• آن لائن اشتہاری ٹیرف
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • ہمارے لئے لکھیں
  • نیا دور انگریزی میں
بدھ, مارچ 29, 2023
نیا دور
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
نیا دور
No Result
View All Result

کراچی میں شدید گرمی کی لہر کو ‘آفت’ نہیں سمجھا جا رہا؟

محمد توحید by محمد توحید
مئی 21, 2022
in فیچر
15 0
0
کراچی میں شدید گرمی کی لہر کو ‘آفت’ نہیں سمجھا جا رہا؟
18
SHARES
85
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on Whatsapp

کئی اور ممالک کی طرح پاکستان میں بھی ‘ہیٹ ویوز یا شدید گرمی کی لہر’ کو قدرتی آفت قرار نہیں دیا جاتا بلکہ اسے موسم کی عارضی سختی ہی سمجھا جا رہا ہے۔ اگر کوئی شہر سیلاب، طوفان یا زلزلے جیسی قدرتی آفت کا شکار ہوں تو اس کا اثر فوری طور پر نظر آتا ہے۔

اگر ایسا ہو تو ادارے متحرک ہو جاتے ہیں جبکہ ہیٹ ویو کے اثرات ضروری نہیں کہ فوری طور پر سامنے آئیں۔ بعض اوقات ہیٹ ویو عمر رسیدہ افراد اور ان کے امراض کو ناصرف پیچیدہ کرتی ہیں بلکہ مختلف بیماریوں کا سبب بھی بنتی ہیں جبکہ ایسے واقعات بھی سامنے آئے کہ شدید گرمی کے باعث طبیعت خراب ہوئی اور بہتر ہو گئی مگر کچھ سالوں بعد مختلف بیماریوں نے شدت سے آ گھیرا۔

RelatedPosts

چین پاکستان اقتصادی راہداری میں کوئلے کی واپسی

چین نے 2 ارب ڈالرز قرض کی ادائیگی رول اوور کر دی: وزیر خزانہ

Load More

ایک دہائی قبل تک پاکستان کے ساحلی شہر کراچی میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ پر غالب گفتگو بڑے پیمانے پر صرف ‘شہری سیلاب’ پر مرکوز تھی اور گرمی کی لہر کبھی اس گفتگو میں شامل نہیں تھی۔ یہاں تک کہ ملٹی ہیزرڈ ہنگامی منصوبہ (2013) میں، سندھ کے تناظر میں بطور خطرہ ‘ گرمی’ کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔ لیکن 2015 کی ہیٹ ویو نے پورے منظر نامے کو تبدیل کر دیا اور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کو ایک آفت کے طور سمجھنے کا عمل شروع ہوا اور یہ بات یہیں تک محدود نہیں رہی بلکہ 2015 کے اندوہناک واقعے کے بعد ہیٹ ویو کے انتظام کے بارے میں ریاست نے وسیع پیمانے پر بات چیت شروع کر دی۔ اس واقعے کے نتیجے میں 2017 میں کراچی ہیٹ ویو مینجمنٹ پلان کراچی کمشنر آفس، حکومت سندھ اور لیڈرشپ فار انوائرمنٹ اینڈ ڈویلپمنٹ (LEAD) پاکستان کے تعاون سے تیار کیا گیا۔

ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن (ڈبلیو ایم او) کے مطابق “گرمی کی لہر اس وقت ہوتی ہے جب مسلسل پانچ دن کا درجہ حرارت (اوسطاً زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت سے) 5 سینٹی گریڈ سے تجاوز کر جائے۔” لیکن یہ بات بھی اہم ہے کہ ہیٹ ویو کا تعین مقامی سطح کے متعلقہ موسمی حالات کی بنیاد پر کیا جاتا ہے اور اس کی کوئی عالمگیر تعریف نہیں ہے۔

کراچی کی گرمی کی لہر سے متعلق رپورٹس اس اہم نکتے کی تائید تو ضرور کرتی ہیں لیکن ہیٹ ویو کی اس تعریف کو بیان نہیں کرتیں جو کہ کراچی میں گرمی کی شدید لہر کا سبب بنتی ہے اور حد درجہ نمی کی وجہ سے پیچیدہ ہے۔ کراچی کی گرمی کی لہروں کو “نم ہیٹ ویو” کے طور پر بیان کیا جاتا ہے لیکن ان کی درجہ بندی کے لیے کوئی خاص اشارے موجود نہیں ہیں۔ مزید یہ کہ کوئی ٹھوس تعریف دیگر کلیدی عوامل (جیسے کہ مسلسل درجہ حرارت کے ساتھ دنوں کی تعداد، ہیٹ انڈیکس ویلیوز اور نمی) سے وابستہ نہیں ہیں۔

