پاکستان کی مسیحی اقلیت بڑھتی بیروزگاری کا بدترین شکار، نوجوان شراب بنانے پر مجبور

پاکستان کی مسیحی اقلیت بڑھتی بیروزگاری کا بدترین شکار، نوجوان شراب بنانے پر مجبور
2017 کی مردم شماری رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس وقت کرسچن کمیونٹی کی آبادی 2,092,902 ہے جو کل آبادی کا 1.27 فیصد بنتا ہے۔ گو کہ آئین پاکستان میں انہیں مساوی حقوق دیے گئے ہیں مگر سماجی رویوں کے باعث ان سے کیے جانے والے امتیازی سلوک نے نہ صرف ان کی سماجی زندگی بلکہ معاشرتی اور معاشی زندگی پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔

پاکستان میں جہاں ایک طرف بہت بڑی آبادی کو بے روزگاری جیسے مسائل کا سامنا ہے وہیں مسیحی آبادی اور خاص طور پر مسیحی نوجوانوں میں یہ شرح کہیں زیادہ ہے۔ بہت سے مسیحی نوجوان نوکریاں نہ ہونے کے باعث بے روزگاری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ معاشرے میں ان کے پاس خاکروب، صفائی ستھرائی اور سینٹری کے کام کے علاوہ کوئی با عزت روزگار موجود نہیں۔

حالیہ چند سالوں میں حکومت اور حکومتی اداروں کے ایسے اشتہارات سامنے آئے جہاں سوئیپر کی نوکری کی قابلیت صرف یہ لکھی گئی کہ اس کا اقلیت سے تعلق ہونا ضروری ہے گویا کوئی صرف غیر مسلموں کے لئے ہے۔ نوکری کے ایسے اشتہارات پہلے پاکستان رینجرز کی جانب سے دیے گئے جب کہ حالیہ دنوں میں سندھ حکومت کے محمکہ لائیو سٹاک نے بالکل ایسا ہی اشتہار دیا۔

'یہ مسلمانوں کے لئے حرام ہے اور اس ممانعت کے بعد ایک واضح قانونی رکاوٹ موجود ہے'

روادار میں محسن الیاس کی رپورٹ کی روشنی میں جب ان کے پاس روزگار کمانے کا کوئی باعزت ذریعہ موجود نہیں ہے تو وہ جعلی شراب کی فروخت جیسے غیر قانونی کام کر کے بھی اپنے کنبے کا پیٹ پالنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ محسن الیاس نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ

"بطور اسلامی ریاست، پاکستان میں شراب کے استعمال اور خریداری تک رسائی آسان نہیں ہے۔ یہ مسلمانوں کے لئے حرام ہے اور اس ممانعت کے بعد ایک واضح قانونی رکاوٹ موجود ہے۔ بہرحال، پاکستانی مسیحیوں کو شراب نوشی کی اجازت ہے جس کے لئے انہیں حکومت کا جاری کردہ لائسنس حاصل کرنا پڑتا ہے۔

شراب کی مارکیٹ  تک رسائی رکھنے کرنے والے کچھ نوجوان مسیحی اپنے اجازت ناموں کا ناجائز استعمال کرتے ہیں کیونکہ وہ اپنے غیر مسیحی واقف کاروں کے لئے شراب خریدتے ہیں۔

یہ خریدار شراب کے لئے بھاری قیمت ادا کرنے کو تیارہوتے ہیں، تاہم، غیر قانونی طور پر شراب خریدنے اور فروخت کرنے پر دونوں فریقوں کو جیل ہوسکتی ہے۔ اگرچہ ان نوجوانوں کو اس بات کا احساس ہے کہ ان کے جیل سے باہر نکلنے کے امکانات (پولیس کے ہاتھوں پکڑے جانے کی صورت میں) ان کے خریداروں کے مقابلے میں بہت کم  ہیں جو زیادہ تر امیر ہیں اور وسائل رکھتے ہیں۔



یہ پوچھے جانے پر کہ وہ کیوں اس طرح کا خطرہ مول لینے اور سخت نتائج کا سامنا کرنے کو تیار ہیں ، ایک نوجوان لڑکے نے اپنا نام ظاہر نہ ہونے کی شرط  جواب دیا ، 'ہم صرف روزی کمانا چاہتے ہیں'۔"

'بہت عرصہ اقلیتی حقوق پر کام کرنے والی این جی اوز میں گزارا مگر انہیں آگے بڑھنے نہیں دیا گیا'

