ڈاکٹر مہدی حسن - ایک عہد جو کب کا تمام ہوا

ڈاکٹر مہدی حسن - ایک عہد جو کب کا تمام ہوا
پاکستان کے ممتاز ماہر تعلیم، ترقی پسند مفکر اور انسانی حقوق کے علمبردار ڈاکٹر مہدی حسن آج لاہور میں انتقال کر گئے۔ وہ ایک عرصے سے گلے کے سرطان اور امراض قلب میں مبتلا تھے۔ پروفیسر ڈاکٹر مہدی حسن پاکستان کے نامور صحافی، مبصر اور سیاسی تجزیہ کار تھے۔ تعلیم صحافت اور انسانی حقوق کے شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دینے پر حکومت پاکستان نے 2012 میں انہیں ستارہ امتیاز عطا کیا تھا۔

ڈاکٹر مہدی حسن 27 جون 1937 کو پانی پت میں پیدا ہوئے۔ وہ پانی پت کے نامور گھرانے خواجگان پانی پت سے تعلق رکھتے تھے۔ پاکستان کے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر مبشر حسن ان کے تایا زاد بھائی تھے۔ ڈاکٹر مہدی حسن نے ابتدائی تعلیم پانی پت ہی میں حاصل کی۔ 9 سال کی عمر میں 16 نومبر 1947 کو والدین کے ہمراہ پاکستان ہجرت کر آئے۔ یہاں آ کر مزید تعلیم مکمل کی۔ زمانہِ طالب علمی میں اسکاؤٹنگ، اداکاری، فوٹو گرافی اور کرکٹ کا بہت شوق تھا۔ نوجوانی میں ادب سے شغف تھا، روسی اور فرانسیسی ادب میں خاص دلچسپی رکھتے تھے۔ کالج میں کوہ پیمائی اور ہائیکنگ کلب کے سیکرٹری بھی رہے۔ زمانہ طالب علمی سے ہی صحافت کا شوق تھا، لہذا منٹگمری (موجودہ ساہیوال) میں پی پی اے ( موجودہ اے پی پی ) کے خبر رساں کے طور پر صحافتی کیریر کا آغاز کیا۔ انہوں نے 24 برس کی عمر میں ایوب حکومت کی مخالفت پر سزائے قید کاٹی۔ ڈاکٹر مہدی حسن نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کیا اور بعد ازاں 1984 میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ان کے مقالہ کا عنوان (Role of Press in Formation of Public Opinion 1857-1947) تھا ۔

بطور کالم نگار پروفیسر مہدی حسن کا پہلا آرٹیکل روزنامہ امروزمیں شائع ہوا۔ وہ ایک ماہر مبصر و محقق ہونے کے باعث بہترین صحافی رہے ہیں اور انہوں نے پاکستان کے تمام اہم اخبارات میں کالم لکھے۔ انگریزی میں روزنامہ دی نیوز انٹرنیشنل میں باقاعدہ کالم لکھے۔ جب کہ اردو کالم روزنامہ نوائے وقت کے لیے لکھتے رہے ہیں۔

ڈاکٹر مہدی حسن پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات سے تیس سال وابستہ رہے ہیں ۔وہ 1967 میں یہاں استاد مقرر ہوئے تھے۔ وہ کئی برس تک بیکن ہاؤس یونیورسٹی میں شعبہ صحافت کے ڈین رہے۔ تقریباً نصف صدی پر محیط تدریسی کیریر کے دوران ہزاروں نامور بیوروکریٹ اور سیاست دان ان کے شاگرد رہے جن میں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور جماعت اسلامی کے رہنما لیاقت بلوچ بھی شامل تھے۔

1961 سے 1967 تک وہ پاکستان پریس انٹرنیشنل (پی پی آئی) کے رپورٹر اور نیوز بیورو چیف رہے۔ اور اسی دوران پاکستان فیڈریشن آف یونین آف جرنلسٹ (پی ایف یو جے) میں پانچ بار عہدیدار منتخب ہوئے۔ وہ 1962 تک ریڈیو پاکستان پر پر مبصر اور تجزیہ کار رہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے پاکستان ٹیلی وژن، وائس آف امریکا، بی بی سی، ریڈیو جرمنی، ریوٹر اور اے پی اے کے پروگرامز میں بھی شرکت کی۔

جون 2010 میں انہیں پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کا سربراہ منتخب کیا گیا۔

