25 جولائی 2018 سے 25 جولائی 2020: الیکشن میں سلیکشن اور 'ان ایکشن' کی کہانی

25 جولائی 2018 سے 25 جولائی 2020: الیکشن میں سلیکشن اور 'ان ایکشن' کی کہانی
2018 کے انتخابات کے نتیجے میں جو حکومت آئی، اس کے سربراہ کو اس کے مخالفین ’Selected‘ پکارتے ہیں، اور اس لفظ سے حکومت اتنا چڑ گئی کہ 23 جون 2019 کو ہونے والے پارلیمنٹ کے اجلاس کے دوران ایک موقع پر ہری پور سے پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما عمر ایوب خان اتنے بھڑک اٹھے کہ انہوں نے قومی اسمبلی میں وزیر اعظم کے لئے اس لفظ کے استعمال پر ہی پابندی لگانے کا مطالبہ کر ڈالا۔ اور ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری جو اس وقت اجلاس کی صدارت کر رہے تھے، بھی اپنے پارٹی قائد کے لئے اس لفظ کے بار بار استعمال کے باعث اتنے تنگ آ چکے تھے کہ انہوں نے اس مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے اعلان کیا کہ آج کے بعد اسمبلی میں اس لفظ کے استعمال پر پابندی ہو گی۔

یہ لفظ وزیر اعظم عمران خان کے لئے پہلی مرتبہ الیکشن 2018 کے بعد قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں استعمال کیا گیا جہاں پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے عمران خان کو وزیر اعظم بننے کی مبارکباد دیتے ہوئے انہیں ’selected‘ کہہ کر پکارا تھا۔ لیکن ایسا کیوں کہا گیا؟

جولائی 2017 میں حکمران جماعت مسلم لیگ نواز کے سربراہ اور اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کو پانامہ لیکس کے سامنے آنے کے بعد چلنے والے کیس میں نااہل قرار دیا گیا تو مسلم لیگ نواز کی جانب سے یہ بیانیہ بنایا گیا کہ نواز شریف کو نکالنے کی وجہ ان کی مالی کرپشن نہیں بلکہ ان کا سول بالادستی کا نظریہ ہے۔

مسلم لیگ نواز نے ’ووٹ کو عزت دو‘ کا نعرہ اپنایا اور اس دوران بار بار یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ ان کا مقابلہ اپوزیشن سے نہیں بلکہ ملک کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ سے ہے۔ نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے اس دوران لندن میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کا مقابلہ عمران خان سے نہیں بلکہ کسی اور سے ہے۔ اسی طرح خود نواز شریف نے 2 مئی 2018 کو صادق آباد میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا مقابلہ کسی آصف زرداری یا عمران خان سے نہیں، بلکہ ایک خلائی مخلوق سے ہے۔

غرضیکہ اس الیکشن سے قبل مسلم لیگ نواز کی جانب سے یہ بیانیہ بنا دیا گیا کہ اس کی مقبولیت کم کرنے کے لئے اسٹیبلشمنٹ نے نواز شریف کو اقتدار سے نکالا ہے اور اب عمران خان اس کے آلہ کار ہیں۔ اس میں کس حد تک حقیقت تھی، یہ تو خدا ہی بہتر جانتا ہے لیکن اس کے بعد جو بھی مسلم لیگی امیدوار پارٹی چھوڑ کر پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہوتا، اسے نواز لیگ کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ کی کارستانی بتایا جاتا۔ انتخابات کے دن پولنگ سٹیشنز پر پاک فوج کی بڑی تعداد میں موجودگی، میڈیا نمائندوں کو پولنگ سٹیشینز کے اندر جا کر حالات کا جائزہ لینے میں رکاوٹوں اور رات کے وقت نادرا کا RTS نظام بند ہونے کے باعث اس تاثر کو تقویت ملی کہ دال میں کچھ کالا ہے۔

