اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ضیاء الحق کو للکارنے والے کامریڈ شفقت خان دنیا چھوڑ گئے

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ضیاء الحق کو للکارنے والے کامریڈ شفقت خان دنیا چھوڑ گئے
یہ یکم اکتوبر 1980 کی بات ہے جب پاکستان کے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق نیویارک میں اقوام متحدہ کی عمارت میں جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرنے آئے تھے۔ ابھی وہ جنرل اسمبلی ہال کے روسٹرم پر اپنی تقریر شروع کر ہی پائے تھے کہ اچانک جنرل اسمبلی کی پریس گیلری میں سے جنرل ضیاء مردہ باد، مارشل لاء مردہ باد اور پاکستان میں جمہوریت بحال کرو کے نعرے تڑ تڑ لگنے شروع ہو گئے۔ اس پر جنرل ضیاء کو ہکا بکا ہو کر کچھ منٹ اپنی تقریر روکنا پڑی تھی۔ یہ نعرے بازی جتنی تیزی سے ہوئی، اتنی ہی تیزی سے اقوام متحدہ کے سکیورٹی اہلکار پریس گیلری میں ایک لمبے تڑنگے نعرے لگاتے ہوئے نوجوان کو دبوچ کر گیلری سے باہر لے گئے تھے۔

پاکستان کے فوجی ڈکٹیٹر کے خلاف نعرے لگانے والا یہ نوجوان سابق فوجی کیپٹن شفقت خان تھا۔ شفقت خان اس وقت امریکا میں بائیں بازو کے پاکستانی سیاسی منحرفین کی مارشل لاء مخالف اور جمہوریت نواز تحریک کی تنظیم ' پاکستان کمیٹی فار ڈیموکریسی اینڈ جسٹس' کا بانی رکن تھا۔

شفقت خان 15 مئی 2023 کو یہ سیارہ چھوڑ گیا۔

شفقت خان پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر چیچہ وطنی میں فروری 1950 کو ایک فوجی خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے چچا برگیڈیئر نذیر فوجی حکمران ایوب خان کے ملٹری سیکرٹری تھے۔ لیکن شفقت خان نے بچپن ہی سے باغیانہ طبعیت پائی تھی۔ انہیں ان کے چچا نے 12 سال کی عمر میں کیڈٹ کالج حسن ابدال میں داخل کروایا تھا۔ حسن ابدال میں ایک ساتھی بچے کے ساتھ زیادتی پر وہ کالج انتظامیہ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ یہاں حسن ابدال میں ان کا ایک ہم جولی ذوالفقار گیلانی بھی تھا جس سے ان کی دوستی تا عمر قائم رہی۔

انہی دنوں کے بارے میں ان کے ایک ہم سکولی ڈاکٹر ناصر گوندل جو اب نیو یارک میں رہائش پذیر ہیں اور شاعر بھی ہیں، کیڈٹ کالج حسن ابدال میں اپنے ہم جولیوں کا نقشہ اپنی ایک نظم میں کچھ یوں کھینچتے ہیں:

بھان متی کے اس کنبے میں
کیا کیا نہ شہ پارے تھے
کچھ تو سیپ کے موتی تھے
کچھ کنکر انگارے تھے
کچھ سرخے کچھ سبزے تھے
کیا عشقے کیا غمزے تھے
کچھ پنجگان نمازی تھے
کچھ گفتار کے غازی تھے
کچھ کردار کے داغی تھے
کچھ پیدائش سے باغی تھے
(ناصر گوندل)

حسن ابدال سے کیڈٹ بن کر نکلنے کے بعد شفقت خان پاکستان ملٹری اکیڈمی (پی ایم اے) کاکول پڑھنے گئے اور پاکستان آرمی میں کپتان کے عہدے پر پہنچے۔ لیکن باغیانہ طبیعت اور پڑہاکو ذہن نے ان کو ملک کے لتاڑے ہوئے طبقات کیلئے ہمدردانہ سوچ دی تھی۔ وہ اکیلے کچھ نہ کچھ کرنا چاہتے تھے۔ دوست اور خاندان کے لوگ ان کی ایسی سوچ اور خیالات سے اچھی طرح واقف تھے۔ انہوں نے بہرحال فوج کو خیرباد کہتے ہوئے 'آنریبل ڈسچارج' لیا اور امریکہ آ گئے۔ ان کی اہلیہ ڈیل ڈیویسن جو کہ خود امریکہ کے پہلے افریقی امریکی جنرل ڈیوسن کی بیٹی ہیں، کا کہنا ہے؛ 'شفقت نے اپنے سیاسی شعور اور ضمیر کے فیصلے کے مطابق فوجی کیریئر کو خیرباد کہا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ اعلیٰ رینکس تک جا سکتا تھا'۔



