کیا ہم صحت کارڈ سے بچوں کی دوائیں اور خوراک خرید سکتے ہیں؟ راولپنڈی کی بیوہ خاتون کا حکمرانوں سے سوال

کیا ہم صحت کارڈ سے بچوں کی دوائیں اور خوراک خرید سکتے ہیں؟ راولپنڈی کی بیوہ خاتون کا حکمرانوں سے سوال
فریدہ ایک بیوہ اور دو بچوں کی ماں ہیں۔ کچھ عرصہ قبل خاوند کی ایک کار حادثے میں ہلاکت کے بعد جب سسرال والوں نے اُن کو گھر سے نکالا تو دو بچوں کو پالنا اُن کے لئے ناممکن ہوا اور والدین اور بھائیوں کی مالی حالت بھی اتنی اچھی نہیں تھی کہ اُن کی مالی معاونت کرتے اور یہی وہ معاشی حالات تھی جن کی وجہ سے انھوں نے راولپنڈی میں بیوٹی پارلر کھول لی جس کا کرایہ بارہ ہزار روپے تھا۔

وہ کہتی ہیں شروع کا سال اچھا تھا اور ہر مہینے تیس سے چالیس ہزار کا منافع ہو جاتا تھا جس کی وجہ سے میری زندگی قدرے پُرسکون ہوگئی مگر کورونا وائرس کے آنے کے بعد جب میرے لئے دکان کا کرایہ دینا مشکل ہوا تو میں نے اپنا سیلون بند کیا اور ایک سیلون پر ماہانہ اُجرت پر کام شروع کیا لیکن کچھ مہینوں کے بعد جب وہ سیلون بھی مالی خسارے کا شکار ہوا تو اُن کو اپنے نوکری سے ہاتھ دھونا پڑا اور آج کل وہ گھروں میں صفائی، کپڑے اور برتن دھونے کا کام کرتی ہٰں جس سے اُن کو ماہانہ پندرہ ہزار روپے مزدوری مل جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سب سے بڑے بیٹے کو ایک نجی سکول میں داخل کیا اور ان کی فیس دو ہزار سے زیادہ ہے اور پھر گھر کا راشن اور دیگر چیزیں پورے کرنے کی بات آجائے تو میری چیخیں نکلتی ہیں کیونکہ پیسے ہی نہیں بچتے۔

فریدہ کہتی ہیں کہ روز حکومت تشہیر کرتی ہے کہ ہم صحت کارڈ دیں رہے ہیں آپ کو مفت علاج ملے گا لیکن میں ان سے پوچھتی ہوں کہ کیا ہم صحت کارڈ سے آٹا، گھی، چینی، چاول اور دال سبزی خرید سکتے ہیں جن کی قیمتیں پہلے سے آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ کیا ہم صحت کارڈ سے بچوں کی دوائیں اور خوراک خرید سکتے ہیں۔

صبور ہاشمی کا تعلق کراچی کے ایک کاروباری گھرانے سے ہے۔ ان کا خاندان گذشتہ چالیس سال سے اپٹیکس کے کاروبار سے وابستہ ہے۔ کراچی میں امن وامان کی مخدوش صورتحال، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور آپریشنز کے بعد وہ سب کچھ سمیٹ کر پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد منتقل ہوئے۔

انھوں نے اسلام آباد کے ایک پوش سیکٹر میں ایک لاکھ روپے پر دکان کرائے پر لی اور ان کا کاروبار وقت کے ساتھ ساتھ کامیاب ہوتا رہا جس کے بعد انھوں نے خاندان والوں کو کراچی سے راولپنڈی منتقل کیا۔

ان کے مطابق کراچی میں دکان چھوڑتے ہی سب سے بڑی پریشانی یہی ہوتی تھی کہ راستے میں کوئی ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ نہ بنائے یا بھتے کے لئے کوئی اغوا نہ کرلے۔

ہاشمی کہتے ہیں کراچی جیسے شہر میں سب سے بڑی پریشانی یہی ہوتی تھی کہ جب کسی نئے موبائل نمبر سے کال آتی تھی تو ذہن پر یہی خوف سوار ہوتا تھا کہ یہ نامعلوم نمبر کسی تنظیم یا سیاسی جماعت کا تو نہیں جو بھتہ مانگ رہا ہے یا پھر کسی کسٹمر کی لیکن اسلام آباد میں یہ خوف ختم ہوا اور آہستہ آہستہ اس شہر کی آب وہوا اور طرز زندگی سے واقف ہوئے۔

