اردو فکشن میں نئے اضافے

اردو فکشن میں نئے اضافے
خالد فتح محمد کا دماغ تحلیقی صلاحیت سے مالا مال ہے۔ پچھلے چند سالوں میں وہ فکشن کا ایک بہت بڑا نام بن کر سامنے آئے ہیں اور اوپر نیچے ناول اور افسانے لکھ کر قارئین تک اپنا کام پہچا رہے ہیں۔ ہر سال انکی کی ایک نئی کتاب منظر عام پر آتی ہے۔ شہر مدفون۔ اے عشق بلا خیز۔ زہنہ ۔۔ جیسے ناول اور افسانوں کا مجموعہ ہمارے سامنے موجود ہے اب ایک نیا ناول، سود و زیاں کے درمیان، منظر عام پر آیا ہے۔

اگرچہ یہ ناول انکے پچھلے دو ناولوں کے مقابلے میں اتنا توانا نہیں ہے چونکہ اس ناول کے لکھاری خالد فتح محمد ہیں لہذا اس پر بات کرنا ضروری ہے۔ وہ اس قدر میعاری کام کر چکے ہیں اور ان کا ادبی قد کاٹھ عصر حاضر کے 5 نامور فکشن لکھنے والوں میں ہوتا ہے۔

سود زیاں کے درمیان، ایک قصبہ کی کہانی ہے وہ گاؤں ہا قصبہ تبدیلی کے عمل سے گزر رہا ہے۔ خالد فتح محمد چونکہ مشاہدہ اور مطالعہ کی دولت سے مالامال ہیں وہ جب کسی شہر گاؤں کی کہانی لکھتے ہیں اسکی جزیات نگاری کا پورا خیال رکھتے ہیں۔ گاؤں کی دوکان پر فروخت ہونے والی تمام اشیاء کو پوری تفصیل اور تمہید سے بیان کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے اگر کسی ناول کی کہانی زیادہ موثر نہ بھی ہو خالد فتح محمد اپنے جاندار انداز بیان سے دلچسپ بنا دیتے ہیں اور قاری کو مکمل اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔

مطالعہ اور مشاہدہ کی دولت سے مالامال لکھاری کبھی فکری طور پر قلاش نہیں ہوتا وہ ایک عام کہانی کو بھی بھرپور اور دلچسپ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس ناول میں تبدیلی کے حقیقی عمل کی عکاسی کی گئی ہے جب بھی کوئی گاؤں یا شہر  تبدیلی کے عمل سے گزرتا ہے وہاں کیا کچھ وقوع پذیر ہوتا ہے۔ چودھری کا ڈیرہ جو طاقت کا اصل مرکز تھا اس کو ایک دوکان دار چیلنج کرتا ہے اور پس پردہ کردار کے طور اپنی دوکان میں بیٹھ کر اس زوال کا مزہ لیتا ہے۔ کسی بھی معاشرے میں تبدیلی ایک فطری عمل ہے۔

وقت اور حالات نے ہر صورت میں تبدیل ہونا ہوتا ہے۔ یہ اس سماج میں رہنے والوں پہ ہے۔ وہ تبدیلی کے عمل کو کیسے دیکھتے ہیں استحصالی طبقے سے طاقت چھین کر نچلا طبقہ کسیے طاقتور ہوتا ہے ۔ سود زیاں اس کے درمیان اسی تبدیلی کے عمل کی کہانی ہے۔  خالد فتح محمد کی کہانیوں میں عورت کا کردار بہت نمایاں ہوتا ہے۔ انکی عورت وفا کی پابند نہیں وہ سماجی اور جسمانی ضروریات کے مطابق اپنی وفاداری بدل لیتی ہے۔ خالد فتح محمد کبھی اپنی عورتوں کو وفا گر بنا کر پیش نہیں کرتے۔

جنس کے سیلاب کے آگے انکے کردار بہتے چلے جاتے ہیں۔ جنس جیسے فطری عمل کے آگے کوہی بھی ذی شعور انسان بند نہیں باندھ سکتا۔ عصر حاضر میں اس موضوع پر خالد فتح محمد سے بہتر کوئی نہیں لکھ سکتا ۔ سود و زیاں کے درمیان کو ایک بار ضرور پڑھیں۔