پنجابی زبان کے مصنف، عالم اور دانش ور ڈاکٹر منظور اعجاز جو شفقت کے انتہائی قریبی دوستوں میں سے ایک اور سیاسی استاد بھی تھے، کہتے ہیں؛ 'میں امریکہ 1978 میں آیا تھا اور شفقت یہاں پہلے آیا ہوا تھا۔ شاید 1974 یا 75 میں'۔

ان دنوں شفقت نیویارک مینہٹن میں اپر ویسٹ سائیڈ کی 168 سٹریٹ پر رہا کرتا تھا۔ ڈاکٹر منظور اعجاز اور ذوالفقار گیلانی بھی شفقت خان کے ساتھ رہا کرتے تھے۔ بائیں بازو کے جگ مشہور سکالر ڈاکٹر اقبال احمد اور ڈاکٹر فیروز احمد بھی شفقت کے اپارٹمنٹ پر اکثر آیا کرتے تھے۔ کبھی کبھی منظور اعجاز سے ملنے معروف شاعر سرمد صہبائی بھی مہمان ہوا کرتے تھے۔

یہ جنرل ضیاء الحق کے ہاتھوں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا فوجی بغاوت کے ذریعے تختہ الٹ کر ملک پر مارشل لاء مسلط ہونے کا دور تھا اور اب شفقت خان کا اپارٹمنٹ نیویارک میں پاکستانی سیاسی منحرفین اور مارشل لاء مخالف لوگوں کا گڑھ بنا ہوا تھا۔

'تب نہ سیل فون تھا، نہ انٹرنیٹ، نہ کوئی سوشل میڈیا۔ ہم ہاتھ سے اردو میں پرچے اور پمفلٹ لکھا کرتے اور پھر پاکستانیوں کے اجتماعات اور علاقوں میں تقسیم کیا کرتے۔ عید وغیرہ جیسے موقعوں پر۔۔۔ نیویارک میں شفقت خان کے انہی دنوں کے ساتھی رضوان ندیم ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ '۔۔۔میں خود ان دنوں وال سٹریٹ پر کسی فنانشل کمپنی میں کام کرتا تھا۔ میری تنخواہ تو اتنی اچھی نہیں تھی لیکن میں ہاتھ سے اردو میں ضیاء مارشل لاء مخالف اور پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کیلئے پرچے اور پمفلٹ لکھ کر پھر چھپ کر دفتر کی فوٹو سٹیٹ مشینوں پر ان کی کاپیاں بنایا کرتا'۔

ڈاکٹر منظور اعجاز کہتے ہیں کہ شفقت کے اپارٹمنٹ سے ایک جریدہ بھی نکلا کرتا تھا جس کے انگزیری حصے کا ایڈیٹر شفقت اور اردو حصے کا منظور اعجاز ہوا کرتا تھا۔

پارٹی کا منشور ڈاکٹر منظور اعجاز نے لکھا تھا۔ ڈاکٹر منظور اعجاز کہہ رہے تھے؛ 'مجھ سے ملاقات سے پہلے شفقت لبرل ڈیموکریٹ تھا لیکن بائیں بازو کی جانب اس کے نظریات اور خیالات میری صحبت میں پیدا ہوئے'۔

پھر ڈاکٹر منظور اعجاز، ڈاکٹر اقبال احمد، فیروز احمد، ذوالفقار گیلانی اور شفقت خان نے پاکستان سوسائٹی فار ڈیموکریسی اینڈ جسٹس کی داغ بیل ڈالی۔ 'یہی دن تھے جب میری شفقت خان سے واقفیت ہوئی۔۔۔ رضوان ندیم کہتے ہیں۔ 'ہم اس تاک میں لگے رہتے تھے کہ پاکستان سے کون سا وزیر سفیر کس جگہ امریکہ کے دورے پر نیویارک آ رہا ہے۔ وہاں پہنچ جاتے اور ان سے سخت سوالات کرتے۔ احتجاج کرتے'۔