ان کے مطابق 2018 تک کاروبار بہت اچھا تھا لیکن اس کے بعد کاروبار آہستہ آہستہ ختم ہو رہا ہے اور ان کی بنیادی وجہ موجودہ حکومت کی ناہموار معاشی پالیسیاں، مہنگائی اور دن بدن بڑھتے ہوئے ٹیکسز ہیں۔

صبور کو چھ سال پہلے کراچی سے اسلام آباد منتقل ہونے والے فیصلے پر افسوس ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کراچی میں حالات جتنے بھی خراب تھے مگر کاروبار اتنا متاثر نہیں ہوا تھا، جیسے آج ہے۔

پاکستان میں تاجر برادری مسلسل حکومت کی جانب سے آئے روز نئے ٹیکسز لگانے پر تحفظات کا اظہار کر رہی ہے۔ تاجروں کی نمائندہ تنظیم نے کئی بار فیڈرل بورڈ آف ریوینیو کے سامنے اپنا احتجاج بھی ریکارڈ کیا ہے اور شٹر ڈاؤن بھی کیا مگر حکومت کی جانب سے ان پر لگائے گئے ٹیکس واپس نہیں لئے گئے۔

آل پاکستان انجمن تاجران کا آئندہ ماہ اسلام آباد میں ایک کنونشن کا انعقاد ہونا ہے اور کنونشن کے اعلامیہ کے مطابق حکومت کی جانب سے تاجر برادری کی معاشی قتل عام کے خلاف ایک نئے لائحہ عمل کا اعلان بھی کیا جائے گا۔

آل پاکستان انجمن تاجران کے صدر اجمل بلوچ اسلام آباد نے کور کمیٹی کے اجلاس کے بعد اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے منی بل کی صورت میں عوام پر عذاب نازل کیا ہے۔ چھوٹے چھوٹے دکانداروں کی سیلز ٹیکس میں جبری رجسٹریشن کی جا رہی ہے۔ نئے ٹیکسوں کی وجہ سے مہنگائی کا نہ رکنے والا سیلاب آنے والا ہے۔ 17 فروری سے ایف بی آر کے خلاف تحریک چلانے اور آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا۔

زرغون خان کا خاندان بلوچستان کے کوئٹہ شہر میں کپڑے کے کاروبار سے منسلک تھا اور کالعدم تنظیموں کی جانب سے مسلسل بھتہ مانگنے اور امن وامان کی مخدوش صورتحال کی پیش نظر اُنھوں نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں اپنا کاروبار منتقل کرنے کا فیصلہ کیا۔

زرغون کے مطابق جب ہم اسلام آباد منتقل ہوئے تو اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کے دور حکومت کا دوسرا سال چل رہا تھا۔ معاشی حالات دن بدن بہتر ہوتے جا رہے تھے اور لوگوں کے پاس پیسہ تھا جس کی وجہ سے تاجر بھی خوشحال تھے لیکن موجودہ حکومت آنے کے بعد معاشی حالات اتنے گھمبیر ہوئے کہ اب دکانوں کے کرائے اور بجلی اور دیگر ٹیکسز دینے مشکل ہوگئے۔

زرغون نے کہا کہ 2014 کے شروع کا سال مشکل تھا کیونکہ اس شہر میں جان پہچان نہیں تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ گاہگ بن گئے اور لوگوں سے شناسائی ہوگئی اور کاروبار ترقی کرتا گیا مگر موجودہ دور حکومت میں کاروبار ایسے برباد ہوا جیسے اس ملک میں قحط آیا ہو یا پھر جنگ کی صورتحال ہو۔

وہ کہتے ہیں 2018 سے پہلے کاروبار سے ماہانہ 3 سے 4 لاکھ روپے منافع ہوتا تھا مگر اب حالات ایسے آگئے ہیں کہ دکان کا کرایہ، بجلی کے بل اور ملازمین کی تنخواہیں ادا کرنا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔

زرغون نے کہا کہ ہمارے وہ گاہگ جو سال میں پانچ مرتبہ نئے کپڑے سلواتے تھے، کوٹ اور واسکٹ کی سلائی کرتے تھے اب صرف عید پر کپڑے بناتے ہیں اور وہ بھی کم قیمت والے۔

