یورپ جانے والے نوجوان پناہ گزینوں کے خواب جو ترکی کے پہاڑوں میں جاکر ڈھانچوں میں بدل گئے

یورپ جانے والے نوجوان پناہ گزینوں کے خواب جو ترکی کے پہاڑوں میں جاکر ڈھانچوں میں بدل گئے
غربت اور جنگوں سے متاثرہ ترقی پزیر ممالک کے شہری اچھے مستقبل کے لئے غیر قانونی طریقوں سے ترقی یافتہ ممالک میں جانے کی کوشش کرتے ہیں اور انسانی سگنگ کے گروہوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق غیر قانونی طریقوں سے ترقی یافتہ ممالک میں جانے والوں کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہوتا ہے۔

پناہ گزینوں کے عالمی ادارے آئی او ایم کے مطابق 2019  میں کیے گئے سروے کی رو سے نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد 272 ملین تک پہنچ گئی ہے، جو کہ 2010 کے مقابلے میں 51 ملین زیادہ ہے۔ پناہ گزینوں کے مسائل اور معاملات سے متعلق آگہی و شعور بیدار کرنے اور سیاسی رضامندگی حاصل کرنے کے لیے اقوام متحدہ ہر سال پناہ گزینوں کا عالمی دن مناتی ہے۔

پاکستان میں نوجوانوں کے ہاں غیر قانونی طریقے سے باہر جا کر سیٹل ہونے کا رجحان بھی زور پکڑ گیا ہے۔ انسانی سمگلنگ کے ہتھے چڑھنے والے ایسے ہی گروہ کی کہانی قارئین کے ساتھ شئیر کرتے ہیں۔

فراز خان اور ان کے والدین  بظاہر تو خیبر پختونخوا  کا ایک متوسط اور خوشحال گھرانہ تھا مگر والدین اور گھر والوں کا ایک ہی خواب تھا کہ وہ دوسرے کزنز کی طرح  فراز بھی یورپ جاکر اپنے گھر والوں کی زندگی کے دن بدل دیں ۔ فراز خان اپنے والدین کی خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کوئی بھی قدم اُٹھانے کے لئے تیار تھے مگر ایک کم پڑھے لکھے انسان کے لئے یورپ جانا کسی خواب سے کم نہ تھا۔ فراز کے ماموں اور چچا کے بیٹے کئی سال پہلے غیر قانونی طریقوں سے یورپ کے مختلف ممالک میں داخل ہوچکے تھے اور اج کل ایک خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔

فراز نے یورپ جانے کے لئے کچھ رقم کا بندوبست کیا اور پشاور میں انسانی اسمگلنگ میں ملوث ایک ایجنٹ سے یورپ جانے کی بات کی اور رقم ادا کردی۔ جون 2020 میں فراز خان نے ایجنٹ کے احکامات پر کراچی کا سفر شروع کیا اور کراچی سے ہوائی جہاز کے زریعے ایران کے شہر مشہد پہنچے۔ مشہد میں ایجنٹ نے فراز خان کا استقبال کیا اور پھر ایک گھر لے کر گئے جہاں ان کے دوسرے ساتھی بھی  یورپ جانے کے انتظار میں بیٹھے تھے۔

فراز خان کے مطابق مشہد شہر کے اس گھر میں ایک سو ساٹھ کے لگ بھگ دوسرے لوگ بھی موجود تھے جن میں زیادہ تر پاکستان اور افغانستان کے شہری تھے جو میری طرح یورپ جانے کے لئے بے تاب تھے۔ ایران کے شہر ماکو اور آگے استنبول پہنچنے کی تیاری تک ہم نے مشہد میں قیام کیا جہاں نہ صرف صفائی کا بُرا حال تھا بلکہ کھانا بھی اتنا غیر معیاری مل رہا تھا کہ ہم زندہ رہنے ہی کے لئے کھا رہے تھے کیونکہ اور کوئی راستہ نہیں تھا۔

فراز کے مطابق ایجنٹ نے میں کئی بار مارا پیٹا اور مارنے کی دھمکی دی لیکن ہم خاموش تھے کیونکہ ہم مجبور تھے۔ کچھ دن گزرنے کے بعد ہم نے ایران کے سرحدی شہر ماکو کا سفر شروع کیا اور ماکو پہنچنے کے بعد ایجنٹ  نے تما م لوگوں کو پانچ گروپوں میں تقسیم کیا گیا۔ ایجنٹ نے ہمیں ہدایات دیں کہ آہستہ آہستہ  ترکی  بارڈر کی طرف پیش قدمی شروع   کرو جس کے بعد ایجنٹ وہاں سے واپس روانہ ہوئے۔

میرے ساتھ دو دوست تھے اور دونوں کا تعلق افغانستان سے تھا ۔ ایک دوست ہزارہ جبکہ دوسرا دوست فارسی بولنے والا تھا۔ اگے چلتے ہوئے ہمیں سیٹھیوں اور ہوائی فائرنگ کی آوازیں آنا شروع ہوئی مگر ہم نے پیش قدم جاری رکھی اور سر نیچے کرتے ہوئے ہم پہاڑ کے دامن پر پہنچ چکے تھے (یہ ایک ناممکن سفر تصور کیا جاتا ہے اور اس لئے ان پہاڑوں کو کالے پہاڑوں کا راستہ کہا جاتا ہے)۔ فراز خان کے مطابق یہ بارہ گھنٹے پر محیط کٹھن اور مشکل ترین  سفر ہے اور ایجنٹ نے ہمیں احکامات دئیے تھے کہ ان پہاڑوں پر ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہے کیونکہ پاؤں پھسلنے کی صورت میں موت ہر صورت یقینی ہے۔ فراز خان کے مطابق جب ہوائی فائرنگ کی آوازقریب ہوتی گئی  تو میرے ساتھ فارسی بولنے والا نوجوان گھبرا گیا اور وہ بار بار راستے میں گرتا رہا  مگر میں نے ان کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑرکھا تھا تاکہ وہ گر نہ جائے۔