اسی طرح جب ضیاء کی آمرانہ حکومت میں وزیر خارجہ آغا شاہی ایشیا سوسائٹی نیویارک سے خطاب کرنے آئے تو شفقت خان اور اس کے ساتھی ایشیا سوسائٹی میں آغا شاہی کے پروگرام میں الگ الگ ہو کر بیٹھے اور ان پر سخت سوالات کی بوچھاڑ کر دی تھی۔

'انہی دنوں میں ایک مقامی لڑکی جینا شفقت کی محبوبہ یا گرل فریںڈ ہوا کرتی تھی جو ہم سب کی من پسند ہوا کرتی تھی۔ مگر شفقت اور ان کی علیحدگی ہو گئی کیونکہ شفقت چاہتے تھے کہ وہ ان کے ساتھ پاکستان جائے جبکہ جینا پاکستان نہیں جانا چاہتی تھیں'۔ منظور اعجاز بتاتے ہیں۔

شفقت اور ان کے ساتھیوں نے اقوام متحدہ کے صدر دفتر کے نزدیک ایسٹ 44 سٹریٹ پر واقع یو این چرچ سینٹر میں ایک سپیس حاصل کی جہاں انہوں نے 30 سے 40 کرسیاں رکھوا لیں۔ یہاں ہر مہینے کمیٹی فار ڈیموکریسی اینڈ جسٹس کے اجلاس ہوا کرتے۔ احتجاجی مظاہروں کے بھی منصوبے بنا کرتے۔

اسی طرح ایک احتجاجی مظاہرہ فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے جنرل اسمبلی سے خطاب کے موقع پر پاکستان کمیٹی فار ڈیموکریسی اینڈ جسٹس کے بینر تلے اقوام متحدہ کی عمارت کے سامنے کیا جا رہا تھا۔ نا جانے کس وقت شفقت خان جمہوریت کے ایک ہمدرد سینیئر صحافی کی مدد سے داخلہ پاس حاصل کر کے جنرل اسمبلی کی پریس گیلری میں جا پہنچا۔ اس کے بعد کی کہانی تاریخ کا حصہ ہے۔ اس کے بعد امریکی خفیہ سروس نے شفقت خان سے سخت سوالات کیے تھے۔

جنرل ضیاء الحق بہت ہی چالاک حکمران تھا۔ اس نے شفقت خان کے خلاف پاکستانی مشن کو کیس کی پیروی کرنے سے منع کر دیا کیونکہ اس میں سُبکی فوجی آمر ہی کی تھی۔

شفقت نے ایم بی اے کرنے کیلئے رٹگرس یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور اس کی پہلی بڑی ملازمت کیمیکل بینک میں ہوئی جو اب جے۔ پی۔ مورگن کہلاتی ہے۔ اسی کیمیکل بینک میں ہی ان کی ملاقات ڈیل ڈیوسن سے ہوئی جو دوستی اور پھر شادی میں تبدیل ہوئی۔ شفقت اور ڈیل کے نکاح کا ایک گواہ ڈاکٹر منظور اعجاز بھی تھا جبکہ ڈاکٹر اقبال احمد نے نکاح پڑھایا تھا۔ اس شادی سے ان کی ایک بیٹی کیسی اور ایک بیٹا نذیر ہے۔

کیمیکل بینک کے بعد انہوں نے سٹی بینک میں ملازمت کی اور سینیئر بینکر کے عہدے تک پہنچے۔

شفقت خان نے مجھے بتایا تھا کہ نکاراگوا میں سنڈینسٹا کی حکومت آنے کے بعد وہ ایک امریکی رضا کار گروپ میں بطور رضا کار نکاراگوا گئے تھے جہاں وہ کئی ماہ تک سنڈینسٹا کی مشقت کے کاموں میں مدد کرتے رہے تھے لیکن جب ان کو معلوم پڑا کہ وہ پیشے کے لحاظ سے بینکر ہیں تو پھر ڈینیئل اورٹیگا کی حکومت نے ان سے ملک میں بینک قائم کرنے کا کام لیا۔

شفقت خان نے آج سے 14 برس قبل سٹی بینک سے ریٹائرمنٹ لے لی تھی اور زیادہ وقت وہ پاکستان میں گزار رہے تھے جہاں انہوں نے ایک سیاسی پارٹی 'عوامی پارٹی پاکستان' قائم کی تھی اور ملک میں تبدیلی بذریعہ ووٹ چاہتے تھے۔