2007 میں وفاق کی سطح پر نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) تشکیل دی گئی تھی اور اسے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ آرڈیننس 2006 کے تحت قائم کیا گیا تھا۔ اس کا کام پورے ڈیزاسٹر مینجمنٹ دورانیہ کا انتظام کرنا ہے جس میں تیاری، خطرے کی شدت میں کمی اور بحالی شامل ہے۔

اسی طرح 2010 میں صوبائی اور ضلع کی سطح پر ‘صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی اور ڈسٹرکٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی ‘نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ 2010 کے تحت قائم کی گئیں۔ ایمرجنسی کی صورت میں، صوبائی اتھارٹی ضلعی حکومتوں کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے تاکہ تباہی سے متاثرہ علاقوں کا ابتدائی جائزہ لیا جائے اور متاثرہ آبادی کی بحالی کو یقینی بنانے کے لیے کارروائی کا طریقہ کار طے کیا جائے۔ آفات یعنی ڈیزاسٹر کے اثرات کو ختم کرنے میں اداروں کی کارکردگی ایک علیحدہ بحث ہے جبکہ ہم ان آفات میں سے صرف ایک جز کو دیکھ رہے ہیں یعنی’ ہیٹ ویو’۔

ڈسٹرکٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کا قیام تو ہوا مگر زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ ضلعوں کی سطح پر ان کا انتظامی انفراسٹرکچر موجود نہیں ہیں بلکہ دوسرے ریاستی اداروں کو اضافی ذمہ داری کے طور پر یہ کام سونپا جاتا ہے جبکہ تباہی اور آفت کی صورت میں کسی پلان پر عمل درآمد کرانے کی ذمہ داری ڈسٹرکٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی ہے تو اگر اس سطح پر ادارہ مضبوط نہ ہو مسائل کا حل مشکل ہے۔ اسی طرح کہ آفات سے نمٹنے میں شہری دفاع اور اس کے رضا کاروں کا کردار کسی تعارف کا محتاج نہیں مگر اب شہری دفاع کے دفاتر خال خال ہی نظر آتے ہیں۔

ریاستی کردار کے ساتھ درجنوں غیر ریاستی کردار کراچی کی شدید گرمی کو کم کرنے اور اس سے نمٹنے کے لئے کام کر رہے ہیں جن میں این جی اوز، انسان دوست تنظیمیں اور بین الاقوامی تنظیموں سے لے کر میڈیکل یونیورسٹیوں اور کارپوریٹ اداروں کے لوگ بھی شامل نظر آتے ہیں۔ جیسے شہری، اربن ریسورس سینٹر، ہینڈز، کاریتاس پاکستان، ایدھی فاؤنڈیشن، عالمگیر ٹرسٹ، فیضان گلوبل ریلیف فاؤنڈیشن (ایف جی آر ایف)، الخدمت، فروزاں کے ساتھ ساتھ ریڈ کراس، ریڈ کریسنٹ جیسی بین الاقوامی تنظیمیں شامل ہیں۔ ان میں سے کچھ ہیٹ ویو الرٹ کے دنوں میں ایمبولینس سروسز اور طبی امداد فراہم کرنے کے لیے سٹینڈ بائی بنیاد پر کام کرتی ہے جبکہ کچھ ادارے خاص طور پر گرمی کے خطرے کو کم کرنے کے لیے زمینی امدادی کام کے ساتھ سرگرم ہیں۔ اور الرٹ جاری ہونے پر شہر بھر میں ہیٹ ویو ریلیف کیمپ بھی لگاتے ہیں۔

ہماری ایک ورکشاپ میں الخدمت فاؤنڈیشن کے ایک سینئر نمائندے نے ایک اہم نکتہ بیان کیا جس سے ہیٹ گورننس اور اس کے سکیل کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ ان کے مطابق: این جی اوز ایک چھوٹا سا نقطہ ہیں۔ ریاست کا کردار کم ہو رہا ہے اور نجی اداروں کا کردار بڑھ رہا ہے۔ لیکن ہم اس طرح کا مقابلہ نہیں کر سکتے جو ریاست کر سکتی ہے۔

شہر کراچی کے مکینوں نے جون 2015 میں ایک ہفتہ طویل ہیٹ ویو کا تجربہ کیا جبکہ رمضان کا مہینہ تھا اور گرمی کی شدت کو 50 سالوں میں پاکستان میں آنے والی مہلک ترین اور ہلاکت خیز ہیٹ ویو تصور کیا گیا۔ 19 اور 23 جون کے درمیان، سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 1181 افراد ہلاک ہوئے جب درجہ حرارت بڑھ کر 44 سینٹی گریڈ ہو گیا اور محسوس کیا جانے والا درجہ حرارت 66 سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا تھا۔ اگرچہ یہ شہر کی تاریخ کا ریکارڈ توڑ درجہ حرارت نہیں تھا کیونکہ تاریخی شواہد کے مطابق 1938 میں مئی اور جون کے مہینوں میں زیادہ سے زیادہ درج شدہ درجہ حرارت 47 اعشاریہ 8 جبکہ 1979 میں 47 سینٹی گریڈ تھا۔ لیکن اس وقت وہ درجہ حرارت اتنا مہلک اور ہلاکت خیز نہ تھا۔

تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ زیادہ تر اموات کم آمدنی والے علاقوں میں ہوئی ہیں اور ان میں مزدور اور بے گھر لوگ شامل تھے۔ اگرچہ سرکاری اعداوشمار زمینی اور ماحولیاتی اثرات کو سمجھنے کے لئے محدود ہیں یعنی یہ واضح نہیں ہوتا کہ وہ بنیادی عوامل کیا تھے جس کے سبب اتنی اموات ہوئیں۔ جیسے کہ قدرتی اور تعمیر شدہ ماحول کے حوالے سے بعض عوامل (مثال کے طور پر اردگرد کی آبادی کا دباؤ، گھر کی تعمیر کا سامان، بنیادی سہولیات تک رسائی اور کام کی جگہ کے حالات) ہیٹ ویو کے دنوں میں زیادہ درجہ حرارت کے اثرات کو بڑھا سکتے ہیں۔

کراچی ہیٹ ویو مینجمنٹ پلان کی دستاویز کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ پلان اصل میں ہندوستانی شہر احمد آباد کے لیے تیار کردہ ٹیمپلیٹ کی پیروی کرتا ہے جہاں اسی طرح کی ہیٹ ویو کا تجربہ رہا ہے۔ اگرچہ یہ پلان ہیٹ ویو سے نمٹنے کے لیے وسیع معیار کی حکمت عملی بیان کرتا ہے لیکن یہ بھی ہیٹ ویو کی مخصوص تعریف نہیں کرتا ہے اور نہ ہی کراچی کے مختلف مائیکرو کلائمیٹ کے مطابق ان حالات سے نمٹنے کی حکمت عملی وضح کرتا ہے۔ لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ واحد ہیٹ ویو ایکشن پلان ہے جو پاکستان کے کسی بھی شہر کے لیے تیار کیا گیا ہے۔

اسی طرح نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی 2015 کی رپورٹ وہ پہلا موقع تھا جب این ڈی ایم اے نے گرمی کی لہر (ہیٹ ویو) کو تباہی/ آفت سمجھا بلکہ اپنی رپورٹ میں کہا کہ سال 2015 میں کئی اہم واقعات ہوئے جن میں سیلاب اور زلزلے کے ساتھ ساتھ ‘ ہیٹ ویو’ کو بھی شامل کیا گیا۔ اس کے بعد بھی 2016 اور 2017 کی رپورٹ میں این ڈی ایم اے نے گرمی کی لہر سے آگاہی کے لئے اٹھائے گئے اقدامات کا ذکر کیا۔

مگر سوال یہ تھا کہ کیا حقیقتاً گرمی کی لہر کو ایک آفت کے طور پر سمجھا جا رہا ہے یا یہ صرف 2015 میں ہونے والے واقعے کی بدولت ہے۔ اس کے لئے ہم نے این ڈی ایم اے کی ویب سائٹ اور دیگر رپورٹس کو دیکھا تو پتہ چلا کہ ڈیزاسٹر کے سیاق وسباق میں ابھی تک ہیٹ ویو کو شامل ہی نہیں کیا گیا ہے۔ قدرتی آفات کی فہرست میں لو یا ’ہیٹ ویو‘ کا ذکر نہیں ہے جس کے تحت متاثر ہونے والوں کو امداد دی جا سکے۔ حاصل گفتگو یہ ہے کہ متعلقہ اداروں کو فعال کرنے کے ساتھ ساتھ قومی سطح پر گرمی کی لہر (ہیٹ ویو) سے متعلق واقعات کو قانون سازی میں تباہی/ آفت کے طور پر شامل کرنے کی فوری ضرورت ہے۔

Tags: Climate ChangeHeat waveKarachipakistanweatherپاکستانکلائمنٹ چینجگرمی کی لہرموسمیاتی تبدیلیہیٹ ویو
Previous Post

چترال میں پی ٹی آئی کا جلسہ، پی ڈی ایم کے خلاف شدید نعرہ بازی، فوری الیکشن کا مطالبہ

Next Post

حکومتی پابندیوں کے باوجود پاکستانی بیرون ملک سے کیا چیزیں لا سکتے ہیں؟

محمد توحید

محمد توحید

اربن پلانر، ریسرچر کراچی اربن لیب آئی بی اے

Related Posts

انگریز سامراج کے خلاف آزادی کی جنگ لڑنے والا بھگت سنگھ ہمارا ہیرو کیوں نہیں بن سکا؟

انگریز سامراج کے خلاف آزادی کی جنگ لڑنے والا بھگت سنگھ ہمارا ہیرو کیوں نہیں بن سکا؟

by خضر حیات
مارچ 25, 2023
0

آج 23 مارچ کا دن ہے اور اسے ہم قرار داد پاکستان کے حوالے سے یاد کرتے ہیں۔ 1940 میں اسی روز...

