آپریشن جبرالٹر، جس کی ناکامی سے 1965 کی جنگ شروع ہوئی

آپریشن جبرالٹر، جس کی ناکامی سے 1965 کی جنگ شروع ہوئی

1947ء میں برصغیر پاک و ہند کی تقسیم جس قدر عجلت میں وقوع پذیر ہوئی اس نے کئی نئے مسئلے پیدا کر دیے۔ اگست 1947ء میں برصغیر پاک و ہند میں ساڑھے پانچ سو سے زیادہ آزاد ریاستیں قائم تھیں۔ تقسیم کے فارمولے میں ان آزاد ریاستوں کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ اپنی مرضی سے پاکستان یا ہندوستان کے ساتھ الحاق کرلیں۔ انہی ریاستوں میں سے ایک ریاست آزاد جموں و کشمیر بھی تھی۔ ریاست کی اکثریتی آبادی مسلمانوں پر مشتمل تھی اور اسی بنیاد پر یہ توقع کی جا رہی تھی کہ یہ ریاست پاکستان کا حصہ بنے گی۔ مگر ریاست کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا۔ اس فیصلے کی مخالفت میں پاکستان سے مجاہدین نے کشمیر میں داخل ہو کر ریاست کشمیر کا کچھ حصہ بھارت سے آزاد کروا لیا جسے آزاد کشمیر کا نام دیا گیا۔ ریاست کشمیر کا جو حصہ حسب سابق بھارت میں شامل رہا اسے جموں و کشمیر کا نام دیا گیا۔

1949ء میں جنرل ایوب خان مسلح افواج کے کمانڈر انچیف بنے اور اکتوبر 1958ء میں انہوں نے 1956ء کا آئین معطل کرکے میجر جنرل اسکندر مرزا کو رخصت کر دیا اور ملک میں پہلا مارشل لاء نافذ کرکے ملک کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن گئے۔ 1962ء میں بھارت اور چین کے مابین جنگ ہوئی جس میں بھارتی فوج کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ایوب خان اس جنگ سے پہلے تک کشمیر میں کسی قسم کی مداخلت کرنے کے حق میں نہیں تھے مگر جب انھوں نے چینی فوج کے سامنے بھارتی فوج کی ناقص کارکردگی دیکھی تو ان کے ذہن میں نیا منصوبہ بننا شروع ہو گیا۔ ایوب خان کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے بھی انھیں مشورہ دیا کہ کشمیر کو واپس لینے کا وقت آ گیا ہے۔

اپریل 1965ء میں رن آف کچھ کے علاقے میں پاکستانی اور بھارتی فوجوں کے مابین کچھ جھڑپیں ہوئیں۔ ان جھڑپوں کے دوران بھی بھارتی فوج کے حوصلے کمزور نظر آئے۔ اس تناظر میں جنرل ایوب خان نے پاکستانی فوج کو ہدایت جاری کی کہ وہ ایسی کارروائی کریں کہ جنگ چھیڑے بغیر بھارت کو مذاکرات کی میز پر آنے پر مجبور کر دیا جائے۔ انھوں نے پاکستانی فوج کے جوانوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے یہ بھی کہا کہ ایک مسلمان سپاہی دس ہندو سپاہیوں کے برابر ہے۔ چنانچہ اکتوبر 1947ء کو کشمیر کو بھارت سے آزاد کروانے کا جو منصوبہ ناکام ہوگیا تھا اسے پھر سے کامیاب بنانے کے لیے 5 اگست 1965ء کو پاکستانی فوج نے آپریشن جبرالٹر شروع کیا۔ اس آپریشن کے تحت کم از کم 7 ہزار اور زیادہ سے زیادہ 20 ہزار مجاہدین بھرتی کیے گئے اور پاکستانی فوج نے انھیں تربیت دینے کے بعد بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں داخل ہونے کے لیے بھیجا۔



منصوبہ یہ تھا کہ پاکستانی فوج کی جانب سے تربیت یافتہ یہ مجاہدین مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوکر بھارتی تنصیبات پر حملے کریں گے اور ان کا مواصلات کا نظام تباہ کر دیں گے۔ دوسری اہم ذمہ داری جو ان مجاہدین کو دی گئی وہ بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں بھارتی فوج اور بھارتی تسلط کے خلاف مقامی طور پہ بغاوت کا آغاز کرنا تھا۔

آپریشن جبرالٹر مختلف وجوہات کی بنا پر اپنے مقاصد حاصل کرنے میں بری طرح ناکام ہوگیا۔ جو مجاہدین بھارتی زیرانتظام کشمیر میں داخل کیے گئے تھے وہ مقامی کشمیریوں سے اعتماد کا رشتہ استوار کرنے میں ناکام ہوگئے۔ اس ناکامی کی سب سے بڑی وجہ تو یہ تھی کہ مجاہدین مقامی لوگوں کی زبان سے ناواقف تھے۔ ان میں سے بعض کو بھارتی فوج نے گرفتار کرکے آل انڈیا ریڈیو پر پیش کردیا جہاں انھوں نے پاکستانی منصوبے سے پردہ اٹھا دیا۔