انہوں نے گزر بسر کیلئے برائے نام منافع بخش شمسی توانائی کی ایک کمپنی انڈس سولر کے نام سے قائم کی۔ وہ زیادہ تر چھٹیوں ہی میں نیویارک اپنے گھر آتے۔ ان کے قریبی دوستوں میں سے، جن کا مجھے معلوم ہے، ذوالفقار گیلانی، ڈاکٹر منظور اعجاز، نجم سیٹھی، افتخار احمد (ڈاکٹر اقبال احمد کے بھتیجے)، کرامت علی، سیدہ دیپ، عمر اصغر خان اور سندھ میں ان کے ساتھی کامریڈ بشیر ملاح تھے۔

ان کی آخری پبلک سرگرمی نیویارک میں بائیں بازو کے نوجوان لیڈر عمار علی جان کے اعزاز میں استقبالیہ تھا جو ہماری دوست اور صحافی ایلیا زہرا نے دسمبر میں دیا تھا جس میں شفقت خان بھی شریک تھے۔

ان کی آخری پبلک سرگرمی نیویارک میں بائیں بازو کے نوجوان لیڈر عمار علی جان کے اعزاز میں استقبالیہ تھا


پھر فروری میں شفقت اچانک بیمار پڑ گئے جبکہ انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ وہ زندگی بھر کبھی بیمار نہیں ہوئے تھے، یہاں تک کہ ان کو کبھی بخار بھی نہیں آیا تھا۔

پہلے وہ پیٹ میں شدید درد کی شکایت لیے نیویارک میں ایک اسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں داخل ہوئے۔ میں اسپتال میں جب انہیں ملنے گیا تو اگرچہ شدید درد میں تھے لیکن کہہ رہے تھے؛ 'میں پین کلر نہیں لے رہا کیونکہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ یہ درد کہاں تک جاتا ہے'۔ ان کے سرہانے قریبی ٹیبل پر کتاب 'جدلیاتی مادیت' رکھی ہوئی تھی۔

ڈاکٹروں نے انہیں تین دن ایمرجنسی روم میں رکھ کر چھٹی دے دی کہ اب وہ ٹھیک ہیں۔ لیکن پھر خون کے اندرونی خون کی وجہ سے جب وہ پھر واپس اسپتال آئے تو ڈاکٹروں نے ان میں سرطان کی تشخیص کی اور وہ بھی لاعلاج سٹیج پر۔ اب وہ گھر آ گئے تھے اور کچھ دنوں بعد ان کے ڈاکٹروں نے ان کی زندگی فقط 10 دن کی بتائی۔ میں ان سے ان کے گھر ملنے گیا تو وہ بستر دراز تو تھے لیکن اسی طرح تھے جس طرح شفقت ہوتے تھے، تجزیاتی اور نظریاتی لیکن حس مزاح ویسی ہی تیز تھی۔ کہنے لگے؛ 'میں نے تو اب 'ری کنسائیل' کر لیا ہے۔ میرے گھر والوں نے بھی۔ میری عمر اب 73 برس ہے۔ میں نے تو 64 برس تک کی زندگی سوچی تھی۔ آدمی ہارٹ اٹیک میں بھی تو مر سکتا ہے۔ میرے ڈاکٹر کہتے ہیں کہ وہ 2 ماہ مزید ان کو دے سکتے ہیں لیکن میں اپنے گھر والوں اور دوستوں کو تکالیف نہیں دینا چاہتا'۔

ان کی موت سے ایکہ ہفتہ قبل واشنگٹن سے ڈاکٹر منظور اعجاز ان سے ملنے آئے، ایک اور دوست مسعود کے ہمراہ۔ ہم مل بیٹھے۔ ہائنیکن بیئر پی، عمران خان اور فوج پر بھی بحث کی۔ ان کے حسن ابدال میں ہم سکولی ڈاکٹر ناصر گوندل بھی آ کر شامل ہوئے۔ شفقت بتا رہا تھا؛ اب شاموں کو ان کے بچے، بھانجے، بھانجیاں، بھتیجے، بھتیجیاں ان کے گرد جمع ہو جاتے ہیں اور بچپن کے قصے دہراتے ہیں۔ ایک دوسرے سے سنتے سناتے ہیں۔

گویا وہ ڈاکٹر منظور اعجاز سے ملاقات کے انتظار میں تھے۔ اور پھر 15 مئی کو۔۔۔

؎ وہ ہجر کی رات کا ستارہ، وہ ہم نفس ہم سخن ہمارا
سدا رہے اس کا نام پیارا، سنا ہے کل رات مر گیا وہ