پتی بھگت بانو آپا

پتی بھگت بانو آپا
لاہور شہر میں" داستان سرائے"کے نام سے کچھ عرصہ پہلےتک ایک گھرتھا۔ مجھ جیسے تازہ واردانِ بساطِ ادب ایک زمانے میں اس کے سامنے سے گزرتے ہوئے کن اکھیوں سے آدھ کھلے  گیٹ کے اندر جھانکنے کی کوشش ضرورکرتے۔ کبھی پروین عاطف چہرے پر دائمی مسکراہٹ سجائے گیٹ سے نکلتے ہوۓ نظر آ جاتیں اور کبھی روحی بانو اداس آنکھوں کو جھیل کئے بوجھل قدموں کے ساتھ گیٹ کے اندر داخل ہو رہی ہوتیں۔

تب ہم سوچتے کہ ارے مائے! کیسےکیسے لوگوں کا "داستان سراۓ"میں آنا جانا ہے اس وقت بھی مجھے اس بات کا یقین تھا کہ "داستان سراۓ"میں بیان کی جانے والی سب حکایات کا داستان گو " تلقین شاہ " ہی ہو گا مگر یہ بھید تو بہت عرصے بعد کھلا کہ"داستان سراۓ"میں سرمئی بالوں والی کم گو، آہستہ خرام عورت تو صرف پتی بھگت ہے۔

بانو آپا جو"شہر بے مثال"میں رہتی تھیں اور"آدھی بات" کہنے پر بھی پوری قدرت رکھتی تھیں، جس نے گدھ کو راجہ یوں بنایا کہ کئی نسلوں نے جب جوانی کی دہلیز ہر قدم رکھا تو اس کہانی کو پڑھتے ہوئے کتنی ہی راتیں آنکھوں میںکاٹ دیں۔ مگر بانو آپا ان سب باتوں سے بے نیاز اشفاق احمد خان کے نام کی مالا پہن کر مطمئن اور مسرور تھیں۔ آج سے کم و بیش بیس اوپر کچھ سال پہلے میں نے"راجہ گدھ" کے پروں پر بیٹھ کر"داستان سراۓ" کی چوکھٹ کوعبورکیا تھا۔

 

"علی پور کا ایلی"سے براستہ” شہاب نامہ"جب میں نے "راجہ گدھ" پڑھا تو اس کا جادو یوں سر چڑھ کر بولا کہ میں نے بانو آپا سے فون پر ملاقات کا وقت طلب کیا۔ بہاولنگر کا باسی میرا دوست شاھد زبیر لالیکا بھی بانو آپا سے ملاقات کاخواہاں تھا۔ جب ہم "داستان سراۓ"پہنچے تو بانو آپا نے صدر دروازے سے ڈرایئنگ روم کی طرف ہماری رہنمائی کرتے ہوئے ہم سے کہا کہ آج میں آپ کو ایک اور عظیم لکھاری سے ملواتی ہوں۔ یہ کہہ کر وہ خود گھر کے اندر چلی گئیں کچھ دیر بعد اشفاق احمد قمیض سے عینک کے شیشے صاف کرتے ہوۓ ڈرایئنگ روم میں داخل ہوئے۔ وہ گفتگو کے ماہر تھے انہوں نے لالیکا اور میرے حوالے سے اپنے وطن کے ڈانڈے بہاولنگر اور سرگودھا سے یوں ملاۓ کہ وہ کہا کریں اور سنا کرے کوئی۔

تھوڑی دیر بعد بانو آپا ایک ملازم کی مدد سے تین منزلہ میز پر چائے کےلوازمات سجائے جب دوبارہ ڈرائنگ روم میں آئیں تو اشفاق احمد کی باتوں کو یوں توجہ سے سننے لگیں جسے کوئی بالکا مرشد کے ہر لفظ کو انہماک سے سن کردانش و حکمت کے موتی چننے میں مگن ہو۔ وہ چائے کی پیالی پکڑ کر چغتائی کی پنسل ڈرائنگ کے نیچے رکھے صوفے پر بیٹھ گئیں تو میں اشفاق احمد کی دلفریب گفتگو کو یکسر نظر انداز کر کے بانو آپا کے پاس قالین پر بیٹھنے لگا انہوں نے بڑے سپاٹ لہجے میں کہا یہ ظلم نہ کر آگر تم قالین پر بیٹھو گے تو مجھے بھی نیچے بیٹھنا پڑے گا اور اب گھٹنے اس بات کی اجازت نہیں دیتے۔