اس سب کے نتیجے میں عمران خان کی جیت کو یوں کہا جائے کہ رنگ میں بھنگ ڈالنے میں اپوزیشن کو خوب مدد ملی تو بے جا نہ ہوگا۔ الیکشن کی رات کو ہی پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے ایک پریس کانفرنس کی گئی جس میں سندھ کے مختلف پولنگ سٹیشنز پر ان کے پولنگ ایجنٹس کو پولنگ سٹیشنز سے باہر بھیجے جانے، انہیں فارم 45 نہ دینے اور انتخابات کے نتائج روکنے اور تبدیل کرنے کی شکایات کی گئیں۔ اسی اثنا میں خبر آئی کہ پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری لیاری سے الیکشن ہار گئے ہیں۔ کچھ ہی دیر بعد Human Rights Commission of Pakistan کی طرف سے بھی پریس کانفرنس کی گئی جس میں انتخابات کی شفافیت پر سوالات اٹھائے گئے۔ مسلم لیگ نواز کی جانب سے بھی ایک پریس کانفرنس کی گئی جس میں انہی مسائل کو میڈیا کے سامنے رکھا گیا۔

تاہم، رات دیر گئے نتائج بالآخر دوبارہ سے آنا شروع ہو گئے۔ RTS سسٹم تو دوبارہ چالو نہ ہو سکا، لہٰذا پریزائڈنگ اور ریٹرننگ آفیسرز ہاتھ سے ہی کاغذوں پر نتائج لکھ کر دینے پر مجبور تھے۔ کئی گھنٹوں تک یہ تماشہ جاری رہا۔ اس دوران ایسی خبریں بھی آئیں کہ گراؤنڈ پر موجود رپورٹرز کے پاس الیکشن نتائج نہیں ہیں لیکن ان کے چینلز پر الیکشن نتائج نشر کیے جا رہے ہیں۔

بالآخر الیکشن کے نتائج مکمل ہوئے تو سامنے آیا کہ پاکستان تحریک انصاف 116 نشستوں کے ساتھ ملک کی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری تھی جب کہ مسلم لیگ نواز دوسرے اور پاکستان پیپلز پارٹی تیسرے نمبر پر رہی۔ پنجاب میں مسلم لیگ اور پی ٹی آئی نے برابر نشستیں حاصل کیں لیکن وفاق میں حکومت چونکہ تحریک انصاف کی بننے جا رہی تھی، اس لئے غالب امکان یہی تھا کہ پنجاب میں بھی آزاد امیدوار پی ٹی آئی میں جانا پسند کریں گے۔ اور وہی ہوا۔

الیکشن نتائج مکمل ہوئے تو ملک بھر میں دھاندلی کا شور مچ گیا۔ سب سے زیادہ بلند آواز مولانا فضل الرحمٰن کی تھی جو ڈیرہ اسماعیل خان سے اپنی آبائی نشستیں بھی تحریک انصاف کے امیدواروں سے ہار گئے۔ جمعیت علمائے اسلام کا خیبر پختونخوا سے تقریباً صفایا ہو گیا لیکن بلوچستان میں پارٹی کچھ نشستوں پر کامیاب رہی۔ مسلم لیگ نواز کے صدر شہباز شریف نے الزام لگایا کہ ان انتخابات میں تاریخ کی بدترین دھاندلی کی گئی۔ متعدد حلقوں میں دوبارہ گنتی کی درخواستیں دی گئیں اور کئی جگہ احتجاج بھی ہوئے۔

ان انتخابات میں 30 قومی اسمبلی کے حلقے ایسے تھے جن میں جیتنے والے امیدوار اور دوسرے نمبر پر رہنے والے امیدوار کے ووٹوں کی تعداد میں فرق اس حلقے میں مسترد شدہ ووٹوں کے مقابلے میں کم تھا۔ حیرت انگیز طور پر ان 30 میں سے دو نشستیں وزیر اعظم عمران خان کی تھیں جو کہ ایک ہی الیکشن میں پانچ نشستوں سے جیت کر نیا ریکارڈ قائم کر چکے تھے۔ ان میں سے ایک سیٹ لاہور کی این اے 131 تھی جہاں انہوں نے مسلم لیگ نواز کے سینیئر رہنما خواجہ سعد رفیق کو 680 ووٹوں سے شکست دی جب کہ اس حلقے میں مسترد شدہ ووٹوں کی تعداد 2835 تھی۔ ان کا دوسرا حلقہ جہاں سے جیت کا مارجن مسترد شدہ ووٹوں سے کم تھا وہ خیبر پختونخوا میں بنوں کا حلقہ تھا جہاں متحدہ مجلس عمل کے اکرم خان پر ان کی برتری 7002 ووٹوں کی تھی جب کہ اس حلقے میں مسترد شدہ ووٹوں کی تعداد 7356 تھی۔