اس کے ساتھ ہی پاکستانی فوج نے آپریشن گرینڈ سلام کا آغاز کر دیا۔ اس آپریشن کے تحت اکھنور کے قصبے پر قبضہ کرنا تھا۔ جنرل ایوب خان کے مطابق چونکہ اکھنور کا قصبہ کشمیر کو بھارت سے ملاتا ہے اس لیے اکھنور پر قبضہ کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ بھارتی فوج مقبوضہ کشمیر میں ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو جائے گی۔ آپریشن گرینڈ سلام کے آغاز میں پاکستان کو خاطر خواہ کامیابی ملی مگر عین آپریشن کے درمیان میں کمانڈر انچیف جنرل موسیٰ خان کے ڈویژن کمانڈر تبدیل کرنے کے فیصلے نے بازی بھارت کے حق میں پلٹ دی۔

ایک بھارتی جنرل کا کہنا تھا کہ عین اس وقت جب اکھنور کا قصبہ پکے ہوئے پھل کی طرح پاکستان کی جھولی میں گرنے کو تیار تھا اس وقت پاکستانی فوج کی طرف سے ڈویژن کمانڈروں کی تبدیلی نے بھارتی فوج کو بچا لیا۔ ساتویں انفنٹری ڈویژن کے نئے کمانڈر میجر جنرل یحییٰ خان بنے جنھوں نے بعد میں یہ کہا کہ انھیں اکھنور پر قبضہ کرنے کا ٹاسک دیا ہی نہیں گیا تھا۔

بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں پاکستانی فوج کی پیش قدمیوں کے جواب میں 6 ستمبر 1965ء کو لاہور پر حملہ کر دیا۔ پاکستان کا یہ دعویٰ کہ بھارت کا پاکستان پر حملہ بلااشتعال تھا سراسر بے بنیاد ہے۔ پاکستان شاید یہ توقع نہیں کر رہا تھا کہ بھارت لاہور پر حملہ کر دے گا ورنہ ایک ماہ سے کشمیر میں جس طرح سے پاکستان نے کارروائیوں کا آغاز کر رکھا تھا اس کے جواب بھارت نے کسی نہ کسی صورت میں ضرور دینا تھا۔ ایک دہائی پہلے بھارت کے وزیراعظم جواہر لعل نہرو کہہ چکے تھے کہ پاکستان کی جانب سے کشمیر میں مداخلت کا نتیجہ دونوں ملکوں کے مابین جنگ کی صورت میں سامنے آئےگا۔

جواہر لعل نہرو کے بعد بننے والے بھارتی وزیراعظم لال بہادر شاستری بھی رن آف کچھ کی جھڑپوں کے بعد پاکستان کو یہ وارننگ دے چکے تھے کہ کشمیر میں مداخلت کا نتیجہ جنگ کی صورت میں نکلے گا۔ مگر پاکستانی فوجی حکام ان تمام تنبیہات پر کان دھرنے کو تیار ہی نہیں تھے۔ اسی کج روی کا نتیجہ یہ نکلا کہ آپریشن جبرالٹر بری طرح ناکام ہوگیا اور اس کے نتیجے میں پاکستان بھارت کے ساتھ جس جنگ میں داخل ہوا اس میں بھی پاکستانی فوج کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔

شجاع نواز اپنی کتاب Crossed Swords میں لکھتے ہیں کہ بیرونی جنگوں میں سینئر فوج افسران کے غلط اندازوں اور ناقص منصوبہ بندیوں نے ماتحت کمانڈروں اور عام فوجیوں کو بار بار مایوس کیا ہے۔

1965 میں پاکستانی فضائیہ کی کمان کرنے والے ریٹائرڈ ایئرمارشل نور خان نے ڈان اخبار کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ بری فوج نے قوم کو ایک بڑا جھوٹ بول کر گمراہ کیا کہ یہ جنگ پاکستان نے نہیں بلکہ بھارت نے چھیڑی تھی اور پاکستان کو اس میں بڑی فتح ملی۔ ان کے مطابق اب چونکہ اس جھوٹ کی تصحیح نہیں کی گئی اس لیے فوج اپنی ہی بنائی ہوئی کہانی پر یقین کرنے لگی ہے اور غیر ضروری جنگیں لڑ رہی ہے۔

خضر حیات فلسفے کے طالب علم ہیں اور عالمی ادب، سنیما اور موسیقی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ وہ نیا دور کے ساتھ بطور تحقیق کار اور لکھاری منسلک ہیں۔