گورنر جنرل غلام محمد جنہوں نے سیاست میں فوجی اور عدالتی مداخلت کی بنیاد رکھی

گورنر جنرل غلام محمد جنہوں نے سیاست میں فوجی اور عدالتی مداخلت کی بنیاد رکھی

by خضر حیات
مارچ 21, 2023
0

پاکستان کی تاریخ میں کئی ڈرامائی کردار آئے اور عجیب و غریب کرتب دکھا کر منظر عام سے ہٹتے چلے گئے۔ انہی...

Load More
Next Post
حکومتی پابندیوں کے باوجود پاکستانی بیرون ملک سے کیا چیزیں لا سکتے ہیں؟

حکومتی پابندیوں کے باوجود پاکستانی بیرون ملک سے کیا چیزیں لا سکتے ہیں؟

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

No Result
View All Result

ایڈیٹر کی پسند

ہائبرڈ دور میں صحافت پر حملے؛ ذمہ دار عمران خان یا جنرل باجوہ؟ (پارٹ 1)

ہائبرڈ دور میں صحافت پر حملے؛ ذمہ دار عمران خان یا جنرل باجوہ؟ (پارٹ 1)

by شاہد میتلا
مارچ 22, 2023
1

...

معاشی لحاظ سے پاکستان کس طرح خود انحصاری حاصل کر سکتا ہے؟

معاشی لحاظ سے پاکستان کس طرح خود انحصاری حاصل کر سکتا ہے؟

by ہارون خواجہ
مارچ 18, 2023
1

...

عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین جاری کھیل آخری مرحلے میں داخل ہو چکا؟

عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین جاری کھیل آخری مرحلے میں داخل ہو چکا؟

by رضا رومی
مارچ 20, 2023
0

...

توشہ خانہ فہرست شریف خاندان میں دراڑ نہیں، شاہد خاقان کی علیحدگی کا اعلان ہے

توشہ خانہ فہرست شریف خاندان میں دراڑ نہیں، شاہد خاقان کی علیحدگی کا اعلان ہے

by مزمل سہروردی
مارچ 15, 2023
1

...

جنرل فیض حمید

نواز شریف کو نکالنے کے ‘پروجیکٹ’ میں باجوہ اور فیض کے علاوہ بھی جرنیل شامل تھے، اسد طور نے نام بتا دیے

by نیا دور
مارچ 14, 2023
0

...

Newsletter

ہماری مدد کریں

ٹویٹس - NayaDaur Urdu

نیا دور کے صفِ اوّل کے مصنفین

پیٹر جیکب
پیٹر جیکب
View Posts →
حسن مجتبیٰ
حسن مجتبیٰ
View Posts →
عرفان صدیقی
عرفان صدیقی
View Posts →
نجم سیٹھی
نجم سیٹھی
View Posts →
نبیلہ فیروز
نبیلہ فیروز
View Posts →
محمد شہزاد
محمد شہزاد
View Posts →
توصیف احمد خان
توصیف احمد خان
View Posts →
رفعت اللہ اورکزئی
رفعت اللہ اورکزئی
View Posts →
فوزیہ یزدانی
فوزیہ یزدانی
View Posts →
حسنین جمیل
حسنین جمیل
View Posts →
مرتضیٰ سولنگی
مرتضیٰ سولنگی
View Posts →
اسد علی طور
اسد علی طور
View Posts →
ادریس بابر
ادریس بابر
View Posts →
رضا رومی
رضا رومی
View Posts →
علی وارثی
علی وارثی
View Posts →

This message is only visible to admins.
Problem displaying Facebook posts.
Click to show error
Error: Server configuration issue

خبریں، تازہ خبریں

  • All
  • انٹرٹینمنٹ
  • سیاست
  • ثقافت
کم از کم اجرت 20 ہزار، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ: بجٹ 2021 پیش کر دیا گیا

اقتدار کے ایوانوں سے جلد کسی ‘بڑی چھٹی’ کا امکان ہے؟

اکتوبر 31, 2021
ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

اکتوبر 27, 2021
بد ترین کارکردگی پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا، صرف ای وی ایم کے ذریعے جیتا جاسکتا ہے

ای وی ایم اور انتخابات: ‘خان صاحب سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ لینے کے لیئے بے تاب ہیں’

اکتوبر 24, 2021

Naya Daur © All Rights Reserved

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English

Naya Daur © All Rights Reserved

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In