مجھے اسی وقت اپنے اور ان کے مزاج کے تضاد کا اندازہ ہو گیا۔ میں سیمی،آفتاب،بابا ترت شاہ اور لارنس گارڈن میں لگے املتاس کے درخت کی بھول بھلیوں سے مصنفہ کی رہنمائی میں نکلنا چاہتا تھا۔ مگر عین اسی وقت پر ایک خوبرو سکھ نوجوان کی آمد نے گفتگو کا رخ اشفاق احمد کے"کھیل تماشا" کے اقبال سنگھ کی طرف موڑ دیا ( اشفاق احمد غالبًا اس زمانے میں کھیل تماشا لکھ رہے تھے )۔

میں نے گھر جاتے ہی بانو آپا کو ایک خط لکھا جس کے جواب میں انہوں نے"راجہ گدھ" کی تخلیق کی وجہ حلال و حرام کے فلسفے کو قرار دیتے ہوۓ مجھے جوابی خط لکھا تھا۔

عزیزم آثم سلامت رہو خوش رہو

اسلام علیکم

تمھارا خط ملا۔ کتابیں پہنچا دینے کا بہت بہت شکریہ۔ راجہ گدھ کے متعلق کیا عرض کروں۔بات اتنی سی ہے کہ سن 80 میں یہ بات مجھ پر کھل رہی تھی کہ معاشرے میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے یہ رزق حرام کے باعث ہے۔ سارے معاشرے میں تبخیر لگ چکا ہے اب فقط پھولنے سٹر جانے کی کسر ہے۔ خیال سادہ تھا اور کہانی پیچیدہ مشورے اور لکچر کو آرائش میں چھپا کر کتاب لکھی گئ۔ میرا خیال ہے کہ تمام مذاہب گو باہم متشکل ہیں۔ لیکن رزقِ حرام کا کوئی تصور کسی اور مذہب میں موجود نہیں۔ اللٰہ نے یہ تصور صرف آخری دین میں ہی دیا ہے۔

خط کے لۓ ایک بار پھر شکریہ۔

مخلص

بانو آپا

27.2.2000

( اس خط میں بانو آپا نے میرے نام کی املا کچھ عجب انداز سے کی ہے )

جب برسوں بعد میں نے"راجہ گدھ" کو دوبارہ پڑھنے کی کوشش کی تو مجھے سخت مایوسی ہوئی میں نے اس کا ذکر بانو آپا سے کیا تو انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ یہ مسئلہ اکثر لوگوں کے ساتھ ہے۔ مگر میں اب سوچتا ہوں کہ قرةالعین حیدر اور انتظار حسین کو پڑھنے کے بعد"راجہ گدھ" نے مجھے مایوس تو کرنا ہی تھا۔ بانو آپا کے حوالے سے میں کئی لوگوں سے متعارف ہوا جو میری شخصیت پر کئی حوالوں سے اثرانداز ہوئے۔ ایک روز میں نے کہا مجھے بھی کسی بابے کے پاس لے چلیں پہلے تو کچھ ٹال مٹول سے کام لیا مگر میرے اصرار پر وہ مجھے نہر کنارے ایک وسیع و عریض گھر کی انیکسی میں لے گئیں۔ جہاں مریض ڈاکٹر سے ملنے کے لۓ اپنی باری کے منتظر بیٹھے تھے۔ بانو آپا اور میں بھی ایک بینچ پر بیٹھ گئے۔ جیسے ہی ڈاکٹر صاحب کو بانو آپا کی آمد کی اطلاع ملی انہوں نے بانو آپا کو اندر بلا لیا۔ میرا تعارف کرواتے ہوئے، ڈاکٹر صاحب کو کہنے لگیں یہ ناسمجھ بھی ہے اور ضدی بھی آپ اس کے لئے دعا کیجئے گا۔ یوں میرا طارق درانی صاحب سے رابطہ ہوا جو پیشے کے لحاظ سے تو ڈاکٹر تھے مگر صاحب نظر اور صاحب دعا بھی تھے۔ کبھی فرصت ملی تو ان کے بارے بھی تفصیل سے لکھوں گا۔

بانو آپا ہر بات کو مشورے اور نصیحت کے پیرائے میں بڑی خوبصورتی کے ساتھ بیان کرتیں۔ ایک دفعہ میں ملنے گیا تو وہ نماز ہڑھنے میں مصروف تھیں۔ جیسے ہی انہوں نے سلام پھیرا میں نے کہا میرا نماز میں دل نہیں لگتا ( اور یہ کمبخت آج تک نہیں لگتا ) تو انہوں نے مجھے کئی مہینے بعد یہ خط لکھا۔