اس سے کچھ مختلف لیکن اپنی ہئیت میں ایسی ہی کہاں آرون آرتھر کی بھی ہے۔ آرون کا تعلق بھی کرسچن کمیونٹی سے ہے۔ ان کے گھر کے افراد کی تعداد 8 ہے جن میں 2 والدین، بیوی، 3 بچے اور ایک چھوٹا بھائی شامل ہے۔ آرون گھر کے واحد کفیل ہیں۔ نیا دور میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وہ شروع دن سے کرائے کے گھر میں رہ رہے ہیں اور گذشتہ کئی ماہ سےنوکری نہ ہونے کے باعث ان پر صرف گھر کے کرائے کا قرضہ 1 لاکھ 22 ہزار ہو چکا ہے۔

آرون آرتھر کا کہنا ہے کہ وہ قابل بھی ہیں، پڑھے لکھے بھی، ان کے پاس آفس مینجمنٹ، فنانس اور دیگر امور کا 10 سالہ تجربہ ہے لیکن ان کے پاس نوکری نہیں جس کی وجہ صرف اور صرف ان کا اقلیتی برادری سے تعلق ہونا ہے۔

آرون کے مطابق انہوں نے اپنی زندگی کا بہت عرصہ اقلیتی حقوق پر کام کرنے والی این جی اوز میں گزارا مگر انہیں آگے بڑھنے نہیں دیا گیا۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ اگر وہ مزید کام کرتے تو بہت سے افراد کے لئے مسئلہ پیدا ہو جاتا۔ انہوں نے بتایا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں اقلیت بن کر زندگی گزارنا انتہائی کٹھن ہے اور صفائی ستھرائی کے کام کے علاوہ ان کے پاس باعزت روزگار کمانے کے کوئی مواقع نہیں ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ میرے بہت سے رابطے بھی میں مگر آج تک کسی نے مجھے نوکری کے لئے نہیں کہا۔ ابھی بھی جو گزر بسر ہورہا ہے، چند پروجیکٹس کی وجہ سے ہی ممکن ہے جن کی معیاد زیادہ سے زیادہ دو ماہ ہے۔

2015 میں پنجاب کارڈیالوجی کی جانب سے اخبارات میں دیا گیا اشتہار۔ اس اشتہار پر شدید تنقید کے بعد پنجاب حکومت کی جانب سے اس پالیسی کو تبدیل کیا گیا۔


انہوں نے بتایا کہ گذشتہ ماہ میں ایک نوکری کا انٹرویو دینے گیا جس کے اشتہار پہ لکھا تھا کہ اس کی تنخواہ 80 ہزار سے 90 ہزار ہوگی لیکن جب میرا انٹرویو ہوا اور مجھے سلیکٹ بھی کر لیا گیا تو مجھے کہا گیا کہ آپ کی تنخواہ 30 ہزار ہوگی جس پر میں نے ان سے سوال کیا کہ آپ نے اشتہار پر تو زیادہ تنخواہ لکھی تھی جس پر انہوں نے جواب دیا کہ اگر آپ اس تنخواہ میں کام کر سکتے ہیں تو کریں ورنہ چلے جائیں۔

آرون کا کہنا تھا کہ میں ایک پڑھا لکھا انسان ہوں۔ میرے ساتھ ایسا سلوک ہوتا ہے تو اندازہ کیجیے ہمارے ان پڑھ لوگوں کے ساتھ اس معاشرے کا کیا سلوک ہوتا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اگر میں صفائی کرنے کے لئے کہیں بھی اپلائی کروں تو مجھے فوراً نوکری مل جائے گی مگر کسی بہتر تنخواہ والی نوکری کے لئے ہماری کمیونٹی کو کوئی نوکری دینے کو تیار نہیں۔

آرون نے بتایا کہ ان کا بڑا بیٹا اس قابل ہو چکا ہے کہ اسے سکول داخل کروایا جائے۔ ان کا اہلیہ کے ساتھ اس بات پر کافی جھگڑا بھی ہو چکا ہے کہ جب اہلیہ مطالبہ کرتی ہیں کہ بچے کو سکول داخل کروائیں۔ انہوں نے کہا کہ میرا ارادہ اپنے بچے کو کسی بڑے ادارے میں پڑھانے کا نہیں، کوشش یہی ہے کہ کسی مشنری سکول میں اس کا ایڈمیشن کروا دیا جائے لیکن اس کی ایڈمیشن فیس بھی 50 ہزار کے قریب ہے جب کہ میرے اوپر گھر کے کرائے کا سوا لاکھ کا قرض ہے، ایسے حالات میں بچے کو کیسے سکول داخل کروایا جا سکتا ہے۔

آرون آج کل لاہور سے اسلام آباد کسی بہتر روزگار کی تلاش میں گئے ہوئے ہیں لیکن اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود انہیں وہاں کوئی روزگار نہیں ملا۔

آرون آرتھر اور ان جیسے کئی افراد اور پاکستان میں اقلیتوں کے ان معاشی مسائل پر بات کرنے کے لئے ہم نے اقلیتی امور کے ماہر تنزیل یوسف سے بات کی اور ان سے جاننے کی کوشش کی کہ پاکستان میں اقلیتوں کو اس طرح کے اور کن مسائل کا سامنا ہے۔