ڈاکٹر مہدی حسن کی تصانیف میں جدید ابلاغِ عام، تصویری صحافت، The Political History of Pakistan اور Journalism for All کو خاص اہمیت حاصل ہے۔

(بشکریہ ہم سب)

پاکستان میں میڈیا 'آزاد' ہوا تو ڈاکٹر مہدی حسن بھی ٹی وی چینلز پر مدعو کیے جانے لگے۔ جنرل پرویز مشرف کا دور تھا۔ ریاست کا فیصلہ تھا کہ اب کچھ عرصہ 'آزاد خیال اعتدال پسندی' کو پروان چڑھایا جائے۔ نجی ٹیلی وثن کے ذریعے معاشرے کو لاحق بڑے سوالات سے جھوجھنے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ جیو نیوز پر 50 منٹ اور الف جیسی کاوشیں، حدود آرڈیننس کے لئے دی گریٹ ڈیبیٹ کا انعقاد، اے آر وائے پر ڈاکٹر شاہد مسعود کی میزبانی میں نظریۂ پاکستان اور اسلامی ریاست، اسلامی تاریخ، خدا کی ہئیت، مذہب کی تاریخ جیسے حساس فلسفیانہ موضوعات پر مباحث پیش کیے گئے۔ ڈاکٹر مہدی حسن ایک ترقی پسند سوچ کے حامل مفکر تھے۔ انہیں ان پروگرامز میں مدعو کیا جاتا۔ یہ میزبان کے اٹھائے گئے سوالات پر روٹین سے ہٹ کر جوابات دیتے۔ مثلاً پاکستان میں چند ہی برسوں میں ہزاروں کی تعداد میں مدرسے کھلنے پر وہ پوچھتے کہ ان مدرسوں نے سائنسدان تو چھوڑیے، کوئی عالمی سطح کا عالمِ دین ہی پیدا کیا ہو تو بتائیے؟ فکرِ اقبال کی بابت سوال ہوتا تو مغرب پر تبرا کرنے والے اشعار کی بجائے ان کے Reconstruction of Religious Thought in Islam کے لیکچرز کے حوالے دیتے، ریاست میں مذہب کے کردار پر بحث کرتے۔ نوجوانوں کو سیکھنے کا موقع ملتا۔

لیکن پھر کچھ تو ریاست اور کچھ دہشتگردی کے عفریت نے میڈیا کی نام نہاد آزادی بھی گنگ کر لی۔ اب یہاں دن رات غیر ملکی سازش، کرپشن کے جھوٹے سچے الزامات اور رات گئے سٹیج ڈراموں کی جگتوں کے مقابلے ہوتے ہیں۔ کچھ ڈاکٹر اسرار جیسے علما بھی اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے کہ جو منطقی بات کا منطقی جواب دینے کی اہلیت رکھتے تھے۔ ان کی جگہ اوریا مقبول جانوں اور مفتی عبدالقویوں نے لے لی۔ یہاں بحث میں اب گالم گلوچ ہوتی ہے۔ صحافی سے بھی اس کی پسندیدہ جماعت کے لئے مشکل سوال کر لیا جائے تو جواب دینے کی بجائے جمہوریت اور معاشرے پر لعن طعن کرنے لگتا ہے۔

ڈاکٹر مہدی حسن کا یہ مقام نہیں تھا۔ گذشتہ چند سالوں میں ٹی وی سے ڈاکٹر مہدی حسن نہیں، تہذیب اٹھ چکی ہے۔ وہ کسی اور جہان کے لوگ تھے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال، ڈاکٹر محمد فاروق خان تو چلے انتقال کر گئے یا قتل کر دیے گئے، ڈاکٹر مبارک علی تو حیات ہیں۔ لیکن ہمارے میڈیا میں اب ان لوگوں کی جگہ نہیں۔ معاشرے میں بھی اب برداشت ختم ہو چکی۔ وہ مباحث جو ٹیلی وژن پر ہو رہے تھے، ان پر اب لوگ قتل ہو جاتے ہیں۔ زندہ ہی جلا کر بھسم کر دیے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر مہدی حسن کے لئے بہت سارے لوگوں نے سوشل میڈیا پر لکھا 'ایک عہد جو تمام ہوا'۔ عرض بس یہ تھی کہ وہ عہد تو کب کا تمام ہو چکا۔