عزیزم عاصم سلامت رہو خوش رہو۔

اسلام علیکم

تمھاراخط ملا۔ توجہ کا بہت بہت شکریہ۔

نماز کے متعلق تم نے پوچھا ہے کہ دل اس فریضے میں نہیں لگتا۔ بھلا احکام ماننے میں ہمیشہ تو خوشی نہیں ہوتی۔ آداب بجا لانے میں دائم راحت کا وعہدہ بھی تو نہیں ہے۔ کچھ احکام ایسے ہوا کرتے ہیں۔ جو اپنی انا کی تادیب کے لۓ مانے جاتے ہیں۔ تکبر سر اٹھانے لگے تو اسکی سرکوبی کی جائے نماز بھی ایسے ہی احکامات میں سے ہے۔ پانچ وقت مسجد جانے سے انا کی تہذیب ہو جاتی ہے۔

مشکل کام ہے۔ جیسے روز دانت صاف کرنا، کنگھی پھیرنا، ماں باپ برے بھی لگیں تو سلام کر لینا۔ یہ مشکل کام آخر کو طبیعت ثانیہ ہو جاتے ہیں۔ اور ان کا بوجھ محسوس نہیں ہوتا۔

دعاؤں کے ساتھ 

خیر اندیش

بانو آپا

4.3.03

جب ان کی خود نوشت شائع ہوئی تو انہوں نے اس کی ایک کاپی دستخط کر کے مجھے دی جو میں نے اسلام آباد میں مقیم اپنے ایک کرم فرما اور بانو آپا کے عقیدت مند کو دے دی۔ بانو آپا کے کئی خط میرے نام تھے۔ اب ڈھونڈنے بیٹھا تو صرف چند ہی ہاتھ لگے ہیں۔ جب بھی ان سے ملاقات ہوتی تو وہ گورنمنٹ کالج کا ذکر ضرور کرتیں۔ جس طرح اشفاق  احمد کی ہر بات نور والے بابا کے کسی قول سے شروع ہوتی یا ان کے کسی قول پر ختم ہوتی، اسی طرح بانو آپا کی ہر بات کا بنیادی حوالہ اشفاق صاحب کی ذات تھی۔ اشفاق صاحب سے محبت اور عقیدت شائد ان کی سرشت کا حصہ تھا اور وہ اپنی شخصیت کو کہیں بہت پیچھے چھوڑ کر صرف پتی بھگت کے طور ہر متعارف ہونے کو اپنے لۓ فخرسمجھتی تھی۔

وہ بہت زیادہ مہمان نواز تھیں۔ بعض اوقات تو ان کے گھر جا کرالجھن محسوس ہوتی۔ وہ بولنے سے زیادہ سننے کی قائل تھیں انہوں نے عزت شہرت اور ناموری کے ساتھ طویل عمر پائی۔ ان کے فن پر تو بات کی جا سکتی ہے مگر ان کیشخصیت کبھی بھی متنازعہ نہیں رہی۔

آخری عمر میں وہ اس بات کا اکثر پرچار کرتیں کہ مرد کا کام کفالت کرنا ہے اور عورت کا کام پرورش، کیونکہ عورت مستقبل کی نسل کی آمین ہے۔ آخری سالوں میں ان کا زیادہ تر وقت وظائف اور عبادت میں صرف ہوتا شاہد اسی وجہسے افسانوی نثر کے حوالے ان کی کوئی کتاب منظر عام ہر نہ آ سکی۔

“داستان سراۓ” میں اب خدا جانے کون مقیم ہے؟ میں نے کچھ کہانیاں بھی“داستان سراۓ” میں سنیں اور کچھ خواب جیسے لوگوں سے وہاں ملاقات بھی ہوئی۔ سنا ہے بانو آپا کے جانے کے کچھ عرصہ بعد"داستان سراۓ" کی پیشانی پر براۓ فروخت کا بورڈ آویزاں کر دیا گیا وہی در و دیوار اب خواب جیسے لوگوں کی میزبانی کے لۓ ترستے ہوں گے جو اب وہاں مقیم ہوں وہ روز ایک دلپذیر کہانی،حکایت کی تخلیق کے کرب سے بھلا کب آشنا ہوں گے۔ مجنوں کے مرنے پر تو جنگل اداس ہو گیا تھا یہ جو لاہور شہر بے مثال تھا، اس کو کس کی نظر لگ گئی کہ لوگ اٹھتے جاتے ہیں اور زندہ رہنے والے بھولنے کی خُو رکھتے ہیں۔