'لوگ ہمیں 'چوڑا' سمجھتے ہیں اور ان کے نزدیک ہمارا ایک ہی کام ہے'

اسلام آباد میں مقیم تنزیل یوسف نے بتایا کہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کو حقوق حاصل ہیں مگر دوسری جانب ان کے ساتھ بیٹھ کر چائے یا پانی نہیں پیا جاتا۔ گویا ان کے خلاف ظاہری یا باطنی نفرت پائی جاتی ہے جس کا کرسچن کمیونٹی کے ہر فرد کو احساس ہے۔

تنزیل کا تعلق بھی مسیحی برادری سے ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس امتیازی سلوک کی وجہ سے بہت سے کرسچن عام مسلم آبادی سے دور ہیں کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ لوگ ہمیں 'چوڑا' سمجھتے ہیں اور ان کے نزدیک ہمارا ایک ہی کام ہے کہ ہم نالیاں، گٹر اور صفائی ستھرائی کے کام کے لئے ہی اس ملک میں رہ رہے ہیں۔

تنزیل نے بتایا کہ وہ اسلام آباد میں رہائش پذیر ہیں اور بتا سکتے ہیں کہ کتنے کرسچن افراد کے پاس اپنا گھر نہیں ہے۔ بہت سے لوگ کم تنخواہ یا بے روزگاری کے باعث اپنا گھر بنانے سے قاصر ہیں، اس لئے کرسچن کی بہت بڑی آبادی کرایوں، کچے مکانوں اور سرکاری کوارٹروں میں رہنے پر مجبور ہے۔

جو لوگ پڑھ لکھ نہیں سکتے، ان کے لئے دفتروں میں آفس بوائے یا خاکروب کی نوکری تو ہے مگر ٹی بوائے کی نہیں کیونکہ وہ ان سے صفائی تو کروا سکتے ہیں مگر ان کے ہاتھ کی بنی چائے اور کھانا نہیں کھا سکتے۔

تنزیل نے بتایا کہ پاکستان میں سرکاری نوکریوں کی بات کی جائے تو اقلیتوں کا کوٹہ بہت کم رکھا جاتا جو کہ غالباً 5 فیصد ہے۔ اس میں بھی اگر آپ کو جانا ہے تو آپ کو رشوت دینا پڑے گی یا زیادہ تر تو یہ ہوتا ہے کہ اندر کھاتے لوگوں کو نوکری پر بھرتی کر لیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صفائی یا ٹھیکیداری پر تو انہیں نوکری مل جاتی ہے جہاں تنخواہ بہت کم ہے اور اگر کسی ضروری کام کے لئے انہیں چھٹی درکار ہو تو وہ چند ہزار میں سے بھی چھٹیوں کے پیسے کاٹ لیے جاتے ہیں جن کا ان کے گھریلو بجٹ پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔

'کرسچن آبادیوں میں جائیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہاں کس قدر غربت ہے'

تنزیل کے مطابق پرائیویٹ شعبے میں کرسچن کمیونٹی کے لئے نوکریاں بالکل بھی نہیں ہیں کیونکہ پرائیویٹ شعبے میں زیادہ تر نوکریاں لنکس، اثر و رسوخ اور سفارش کی بنیاد پر ملتی ہیں اور چونکہ کرسچن کمیونٹی کے لوگوں کے مسلمانوں کےساتھ ذاتی نوعیت کے تعلقات بہت کم ہیں اس لئے وہاں بھی اکثریتی آبادی اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کو ہی نوکری پر رکھتے ہیں۔ جو ساتھ بیٹھ کر کھانا پسند نہیں کرتے وہ ان کو اپنے ساتھ نوکری پر کیسے رکھ سکتے ہیں۔

لاہور کے علاقے یوحنا آباد کے داخلی دروازے کی ایک تصویر۔ بشکریہ: یوحنا آباد فیسبک پیج


انہوں نے مزید بتایا کہ کرسچن آبادیوں میں جائیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہاں کس قدر غربت ہے۔ زیادہ تر آبادیوں کے لوگ ابھی بھی کچے اور ٹوٹے پھوٹے مکانوں میں رہ رہے ہیں۔ ان کے بچے بڑے سکولوں میں نہیں پڑھتے، یہی وجہ ہے کہ ان بچوں کو بھی یہی لگتا ہے کہ انہیں بھی اپنے والدین والا کام ہی کرنا ہے۔