سندھ میں جی ڈی اے کی فہمیدہ مرزا نے پیپلز پارٹی کے مولا بخش چانڈیو کو 860 ووٹوں سے شکست دی تو یہاں دس ہزار سے زائد ووٹ مسترد ہوئے تھے۔ جی ڈی اے کا بھی تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد تھا۔ جیکب آباد میں محمد میاں سومرو نے پیپلز پارٹی کے اعجاز خان جاکھرانی کو 5398 ووٹوں سے شکست دی تو یہاں مسترد شدوہ ووٹوں کی تعداد 13 ہزار 660 تھی۔ ایسی ہی صورتحال سندھ کی کم از کم تین اور پنجاب کی پانچ نشستوں پر دیکھنے میں آئی۔

کراچی سے پاکستان تحریک انصاف کے فیصل واؤڈا نے مسلم لیگ نواز کے صدر شہباز شریف کو این اے 249 سے شکست دی تو یہاں بھی جیت کا مارجن مسترد شدہ ووٹوں سے کہیں کم تھا۔ پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری لیاری سے شکست کھا گئے۔ ایسا نہیں تھا کہ تمام ایسی نشستوں پر تحریک انصاف ہی جیتی ہو۔ بلکہ تحریک انصاف کی ایسی نشستوں پر جیت کی شرح اس کی جیتی ہوئی کل نشستوں کے تقریباً برابر ہی تھی۔ لیکن اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے فاتح جماعت کے بارے میں یہی بیانیہ بنانے کی کوشش کی گئی کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے اور اس کا فائدہ پی ٹی آئی کو پہنچا ہے۔

سونے پہ سہاگہ یہ ہوا کہ کچھ نشستوں پر چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے دوبارہ گنتی کو رکوا دیا گیا۔ ان میں سے دو نشستیں تحریک انصاف اور مسلم لیگ نواز کے سربراہان کی تھیں۔ خواجہ سعد رفیق نے لاہور ہائی کورٹ میں دوبارہ گنتی کی درخواست دی جو کہ قبول بھی ہو گئی لیکن عمران خان نے سپریم کورٹ سے اس پر حکم امتناع کی درخواست کی جو کہ قبول کر لی گئی۔ دوسری جانب مسلم لیگ نواز کے صدر شہباز شریف نے فیصل واؤڈا سے شکست کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا اور دوبارہ گنتی کی درخواست دی۔ سندھ ہائی کورٹ نے اس نشست کا نتیجہ دینے سے روک دیا تو ایک بار پھر سپریم کورٹ میں درخواست دائر ہوئی اور سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے نتائج کے اعلان کی اجازت دے دی۔

مری سے شاہد خاقان عباسی اور لیاری سے بلاول بھٹو زرداری کی شکست نے بھی بہت سے سوالات کو جنم دیا۔ شاہد خاقان عباسی کے حلقے میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی متعدد رپورٹس کے مطابق زبردستی رکوائی گئی۔ ایک موقع پر مسلم لیگ ن کے کارکنان کی جانب سے مری کچہری کا گھیراؤ بھی کر لیا گیا تھا جس کے بعد مری شہر میں خاصہ تناؤ کا ماحول رہا لیکن پھر یہ دوبارہ گنتی ہو ہی نہیں سکی اور شاہد خاقان عباسی نے اس پر مزید قانونی کارروائی کرنے سے انکار کر دیا۔ بعد ازاں وہ این اے 124 سے حمزہ شہباز کی چھوڑی ہوئی نشست سے منتخب ہو کر قومی اسمبلی میں پہنچے لیکن گذشتہ دو سال میں سات ماہ جیل میں بھی گزار چکے ہیں۔

متحدہ اپوزیشن نے انتخابات کے بعد اسلام آباد میں احتجاج کرنے کا اعلان کیا لیکن ان کی ریلی انتہائی مایوس کن رہی۔ اس کے بعد ایک اے پی سی بلائی گئی جس میں مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے شدید مخالفت کے باوجود دونوں بڑی جماعتوں نے قومی اسمبلی میں جانے اور حلف اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ ان جماعتوں نے انتخابات کے خلاف ایک وائٹ پیپر جاری کرنے کا بھی اعلان کیا تھا لیکن دو سال گزر جانے کے باوجود ایسا کوئی وائٹ پیپر منظر عام پر نہیں آ سکا۔ اور بالآخر وزیر اعظم عمران خان کو ’Selected‘ کہنے پر ہی اکتفا کرتے ہوئے موجودہ اسمبلیوں کو قبول کر لیا گیا۔