محض 22، 23 سال کے جسم میں ایسی روح اور ایسا جذبہ پیدا ہو جاناکوئی معمولی واقعہ تھا جس نے انگریز سامراج کو بھی خائف کر دیا؟ کیا اس واقعے کو پاکستانی عوام کے اجتماعی حافظے اور اجتماعی شعور سے اوجھل کر دینا عام سی بات ہے؟

ہمیں آج 23 مارچ کا دن یوم پاکستان کے طور پر مناتے ہوئے بھگت سنگھ کو ہرگز نہیں بھولنا چاہیے جس نے اپنی جدوجہد سے تحریکِ آزادی کو ایک نئی اور واضح شکل دے دی تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں جیسے برصغیر نے آزادی حاصل کی وہ بھگت سنگھ کا وژن ہرگز نہیں تھا۔ بھگت سنگھ کی آزادی کسی اور ہی چڑیا کا نام تھا جو بعد کے طوفانوں میں کہیں سہم کے رہ گئی۔ وہ کبھی نہیں چاہتا تھا کہ انگریزوں کے چلے جانے کے بعد اس دھرتی کے کسانوں کی قسمت یہاں کے سرمایہ داروں اور زمینداروں کے ہاتھوں میں آ جائے۔ وہ صرف حاکموں کے تبدیل ہو جانے کو آزادی نہیں سمجھتا تھا۔ اس کی آزادی برابری سے شروع ہوتی تھی کہ سماج کو پہلے اس طرح ترتیب دیا جائے کہ یہاں ہر قسم کا استحصال ختم ہو جائے اور پھر عام لوگوں میں سے چند افراد کو چُن کر انہیں عوامی نمائندوں کے روپ میں سامنے لایا جائے جو عوام کی خدمت کریں۔

بھگت سنگھ کی جدوجہد سے متعلق بالی ووڈ میں کئی فلمیں بن چکی ہیں

آزادی کے بعد برصغیر میں ایسا تو نہیں ہو سکا ہاں البتہ اتنا ضرور ہے کہ یہاں بسنے والے عوام کے دلوں میں آزادی کی جو شوخ و چنچل اُمنگ بھگت سنگھ نے پیدا کی تھی وہ بعد کے سبھی نمونوں (مسلم لیگ اور کانگریس کے پیش کردہ آزادی کے ماڈلز) سے زیادہ قابلِ قدر، زیادہ قابلِ عمل اور زیادہ زمینی تھی۔ آج اگر ہم پاکستان اور ہندوستان کے سماجی ارتقا کی بات کریں تو یہ سمجھنے میں زیادہ مشکل پیش نہیں آتی کہ بھگت سنگھ کے پیش کردہ آزادی کے نظریے کی جڑیں مسلم لیگ اور کانگریس کے نظریات کی نسبت کہیں زیادہ مضبوط تھیں۔

خضر حیات فلسفے کے طالب علم ہیں اور عالمی ادب، سنیما اور موسیقی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ وہ نیا دور کے ساتھ بطور تحقیق کار اور لکھاری منسلک ہیں۔