کیا مسیحی اقلیت کو برابر کے مواقع ملتے ہیں؟

جب ان سے سوال کیا گیا کہ کتنے فیصد افراد ہیں جو محنت کر کے اپنی کلاس کو تبدیل کر پاتے ہیں تو اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ 100 میں سے صرف 10 فیصد خاندان ایسے ہیں جو ایک کلاس سے دوسری کلاس میں شفٹ کر جاتے ہیں مثلاً کوئی غربت سے نکل کر بہتری کی طرف آ جاتا ہے اور کوئی مڈل کلاس میں لیکن بہت ہی کم تعداد ان افراد کی ہے جو اپر مڈل کلاس میں جاتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک بڑی تعداد ان کی ہے جو تیزی سے اوپر والی کلاس سے نیچے کی جانب منتقل ہو رہے ہیں اور آرون کا کیس ان میں سے ایک ہے۔

ہمارے ملک میں بسنے والی اقلیتوں کو اگر مساوی شہری بنانا درکار ہے تو ان کے لئے نوکریاں اور پیداواری سرگرمیوں میں آسانی پیدا کرنا انتہائی ضروری ہے۔ تاکہ مسیحی نوجوانوں کو اس ریاست میں یہ احساس نہ ہو کہ دیگر مذاہب کی طرح ان کے لئے روزگار کے برابر مواقع نہیں ہیں۔ انہیں معاشرے میں معزز طریقے سے رہنے اور با عزت روزگار کمانے کا مکمل حق ہے۔ اس مد میں حکومت کو بھی چاہیے کہ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کا سد باب کرتے ہوئے ایسی پالیسیاں مرتب کی جائیں تاکہ انہیں نوکری اور کاروبار کرنے کے وہ تمام وسائل میسر آ سکیں جو پاکستان کی اکثریتی آبادی کو حاصل ہیں۔

اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک، 2013 میں پشاور چرچ پر حملہ اور کیلاش کے قبائلی لوگوں کو دھمکائے جانے کے حوالے سے از خود نوٹس پر جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے اس کیس کا تحریری فیصلہ سناتے ہوئے ہدایات جاری کی تھیں کہ "وفاقی حکومت کو ایک ٹاسک فورس تشکیل دینی چاہیئے جس کے ذمے مذہبی رواداری کے قیام کا لائحہ عمل تشکیل دینے کا کام ہو"۔ انہوں نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ "سکول اور کالج کے درجات پر ایسا مناسب نصاب تشکیل دیا جائے جو مذہبی اور سماجی رواداری کی ثقافت کو فروغ دے۔ فیصلے میں مزید لکھا گیا تھا کہ 1981میں اقوام متحدہ نے اپنی ایک بنیادی قرار دیا میں قرار دیا کہ بچے کو مذہب اور اعتقاد کی بنیاد پر کسی بھی قسم کے تعصب سے محفوظ رکھا جائے اور اس کی نشوونما سمجھداری، روداری، افراد کے مابین دوستانہ روابط، امن اور آفاقی بھائی چارے، مذہبی آزادی اور دوسرے کے اعتقاد کی تعظیم، اور اس شعور کےساتھ کی جائے کہ اس کی صلاحتیں اور توانائی اپنے ساتھیوں کی مدد کے لیے وقف ہوں گی۔"

پاکستان کے سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی


اس فیصلے کی روشنی میں اقیلتوں اور ان کے بچوں کو تعصب سے محفوظ رکھنا، ان کی نشوونما، سمجھداری، رواداری، دوستانہ روابط، بھائی چارے اور آزادی اور تعظیم سے کرنا ریاست، تمام ریاستی اداروں اور شہریوں کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں کو کم آمدن روزگار کی فراہمی اور صرف سوئیپر جیسی نوکریوں تک محدود کرنا ان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھے جانے کی دلیل ہے۔ پاکستان میں بسنے والے مسیحیوں کے ان تمام تحفظات کو دور کرنے کی ضرورت ہے جن کا اظہار آرون اور تنزیل نے اپنے خیالات میں کیا۔ اس ملک کی مسیحی آبادی کو وہ تمام حقوق حاصل ہونے چاہئیں جو یہاں کی اکثریت کو حاصل ہیں۔ ملک میں بسنے والی اقلیتوں کی پیشہ ور صلاحیتوں سے انکار کر کے انہیں کم آمدن نوکریوں تک محدود کر دینے سے وہ ترقی کرنے اور باعزت طریقے سے اپنے خاندان کی کفالت کرنے سے محروم ہیں۔ اگر انہیں معاشرے میں برابر کا شہری بنانا ہے تو ان کے ساتھ روا رکھے جانے والے ہر قسم کے امتیازی سلوک کا خاتمہ ناگزیر ہے۔

حسنین جمیل فریدی کی سیاسی وابستگی 'حقوقِ خلق پارٹی' سے ہے۔ ان سے ٹوئٹر پر @HUSNAINJAMEEL اور فیس بک پر Husnain.381 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