فراز خان کہتے ہیں ہم نے پیچھے کی طرف دیکھا تو ترکی بارڈر فورس کے جوان ہمارا پیچھا کررہے تھے  اور ہم آگے کی طرف بڑھ رہے تھے، کچھ وقت بعد ہم نے دیکھا کہ ہمارے پیچھے آنے والے مسافروں کو انھوں نے گرفتار کیا تھا۔ مگر بغیر کوئی پروا کئے ہم آگے بڑھتے گئے اور آگے جانے کی جدوجہد میں ایک دوسرے سے دور ہوتے گئے ۔ کچھ ہی لمحوں بعد  مجھے میرے ہزارہ دوست کی چیخ سنائی دی جب میں نے پیچھے مُڑ کر دیکھا  تو وہ خون میں لت پت پڑا تھا ۔ ان کو دیکھتے ہی میرا حوصلہ کمزور پڑگیا مگر یورپ جانے کی لالچ انسان کے اندر انسانیت کو ماردیتی ہے لہذا میں آگے بڑھتا گیا اور آگے  جاکر ایک پتھر کے ساتھ پناہ لی ۔

فراز خان کے مطابق جو لوگ راستوں میں  مخالف فوج کے گولیوں کا شکار ہوجاتے ہیں  یا پہاڑ سے گر جاتے ہیں ان کی لاشیں وہیں چھوڑ دی جاتی ہیں جس کا چند قدم آگے جاکر مجھے ادراک  ہوا۔ ترکی فوج نے ایک خاموشی کے بعد روشنیوں  سے ہمارے لوکیشن کا تعین کیا اور پھر کچھ وقت بعد خاموشی چھا گئی۔ میں نے اسی پتھر کے ساتھ پناہ لیکر رات  گزاری۔ سخت گرمی کے موسم میں میرے پاس ایک نارمل پانی کی بوتل اور مونگ پھلی کے کچھ پیکٹس تھے۔ پوری رات خوف اور ڈر سے نیند نہیں آئی ۔ صبح ہوتے ہی میں نے آس پاس دیکھا  تو وہاں کوئی بھی نہیں تھا لہذا میں نے اگے کی طرف پیش قدمی شروع کردی۔کچھ سفر کے بعد جب جنگلات کا سلسلہ شروع ہوا تو میرا حوصلہ جواب دینے لگا کیونکہ وہاں ہر طرف انسانی ڈھانچوں کی ہڈیاں تھی،  کہیں کھوپڑی ، کہیں پاؤں تو کہیں ہاتھ ۔ میں زمین پر بیٹھ گیا کیونکہ یہ انسانی ڈھانچے نہیں بلکہ  نوجوانوں کے خواب تھے جو ترکی کے ان پہاڑوں میں ریزہ ریزہ ہوچکے تھے ۔ نہیں معلوم کتنے خواب ان ڈھانچوں کے ساتھ خاک میں مل چکے ہونگے۔

فراز خان کہتے ہیں انسانوں ڈھانچوں کو دیکھتے ہوئے ان کے دل میں یورپ جانے کی خواہش نفرت میں بدل گئی اور انھوں نے واپس جانے کا فیصلہ کیا۔ میں ان ڈھانچوں کے سامنے کئی گھنٹے بیٹھ کر روتا رہا کہ اچھی زندگی گزارنے کے خواب نے انسانوں کو ان جنگلات میں خاک میں ملا دیا تھا۔ میں نے اپنا بیگ اُٹھایا اور واپس ترکی بارڈر فورس کی جانب  پیش قدمی شروع کی اور اپنے آپ کو ترکی پولیس کے حوالے کردیا۔ فراز خان کہتے ہیں ترکی پولیس نے رضاکارانہ واپسی کے بعد ان پر کوئی تشدد نہیں کیا ۔ گرفتاری کے بعد بارڈر فورس نے مجھے جیل حکام کے حوالے کیا ۔ فراز خان کہتے ہیں تین مہینے ہم نے ترکی کے جیل میں گزارے جہاں اُبلا ہوا کھانا ملتا تھا اور میں پاکستانی کھانوں کے لئے ترس چکا تھا۔ تین مہینے جیل گزارنے کے بعد میں جیسے ہی کراچی پہنچا تو وہاں کے ایک مقامی ہوٹل میں مسور دال کا کھانا کھایا اور مجھے ایسے لگا جیسے یہ میری زندگی کا بہترین کھانا تھا ۔ گھر پہنچتے ہی گھر والوں نے مجھے گلے سے لگایا اور میں نے فیصلہ کیا کہ میں پاکستان میں سڑکوں پر پتھر توڑونگا ، دیہاڑی لگاؤنگا یا کچھ اور کرونگا لیکن یورپ نہیں جاؤنگا۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