کراچی کے صبور کے خیالات بھی کچھ ایسے ہی ہیں۔ وہ کہتے تھے پہلے جب دکان پر کوئی نظر کی عینک کی مرمت کے لئے آتا تھا تو ہم ان کو جواب دیتے تھے کہ آپ کی عینک پرانی ہو گئی ہے نئی بنا لو تو لوگ راضی ہو جاتے تھے مگر اب حالت یہ ہے کہ لوگ جواب میں کہتے ہیں کہ نیا بنانے کی ہمت نہیں ہے اس کے ساتھ ہی کوئی جگاڑ لگا لو اور میری نظر میں اس کی بنیادی وجہ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری اور معاشی تباہ حالی ہے جن کی وجہ سے لوگوں کی قوت خرید ختم ہوگئی ہے۔

پاکستان میں مہنگائی پر نظر رکھنے والے ادارہ برائے شماریات کے گذشتہ ہفتے کے اعدادوشمار کے مطابق ملک میں کم آمدن والے افراد کے لئے مہنگائی کی شرح بیس فیصد سے اوپر ہے کہ جبکہ بین الاقوامی ادارے بھی پاکستان میں مہنگائی کو زیادہ سمجھتے ہیں۔

زرغون خان بھی لوگوں کی جانب سے خریداری نہ کرنے کی وجہ حکومت کی ناکام معاشی پالیسیوں، بے روزگاری  اور مہنگائی کو قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں پہلے سال میں ایک دو بار بجلی اور پیٹرول کی قیمتیں اوپر جاتی تھی مگر اب صبح بجلی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کچھ اور اور شام کو کچھ اور ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں مجھے جوانی سے وزیر اعظم عمران خان پسند تھے اور نئے پاکستان کا خواب میں نے بھی دیکھا تھا جن کو پورا کرنے کے لئے میں نے وزیر اعظم عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو ووٹ دیا تھا مگر مجھے اپنے فیصلے پر پچھتاوا ہے اور مجھے یقین ہوا کہ ملک چلانا کیا ایک شہر چلانا بھی اُن کے بس کا کام نہیں۔ زرغون کہتے ہیں ہم تنگ اگئے ہیں روز  وزیر اعظم عمران خان ان کے وزیروں اور مشیروں کی یہی باتیں سنتے ہیں کہ وہ چور ہے یہ چور ہے مگر خود  عوام کے لئے کچھ نہیں کرسکتے۔ وہ کہتے ہیں چور ہی اچھے تھے زندگی خوشحال اور پرسکون تھی اب بچوں کو روٹی کا نوالہ دینے کے لئے پریشان ہے۔ آئندہ انتخابات میں میں چوروں اور لٹیروں کو ہی ووٹ دونگا کیونکہ اُن کی دور حکومت میں بچوں کو کھانا اور  زندگی گزارنے کے لئے کچھ وسائل دستیاب ہوتے ہیں۔

صبور ہاشمی کہتے ہیں میں بیس سال سے کاروبار سے وابستہ ہو مگر مشرف جیسے فوجی آمر کے دور میں بھی اتنے بدتر معاشی حالات نہیں دیکھے جو آج وزیراعظم عمران خان کی حکومت میں ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ جب بھی دکان پر گاہگ آتے ہیں تو سب سے پہلے یہی کہتے ہیں کہ کوئی کم قیمت والی عینک دکھاؤ اور ان کے چہروں سے واضح ہوتا ہے کہ وہ معاشی طور پر پریشان اور ان کی قوت خرید ختم ہوچکی ہے۔ صبور کہتے ہیں پہلے دکان پر پچیس سے تیس گاہگ آتے تھے مگر اب اگر پانچ گاہگ بھی دکان پر آجائے تو خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ چلو آج روٹی ، پانی کا خرچہ نکل آیا۔ وہ کہتے ہیں کہ اب عینک پر پورا سال سیل لگا ہوتا ہے اور کسٹمر کو مسلسل فون پر مطلع کرتے ہیں کہ عینک پر سیل لگی ہے مگر آگے سے یہی جواب ملتا ہے جس مفت میں بانٹنا شروع کرو تو پھر ہمیں اطلاع دو۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