قدیم کنواں جسے مقامی افراد 'جہنم کا راستہ' اور 'جنات کا مسکن' کہتے تھے

قدیم کنواں جسے مقامی افراد 'جہنم کا راستہ' اور 'جنات کا مسکن' کہتے تھے
فولادی اعصاب کے مالک محمد الکندی صحرا میں واقع اس 30 میٹر چوڑے کنویں میں اتر گئے جو یمن اور عمان کی سرحد کے قریب برہوت کے علاقے میں واقع ہے۔

محمد الکندی اور عمانی کیونگ ٹیم کے ان کے ساتھیوں نے اس تاریخی کنویں کو اندر سے دیکھا جسے ایک عرصے سے Well of Hell یا جہنمی کنواں کہہ کر پکارا جاتا تھا۔ یہ کنواں صوبہ الماہرہ میں واقع ہے اور اس سے متعلق بہت سی خوفناک روایات مشہور ہیں۔ مقامی لوگوں کے مطابق اس کنویں میں جنات کا مسکن ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے یہ شیطانی کنواں ہے۔

Earth Sciences Consultancy Centre کے مالک اس ماہرِ ارضیات نے اخبار The National کو بتایا کہ "کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ وہ جگہ ہے کہ جہاں موت کے بعد کفار اور مرتدین کو سزا دی جاتی ہے۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ اس کنویں میں گئے تو ان کے سر دھڑ سے الگ ہو جائیں گے۔"
جو کچھ لیکن اس کنویں کے اندر محمد الکندی اور ان کی ٹیم کو ملا، وہ بیشک ایک جادوئی احساس تو تھا کیونکہ کبھی اس کنویں کی گہرائی تک کسی کے اترنے کا کوئی ریکارڈ واقعہ سامنے نہیں آیا تھا اور اس ٹیم کے سب ہی افراد ایک سنسنی اپنے جسموں میں محسوس کر رہے تھے لیکن ان آٹھ لوگوں کی ٹیم کو کسی قسم کے سائے کا یہاں سراغ نہیں ملا۔



"لوگ کہتے ہیں کہ دنیا کا مقدس ترین پانی مکہ میں آبِ زم زم ہے جب کہ بدترین پانی اس شیطانی یا جہنمی کنویں میں پایا جاتا ہے۔ لیکن ہمیں یہاں صرف تازہ پانی ملا۔ ہم نے اس سے پانی کی ایک پوری بوتل بھر کر پی لیکن ہمیں اس کا کوئی منفی اثر محسوس نہیں ہوا"۔

محمد الکندی کا کہنا ہے کہ انہیں ہمیشہ سے غاروں اور قدرتی زمینی تشکیلات دیکھنے کا شوق ہے۔ "میں ایک پہاڑی علاقے میں رہتا ہوں اور بچپن ہی سے غاروں میں جانے کا عادی ہوں"۔ تاہم، اس دیومالائی داستانوں کے محور کنویں میں جانے کا تجربہ ہی کچھ اور تھا۔ "میں سب سے پہلے اس کنویں میں اترا اور سب سے آخر تک میں اندر رہا"۔



سروے کے آلات اور گیسوں کو detect کرنے والی مشینوں میں ایک گیس کثیر تعداد میں تھی تو سہی لیکن یہ آکسیجن ہی تھی اور اندر کی فضا انہیں قطعاً زہریلی گیسوں سے پاک ملی۔ تاہم، ان کا کہنا تھا کہ اس کنویں میں سانپوں کی بڑی تعداد ضرور موجود ہے۔
"یہ عام سی بات ہے۔ سانپ یہاں انڈے دیتے ہیں کیونکہ یہاں دیگر شکاریوں سے وہ محفوظ رہ سکتے ہیں۔ یہ قدرتی بات ہے"۔
ان کے مطابق اس کنویں میں انہیں ملنے والی سب سے زیادہ جادوئی چیز اس کنویں کے وہ موتی تھے جو کنویں کے اندر موجود آبشاروں کے نیچے سے چمکتے ہوئے نظر آ رہے تھے۔

"غاروں میں موجود موتی کیلشیئم کاربونیٹ کے جڑے ہوئے ذخیرے ہوتے ہیں اور یہ ایسی جگہ پر کیمیائی عمل سے خود بخود بننے لگتے ہیں جہاں پانی گرتا ہے۔ یہ گول گول پتھر ہزاروں سال سے یہاں گرنے والے پانی کے پڑنے سے بالکل صاف ہو کر خوبصورت موتیوں کی شکل اختیار کر گئے ہیں"۔
لوک داستانوں میں جنات اور شیاطین کی کہانیوں کے محور اس کنویں کے بارے میں ماضی میں بھی کئی بہادر یمنیوں اور سائنسی ٹیموں نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ اس کے اندر گئے اور واپس آ چکے تھے لیکن محمد الکندی کا کہنا ہے کہ انہیں اس کنویں کی تہہ میں کسی انسان کے یہاں پر پہلے آنے کے نشانات نہیں ملے۔

"یہاں کوئی قدموں کے نشان یا کسی بھی چیز پر کسی انسان کی موجودگی کے کوئی ثبوت ہمیں یہاں نہیں ملے۔ ان سے پہلے یہاں گئے کسی مشن کے بارے میں کوئی دستاویزی ثبوت تو موجود نہیں ہے لہٰذا یہ واضح نہیں کہ پہلے کوئی یہاں کبھی پہنچا تھا یا نہیں لیکن مکمل وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا"۔

 



محمد الکندی کا کہنا ہے کہ ان کے "جہنمی کنویں" کی تہہ میں اترنے کے بعد وہ امید کرتے ہیں کہ اس سے جڑی کچھ دیومالائی کہانیاں دم توڑ دیں گی اور نہ صرف اس کنویں سے متعلق اس قسم کی کہانیوں کی مقبولیت میں کمی آئے گی بلکہ دیگر ایسے کنوؤں کے بارے میں بھی توہمات کم ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ "میں سمجھتا ہوں جہنمی کنواں جو کہ برہوت کا کنواں کہلاتا ہے، ایک تاریخی غار ہے اور یمن میں ایسے اور بھی بہت سے غار ہیں جنہیں قدیم غاروں کا درجہ حاصل ہے۔ اب جب کہ ہم یہاں جا کر دکھا چکے ہیں تو اس کنویں کو سوائے اس جگہ کے نام کے جہاں یہ واقع ہے کسی اور نام سے نہیں پکارا جانا چاہیے۔

ایسی دیگر جگہوں پر کوئی غیر مرئی مخلوق کا وجود نہیں اسے واضح کرنے کے لئے محمد الکندی یمن میں ہدرموت کے کنویں میں جانے کا ارادہ رکھتے ہیں جس میں وہ پھر تحقیق کریں گے کہ کہیں یہ تو جہنم کو جانے کا رستہ نہیں؟
ان کا کہنا ہے کہ مجھے پورا یقین ہے کہ ہدرموت کا کنواں بھی بالکل عام سا ایک کنواں ہوگا اور وہ شاید اس سے کچھ چھوٹا بھی ہو۔ حالات موافق آئے تو ہم یہاں بھی جائیں گے اور حقیقت کا کھوج لگائیں گے۔

اس مضمون کو دی نیشنل سے نیا دور کے قارئین کے لئے اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے۔