فصیل اقبال اردو افسانے کی دنیا میں ایک نیا اضافہ ہیں۔ انکی افسانوں کی پہلی کتاب ،حاجی صاحب، شائع ہورہی ہے۔ عوامی زبان میں لکھی ان کہانیوں کے پیچھے گہری رضایت پوشیدہ ہے۔ فصیل اقبال کا تعلق اس مکتب فکر سے ہے جو نہ تو جناتی زبان لکھتے اور نہ ہی فلسفہ کی گہری گتھیاں سلجھانے کے قاریین کو امتحان میں ڈالتے ہیں۔  وہ بیانہ انداز میں سماجی منظر کشی کرتے ہیں۔ اور بڑے بڑے سماجی المیے کو سادہ انداز میں بیان کر جاتے ہیں کہانی پر گرفت اس قدر مظبوط ہوتی ہے کہ قاری بہاؤ میں بہتا چلا جاتا ہے.

انکی کتاب افسانے اور افسانچے کے درمیان میں مختصر کہانیوں کا مجموعہ کی مرکزی کہانی حاجی صاحب بہت دلچسپ کہانی ہے جو ہمارے معاشروں اسیے کردار جابجا پائے جاتے ہیں جو ساری زندگی اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھتے ہیں مگر اولاد کی تربیت میں کوتاہی کر جاتے ہیں۔

اسی طرح کہانی ، میں جمعہ پڑھ رہا ہوں، بھی سماجی رویے کی نشاندہی کرتی نظر آتی ہے۔ فصیل اقبال ایک ادیب کے طور پر سماج کی نبض پر ہاتھ رکھ کر تمام بیماریاں بتا دیتے ہیں۔ جیسے الٹراساؤنڈ کی رپورٹ آنے کے بعد سب کچھ پتا لگ جاتا ہے۔ ایسے اس کہانی میں تاجروں کا فصیل اقبال نے الٹراساؤنڈ کیا ہے۔ کہانی مہلت، میں وہ علامت نگاری کی طرف جاتے نظرآتے کہانی کا موضوع علامت نگاری کا تقاضہ کرتا ہے۔

فصیل ایک سمجھدار فکشن لکھنے والے کے طور علامتی کہانی کو اس انداز سے لکھ گئے کہ عام قاری بھی انکی بات کی گہرائی تک پہنچ جاتا ہے اور اپنے شعور میں اضافہ ہی کرتا ہے۔ ایک بڑے سماجی مسئلے کو اس کہانی بیان کیا گیا ہے کہانی ،ناکہ، بہت شاندار ہے۔ جو معاشرے میں بسنے والے کی کہانی ہے جو خودفریبی کی زندگی بسر کرتے ہیں۔

درحقیقت یہ کہانی معاشرے کے اس اخلاقی زوال کو بیان کرتی ہے خودساختہ شوبازی میں مگن اور اپنے آپ کو فریب دینے میں مگن ہے نامور کہانی کار عاصم بٹ نے درست لکھا ہے ان کہانیوں کو ایک ہی بار ایک ساتھ پڑھنے کی خواہش رکھتے ہیں ۔ یہ ایک ادیب کی کامیابی ہے وہ قاری کو مجبور کر رہا ہے کہ آپ میری کتاب پڑھتے جایئے۔

فصیل اقبال پیشے کے اعتبار سے وکیل ہین۔ اس شعبے سے وابستہ افراد قانونی کتابوں کے مطالعے میں ہی مگن رہتے ہیں ظاہر ان کا رزق اسی کام سے وابستہ ہے فصیل اقبال قانونی کتابوں کے مطالعے کے بعد طویل صفحات پر مشتمل قانونی پیٹیشن تیار کرنے کے بعد فکشن پڑھنے کے ساتھ ساتھ لکھنے کا عمل بھی کرتے ہیں جو بہت شاندار بات ہے ۔حاجی صاحب کے ساتھ اردو افسانے کے دشت میں انکو خوش آمدید 

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